محمد عمر عابدين قاسمی مدنی
بابری مسجد کی شہادت اس ملک کی تاریخ کا بدترین حادثہ اور خود جمہوریت کے نام پر بدنما داغ ہے، دو دہائی گزر نے کے باوجود بابری مسجد کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکا، اس واقعہ نے ثابت کیا کہ جمہوری نظام حکومت انصاف کی فراہمی میں ناکام ہے، اور تازہ تبدیلیوں نے یہ بھی صاف کردیا کہ اس نام نہاد جمہوریت سے کوئی مثبت رویہ کی امید بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔
کسی شرعی مسئلہ کو حل کرنے میں تمام تر فقہی گنجائش اور سلف کے ذخیرہ پر نگاہ رکھنا اصولی موقف ہے، اس میں تنگی یا تعصب کو راہ نہیں دینا چاہیے، اور وہ ” تفقہ ” ہی کیا جو حالات کی رعایت سے عاری ہو ؟!
بابری مسجد کے حوالے سے یہ نئی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ اب تنازل اور مصالحت کی پیشکش پر علماء بھی بحث کو تیار ہوئے جارہے ہیں، مختلف فقہی جزئیات کی بات کی جارہی ہے۔ غور کیا جائے تو اب سے پہلے یہ کیفیت کبھی نظر نہیں آئی۔
خدا جانے یہ ” یوگی سونامی ” کا اثر ہے یا کسی نئے “فقہی انقلاب ” کی آمد ہے ؟
مسجد کی جگہ قابل تبدیل ہے یا نہیں یہ ایک فقہی بحث ہے، جس پر مستقل علمی اسلوب میں قلم اٹھایا جاسکتا ہے، اس موضوع پر فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا مستقل کتابچہ ” مسجد کی شرعی حیثیت ” موجود ہے، مگر واضح رہے کہ تمام فقہی ذخیرہ میں اس بات کا کہیں جواز نہیں ملتا کہ مسجد کو بت خانہ بنانے کے لیے سپرد کردیا جائے، یا بارگاہ خدا کو شرک گاہ میں تبدل کردیا جائے، یہ بات تو اسلام کے متفقہ اصولوں کے خلاف ہے، اس لیئے اس موضوع پر فقہی بحث کی چنداں گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
” بھگوا نظریہ ” نے جب سے ملک کی زمام اقتدار ہاتھ میں لی ہے، اس وقت سے جن مسائل کو ہوا دی جارہی ، جن نظریات کو میڈیا میں بحث کا موضوع بنایا جارہا ، نیز قانون سازی کے ذریعہ ملک کی جو نئی تصویر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؛ یہ کوئی سادہ سی بات نہیں ہے، بلکہ اس کے پس پشت برہمن لوبی اور بهگوا ذہنیت کی منظم پلاننگ کارفرما ہے ، جس کا خلاصہ ایک جملہ میں یوں کیا جاسکتا ہے کہ ” ہندوستان کو زعفرانی رنگ میں رنگ دیا جائے، یا بالفاظ دیگر “یک رنگی ترنگا ” کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا جاسکے۔
بڑی سادہ لوحی کج عقلی اور کوتاہ ذہنی کی بات ہوگی اگر ہم آج بابری مسجد کے مسئلہ کو محض ایک فقہی مسئلہ کی حیثیت سے دیکھیں، اور اس بابت فقہ المقاصد اور حفظ نفس کا سہارا لیں۔
یہاں سرے سے بات بابری مسجد کی نہیں ہے ، یہاں مسئلہ جمہوری اور زعفرانی نظریات کے ٹکڑاؤ کا ہے، یہاں مسئلہ اسلام کواس ملک میں بحیثیت مذہب اور مسلمانوں کو بحیثیت قوم قبول کرنے اور نہ کرنے کا ہے ، یہاں مسئلہ ہندوستان میں ہندوتوا کی سپرمیسی اور مسلم اقلیت کی بے وقعتی کا ہے۔ یہاں مسئلہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا مذہبی تشخص کے ساتھ بقا و عدم بقا کا ہے۔
ملت کے ” بھی خواہ اور صلح جو قائدین ” سنگھ پریوار کے مطالبات کی اس فہرست پر ایک نگاه غلط تو ڈال کر دیکھیں اور اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ :
کیا یہ سیاہ آندهی آپ سے صرف بابری مسجد چھیننا چاہتی ہے ؟
کیا آپ یہ گمان رکھتے ہیں کہ بابری مسجد پر صلح کرکے اس ملک میں آپ کو اول درجہ کا شہری بنادیا جائے گا ؟؟؟
کیا آپ اس خوش فہمی کے شکار ہیں کہ بابری مسجد کے بعد پھر کسی اور مسجد کو ظلم و دہشت کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا؟
کیا آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ بابری مسجد کا ” تحفہ” پیش کرکے آپ شرعی قوانین کی پاسداری کا حق منظور کروا لیں گے؟
کیا آپ یہ امید رکھتے ہیں یہ ” نفع بخش سودا ” آپ کے ملی تشخص کی ضمانت بن جائے گا ؟
اگر ایسا خیال کیا جاتا ہے تو جان لیجئے کہ یہ نہایت گمراہ کن اور نامعقول بات ہوگی، حقیقت یہ ہے کہ سنگھ پریوار کے چشم و ابرو کے جب تک آپ اسیر اور ان کے زعفرانی رنگ میں رنگ نہیں جاتے اس وقت تک نہ آپ کو تسلیم کیا جائے گا اور نہ ہی آپ کے حقوق کو۔
کبھی ہم اس ناحیہ سے کیوں غور نہیں کرتے ہیں کہ ایک جمهوری ملک میں سنگھ پریوار اپنی آئیڈیا لوجی کے ساتھ پیش قدمی کررہا ہے، وہ اپنے کسی نظریہ پر مصالحت کو تیار نہیں، وہ اپنے خاکے کو نافذ کرنے میں نہ اس ملک کے قانون کا لحاظ رکھتا ہے اور نہ عدلیہ و انتظامیہ کو خاطر میں رکھتا ہے ، وہ اپنےتشدد پر مبنی نظام پر کاربند ہے۔ ان کے رویہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ” سمودهان کا اپمان ” کرنا گویا ان کا “دستوری حق ” ہے !
دوسری سمت مسلمان ہیں ؛ جو اس درجہ شکست خوردہ اور بے حوصلہ ہوچکے ہیں کہ اپنے جائز مطالبات و جمہوری حقوق سے بھی دست بردار ہونے کو تیار بیٹھے ہیں، بلکہ رفتہ رفتہ ہوئے جارہے ہیں ! ؎
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیح شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
بات تلخ ہے مگر سچ ہے کہ ؛ جو قوم اپنے مقصد و نظریۂ حیات کو فراموش کردیتی ہے اس کی منزل کھو جاتی ہے اور جو قوم اپنے مقصد حیات پر قائم رہتی ہے وہ اپنی منزل پاہی لیتی ہے۔
خدا کے تخلیقی پلان کے بموجب انسان میں عقل کا عنصر بھی ہے اور جنوں کا جوہر بھی، مگر سوال یہ ہے کہ کیوں کر ہمیشہ خرد ہی کو فیصلہ کا اہل سمجھا جائے اور جنوں کو نااہل؟! ؎
کبھی تو عقل کی پاسبانی جنوں بھی کرے!
کبھی تو خرد کی رہبری عشق بھی کرے
اور کہیں تو ” سنت ابراہیمی ” کا گزر ہو : ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
آج کا ابرہہ اگر خانہ خدا کو ختم کرنا چاہتا ہے تو ہم میں بھی کم از کم عبد المطلب کا کردار تو زندہ ہو :
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
بابری مسجد پر صلح کرلینا گویا شہید کے جسم کا سودا کرنا ہے، ہم کم از کم قانونی جنگ تو لڑسکتے ہیں ،جو فیصلہ ہو قبول کیا جائے گا ، اور یہ حوصلہ بھی ہم مسلمانوں میں ہی ہے، ہندوتوا کے علمبردار تو عدلیہ کی دهجیاں اڑانے کو بھی تیار ہیں .لیکن قانونی جنگ سے دست بردار ہوجانا اور ہندتوا کے مندر پر سرخم کردینا نہ از روئے شرع جائز ہوگا اور نہ ہی جمہوری قدریں اس کی اجازت دیتی ہیں ، نیز تاریخ ایسے مجرموں کو کبھی معاف نہیں کرے۔
omarabedeen@gmail.com