مولانا ندیم الواجدی
اترپردیش کے نومنتخب وزیر اعلا آدتیہ ناتھ یوگی نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں بہ حیثیت ممبر آف پارلیمنٹ اپنی الوداعی تقریر کے دوران کہا تھا کہ ان کے صوبے میں بہت کچھ بند ہونے والا ہے، اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر تین سو سے زیادہ غیر قانونی ذبیحہ خانے بند کردئے گئے ہیں، بہت سے قانونی ذبیحہ خانے بھی اس فیصلے سے متأثر ہوئے ہیں اور ان کو بھی بلا کسی جواز کے بند کردیا گیا ہے، حکومت کے اس اقدام سے گوشت فروخت کرنے والوں کی ہزاروں دکانوں پر تالا لگ چکا ہے، اس کاروبار سے منسلک لاکھوں لوگ چشم زدن میں بے روز گار ہوگئے ہیں، پولیس والوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، ذبیحے پر پوری طرح پابندی لگانے کے مقصد سے وہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں گھس کر دیگچیاں اور پتیلے چیک کررہے ہیں، یہ بھی خبریں ہیں کہ بیف کی جستجو میں ان کے قدم شادی کی تقریبات میں بھی پہنچنے لگے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ یوگی حکومت نے اپنے اس ہٹلر شاہی فرمان کے ذریعے مسلمانوں کو ایک بڑا جھٹکا دینے کی کوشش کی ہے کیوں کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس ملک میں گوشت خور صرف مسلمان ہیں، اور گوشت کے کاروبار میں بھی صرف مسلمان ہی لگے ہوئے ہیں، اس فیصلے سے نہ صرف یہ کہ اترپردیش کے مسلمان اپنی مرغوب ترین غذا سے محروم ہوجائیں گے بل کہ جو مسلمان گوشت کاٹنے اور بیچنے میں لگے ہوئے ہیں ان کی کمر بھی ٹوٹ جائے گی، گویا یہ ایک طرح کی سزا ہے جو اس فیصلے کے ذریعے مسلمانوں کو دی گئی ہے، جب کہ زمینی حقیقت اور سچائی یہ ہے کہ اس ملک میں صرف مسلمان ہی گوشت نہیں کھاتے بل کہ برادران وطن کا ایک بڑا طبقہ بھی گوشت کھانا پسند کرتا ہے، جو لوگ صدیوں سے سبزی خور رہے ہیں ان کی نئی نسل اب چکن، مٹن اور بیف میں دلچسپی لینے لگی ہے، ان حالات میں یہ کہنا کہ اس فیصلے سے صرف مسلمانوں کی غذا متأثر ہوگی صحیح نہیں ہے، اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ ذبیحہ خانوں پر پابندی سے صرف مسلمانوں کو اقتصادی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا، سچائی یہ ہے کہ بیف کے بزنس میں برادران وطن کی حصہ داری مسلمانوں کی حصہ داری سے کہیں زیادہ ہے، غیر مسلم بھائیوں کی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں جو اسلامی شناخت رکھنے والے ناموں سے رجسٹرڈ ہیں؛ کیوں کہ ان کا کاروبار عرب ملکوں سے ہے، اترپردیش میں اس طرح کی کمپنیوں کی تعداد اڑتیس بتلائی جاتی ہے، جن میں سے چونتیس غیر مسلم برادران وطن کی ہیں، اس وقت ہندوستان گوشت ایکسپورٹ کرنے کے معاملے میں برازیل کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، اور اترپردیش پورے ملک میں گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا صوبہ ہے، مویشیوں کی پرورش اور افزائش کے لحاظ سے بھی ہمارا صوبہ سب سے آگے ہے، پنجاب اور ہریانہ جیسی چھوٹی ریاستوں میں بھی مویشیوں کے بڑے بڑے فارم ہاؤس ہیں جن کے مالکان غیر مسلم ہیں، اگر ذبیحہ پر پابندی جاری رہتی ہے تو ان فارم ہاؤسوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اسی طرح ان کمپنیوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے جو صوبے کے مختلف ذبیحہ خانوں سے کٹا ہوا مال خرید کر مسلم ملکوں کو سپلائی کرتی ہیں، ماہرین اقتصادیات کی مانیں تو اس پابندی سے ملک کی اکنامی اور صوبے کا ایک بڑا روزگار دونوں راست طور پر متأثر ہوں گے، اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اگر بی جے پی کی حکومت اپنی پوری مدت کار کے دوران ذبیحے پر پابندی جاری رکھتی ہے تو اسے پانچ سال میں چھپن ہزار کڑوڑ کا نقصان برداشت کرنا ہوگا، صوبے کے عوام جن میں ہندو اور مسلمان سب شامل ہیں جو نقصان اٹھائیں گے وہ اس سے الگ ہوگا۔
بہ ظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ پابندی عارضی ہے، کیوں کہ گوشت کا ایکسپورٹ مودی حکومت کی ترقیاتی پالیسی کا حصہ ہے، یوگی اپنے کسی بھی فیصلے سے اس پالیسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کریں گے، رہا یہ سوال کے پھر راتوں رات اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا گیا؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے، بی جے پی نے اپنے انتخائی منشور میں عوام سے ایک وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ اگر وہ برسر اقتدار آئی تو تمام ذبیحہ خانے بند کردئے جائیں گے، امت شاہ برابر اپنی تقریروں میں اس وعدے کا ذکر کررہے تھے، پہلے مرحلے کے انتخابات کے بعد انھوں نے یہ بھی کہنا شروع کردیا تھا کہ ۲۱/ مارچ سے یوپی کے تمام ذبیحہ خانے بند ہوجائیں گے، اقتدار حاصل کرنے کے بعد بی جے پی کی کوشش ہوگی کہ وہ جلد از جلد اپنے وعدے پورے کرے، خاص طور پر ایسے وعدے جن کی بنیاد پر اس نے الیکشن کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی، اس پسِ منظر میں یوگی حکومت کے اس فیصلے پر تعجب کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، البتہ غور وفکر کا پہلو یہ ہے کہ موجودہ مشکل حالات میں مسلمانوں کا رویّہ کیا ہونا چاہئے۔
اس میں شک نہیں کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی باہمی چپقلش اور مسلمانوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے بی جے پی جس قدر طاقت ور بن کر ابھری ہے، اور جس طرح ہندو عوام اس کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اس کی موجودگی میں کوئی احتجاج اس فیصلے کو تبدیل کرانے میں مؤثر ثابت نہیں ہوسکتا، ضروری ہے کہ صبر وتحمل کے ساتھ اس فیصلے کے نتائج کا انتظار کیا جائے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ذبیحہ کرنا نئی مشکلات کھڑی کرسکتا ہے، عدالت سے داد و فریاد کرنا مسئلے کا مناسب حل ہے، لیکن سردست عدالت بھی شاید موجودہ ذبیحہ خانوں میں ذبح کی اجازت دینے پر راضی نہ ہو، کیوں کہ حکومت نے جن شرائط کے ساتھ ذبیحہ خانوں کو اجازت نامے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے وہ پوری طرح حفظان صحت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہیں، عدالت سے یہ امید کم ہی ہے کہ وہ ان اصولوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرے گی اور حکومت کے علی الرغم فیصلہ صادر کردے گی، ہاں عارضی طور پر عدالت کے ذریعے کوئی سہولت مل جائے تو وہ الگ بات ہے۔
غذائی تحفظ کے محکمے کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ مذبح قائم کرنے سے پہلے آپریٹروں کو حکومت سے این اوسی لینا پڑے گا، سلاٹرہاؤس بستی سے باہر ہوں گے، اور اس کے سبھی حصے مکمل طور پر ائرکنڈیشنڈ ہوں گے، چھوٹے بڑے مویشیوں کو ذبح کرنے کے لیے الگ الگ جگہیں ہونی چاہئیں، سلاٹرہاؤسوں میں مکمل طور پر برق کاری ہونی چاہئے، ذبیحہ خانے جراثیم سے مکمل طور پر پاک صاف ہوں، ذبح کرنے والے کو یہ سارٹی فیکٹ دینا ہوگا کہ وہ کسی مہلک متعدی بیماری میں مبتلا نہیں ہے، ذبح سے پہلے جانوروں کو پانی پلانے کا انتظام بھی ضروری ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی جانور مذبوح جانور کو نہ دیکھ پائے، جانور کے باقیات کو ٹھکانے لگانے کے لیے جدید تکنیک اختیار کرنی ہوگی، ذبح شدہ جانوروں کو لٹکانے والے حصے میں کالے شیشے لگانے ہوں گے تاکہ انہیں باہر کی طرف سے نہ دیکھا جاسکے، نالیاں زیر زمین بنائی جائیں گی، جس جگہ ذبیحہ ہو وہاں گرم پانی کا نظم بھی ہونا چاہئے، گوشت رکھنے کی جگہ پر روشنی کا معقول بند وبست ہو، اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ جانور میں کوئی بیماری نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
حکومت نے جن شرائط کے ساتھ ذبیحہ خانوں کو قانون کے دائرے میں لانے کا اعلان کیا ہے ان کی معقولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تمام ترقی یافتہ ممالک میں اس معیار کے ذبیحہ خانے موجود ہیں، سعودی عرب سمیت کئی مسلم ملکوں میں بھی اس طرح کی شرائط پر عمل کیا جاتا ہے، دیکھا جائے تو یہ شرائط صفائی ستھرائی، انسانی صحت، جانوروں کے ساتھ شفقت ورحمت، اور مخلوق خدا کو ایذا رسانی سے بچنے کی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں، اگر ہماری حکومت اس طرح کے ذبیحہ خانے قائم کرنا چاہتی ہے تو ہمارے لیے اس اقدام کی مخالفت کرنا مناسب نہیں ہے، البتہ گوشت کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کی اقتصادی اور معاشی بدحالی یا کمزوری کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس معیار کے ذبیحہ خانے بنانا حکومت کی مالی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے، اگر یوگی حکومت واقعۃً اپنے عوام کے تئیں ہمدردی رکھتی ہے اور وہ اپنے اس فیصلے سے کسی خاص فرقے کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتی تو وہ ایسے سلاٹر ہاؤس تعمیر کرنے میں بلدیاتی اداروں کو مالی امداد فراہم کرے، یا جو لوگ اس طرح کے سلاٹر ہاؤس بنانے میں دل چسپی رکھتے ہوں ان کو بینکوں سے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرائے، صرف اسی ایک صورت سے یہ پیچیدہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے، غیر قانونی ذبیحہ خانوں پر پابندی لگانے کی آڑ میں جائز اور قانونی ذبیحہ خانوں پر پابندی لگانا یا مچھلی اور چکن وغیرہ کی دکانیں بند کرانا غیر منصفانہ عمل ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ پولیس کو اس طرح کار روائیوں سے روکے، ہندو انتہا پسند تنظیموں کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ ہونی چاہئے، جن لوگوں کے کاروبار متأثر ہوئے ہیں ان کی اشک سوئی اور معاونت حکومت کی ذمہ داری ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com