اجودھیا تنازع پر سپریم کورٹ کی مذاکرات کی تجویز پر بورڈ کے اکابرین میں اختلاف سے عام مسلمانوں میں اضطراب

قاسم سید
اجودھیا مسئلہ بات چیت سے حل کرنے کے سپریم کورٹ کے مشورہ نے قومی سیاست میں ہلچل مچاد ی ہے اور یہ معاملہ ایک بار پھر تمام ایشوز پر حاوی ہوتا نظر آرہا ہے مرکزی حکومت اور اترپردیش کے وزیر اعلی نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاملہ جذبات، آستھا اور مذہب کا ہے فریقوں کو مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس نے ثالثی کی بھی پیش کش کی ہے جس کے سبب مذاکرات کی نوعیت مختلف نظر آتی ہے ۔اس دوران سبرامنیم سوامی کی دھمکی بھری پیش کش بھی آئی کہ مسلمان مذاکرات پر راضی ہوجائیں ورنہ 2018 میں جب راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی کو اکثریت مل جائے گی قانون بنا کر رام مندر بنا لیا جائے گا ۔اوما بھارتی نے کہا کہ مندر وہیں بنے گا جہاں رام للا براجمان ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بات چیت کا ایجنڈہ کیا ہو سکتا ہے۔

مسلمانوں کا سب سے باوقار نمائندہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لاء بورڈ اس معاملہ پر یکسو نظر نہیں آتا۔ اکابرین بورڈ کے بیانات سے لگتا ہے کہ کہ مذاکرات کے سوال پر وہ اختلافات کے شکار ہیں اور بورڈ کو ئی مجموعی رائے قوم کے سامنے پیش نہیں کر سکا جس کے سبب سواد اعظم الجھن کا شکار ہے، بورڈ کے معزز اراکین کے بیانات سے صحیح تصویر بن کر نہیں ابھرتی شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بورڈ اب تک اپنا باضابطہ ترجمان مقرر نہیں کرسکا ۔ حالانکہ ملت جس طرح کے مسائل سے دوچار ہے اور بورڈ کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ایک ایسے ترجمان کی شدید ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے جو شرعی امور کا واقف کا رہو ، ہندوستانی آئین کو بھی سمجھتا ہو ،سنجیدہ باوقار ہو کوئی سیاسی وابستگی نہ ہو اور خود ذاتی زندگی میں بھی شریعت کا پاس و لحاظ رکھتا ہو۔

★ بورڈ کے معزز اراکین کے بیانات سے صحیح تصویر بن کر نہیں ابھرتی شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بورڈ اب تک اپنا باضابطہ ترجمان مقرر نہیں کرسکا ۔حالانکہ ملت جس طرح کے مسائل سے دو چار ہے اور بورڈ کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ایک ایسے ترجمان کی شدید ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے جو شرعی امور کا واقف کا رہو ،ہندوستانی آئین کو بھی سمجھتا ہو، سنجیدہ باوقار ہو کوئی سیاسی وابستگی نہ ہو اور خود ذاتی زندگی میں بھی شریعت کا پاس و لحاظ رکھتا ہو۔

عام آدمی کی خواہش ہے کہ ایسے حساس مسئلے پر  بورڈ کی ہنگامی میٹنگ طلب کرکے اجتماعی موقف طے کیا جائے کیونکہ مسجد مندر تنازع کے ساتھ طلاق ثلاثہ سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ مئی میں آنے کی توقع ہے بغرض محال فیصلہ ہماری خواہش کے مطابق نہیں آتا تو اس صورت میں کیا لائحہ عمل ہوگا اس کی رہنمائی کرنی ہوگی۔ جہاں تک اجودھیا مسئلہ پر سپریم کورٹ کے مشورہ کا تعلق ہے بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نے فرمایا ہے کہ ہم نے بات چیت سے نکار نہیں کیاہے۔ مگر ماضی میں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے تاہم چیف جسٹس آف انڈیا اگر اس حساس مسئلہ کے حل کے لئے خود سامنے آنا چاہتے ہیں تو ان کا خیر مقدم ہے ۔میں ایسی کسی بھی بات چیت کے لئے تیار ہوں بورڈ کے سکریٹری مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے بھی بات چیت کی حمایت کی ان کا کہنا ہے کہ عدالت عظمی کی رائے کا احترام کرنا چاہئے اور تمام فریقوں کو ایک بار پھر مل بیٹھ کر اس کے حل کے لئے سنجیدہ اور ایماندارانہ کوشش کرنی چاہئے۔ مگر ان کے پاس بات چیت کا لوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔

بزرگ رہنما اور جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی بورڈ کی عاملہ کے رکن ہیں، انہوں نے بات چیت کی تجویز کو عدالت عظمی کے مکمل احترام کے ساتھ بے معنی بتایا ان کا خیال ہے کہ 6-7 مرتبہ یہ کوشش ہوئی اور ہر بار ناکامی ہاتھ لگی کیونکہ معاملہ حق اور ملکیت کا ہے سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گا وہ قابل قبول ہوگا۔ عدالت کو ثبوت و شواہد کی روشنی میں حتمی فیصلہ کرنا چاہئے ۔

امیر جماعت اسلامی ہند اور رکن عاملہ مولانا سید جلال الدین عمری نے بھی بات چیت کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے ان کی دلیل ہے کہ پہلے سے طے شدہ بات پر مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ ماضی کے مذاکرات کا تجزیہ تلخ رہا ہے کوئی بات طے کرنے کے بعد دوسرے فریق سے اسے تسلیم کرنے پر زور دیا جاتا رہاہے ۔اور اب بھی یہی ہو رہا ہے انہوں نے بھی چیف جسٹس کی نیت کو شک و شبہ سے بالاتر بتایا۔ بورڈ کی عاملہ کے رکن اور بابری مسجد تحریک سے وابستہ ظفر یاب جیلانی کے مطابق بورڈ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ بات چیت سے اس مسئلہ کے حل کا وقت ختم ہوگیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بورڈ کے سینئر رکن محترم حضرات نے اپنی جماعتوں کا موقف مان لیا جائے تب بھی اختلاف کی بات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے ان حالات میں اس بات کی شدید خدشہ ہے کہ حکومت ایسے لوگوں کو مذاکرات کے لئے راضی کرے جو اس کی حمایت کر رہے ہیں اور انہیں میز پر لاکر بٹھا دے، وہ بھی اس صورت میں جب عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ معاملہ کتنا ہی حساس اور آستھا سے جڑا کیوں نہ ہو آئین و قانون سے نتیجہ نہ نکلنے کی صورت میں وہ تو فیصلہ کرنے کے لئے موجود ہے۔
بہر حال اب تو بورڈ ہی امیدوں کا سہارا ہے اور یہی متحدہ پلیٹ فارم رہ گیا جہاں صدا لگائی جا سکتی ہے۔