عرصۂ حیات تنگ کرنے کی کوشش

مولانا ندیم الواجدی
یوپی کا انتخاب جیتے نے کے بعد بے جے پی اور اس سے ملتے جلتے نظریات کی حامل تنظیموں کے حوصلے بلند سے بلند تر ہوتے جارہے ہیں، وزیر اعلا آدتیہ ناتھ یوگی نے اپنے اقتدار کے آغاز میں ہی یہ واضح کردیا تھا کہ ان کی سمت سفر کیا ہے اور منزل کونسی ہے، سب سے پہلے انھوں نے گوشت کے کاروبار کو نشانہ بنایا جو مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے لیے اقتصادی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے، یہ صحیح ہے کہ ذبیحہ خانوں کے سلسلے میں پچھلی حکومتوں کی لاپرواہی نے یوپی میں گوشت کا بحران پیدا کیا ہے، آج پورے صوبے کے بڑے سے بڑے شہر اور چھوٹے سے چھوٹے قصبے کے تمام ذبیحہ خانے غیر قانونی قرار دے کر بند کئے جا چکے ہیں، اس کے نتیجے میں ہزاروں دکانوں پر قفل لگ چکا ہے اور لاکھوں لوگ جن کی روزی روٹی اس کاروبار سے وابستہ تھی بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں، حکومت نے جو اصولی اور رہنما ہدایات ذبیحہ خانوں اور گوشت کی دکانوں کے لیے جاری کی ہیں وہ اگر چہ حفظان صحت کے نقطہٴ نظر سے درست ہیں لیکن سردست ان پر عمل کرنا مشکل ہی نظر آرہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یوگی حکومت اس شہ رگ کو ہی کاٹ دینا چاہتی ہے، اس صورت میں وہ اپنے ہندو ووٹروں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ اس نے اپنے مینو فسٹو میں کئے گئے وعدے کے مطابق ”قتل خانے“ بند کردئے ہیں اور ”جیو ہتھیا“ پر پابندی لگا دی ہے، اگر گوشت بندی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یوپی کی وہ اڑتیس کمپنیاں اپنا کام اور زیادہ سہولت اور منفعت کے ساتھ انجام دیتی رہیں گی جن میں سے پینتیس ہندو گھرانوں کی ملکیت ہیں، گوشت کی آڑ میں جس طرح قریشی بھائیوں کے گھروں پر چھاپہ ماری کی جارہی ہے اور ان کے نوجوان لڑکوں کو پابہ جولاں کیا جارہا ہے یہ بڑی تشویش ناک صورت حال ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کا مقصد ذبیحہ کاروبار کو قانون کے دائرے میں لانا نہیں ہے بل کہ اس کو ختم کرنا ہے، مسٹر یوگی اپنے ایک انٹرویو میں صاف کہہ چکے ہیں کہ لوگوں کو شاکاہاری (سبزی خور) ہونا چاہئے، میرے خیال سے وہ مستقبل کے اترپردیش کو گوشت سے پاک دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، گوشت کے معاملے میں سنبھل میں فساد ہوچکا ہے اور حسب سابق مورد الزام مسلمان ہی ٹھہرے ہیں، رات کی تاریکی میں ایک درجن مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے، ہاپوڑ اور رامپور میں بھی پولیس کو ان قریشیوں کی تلاش ہے جو ممنوعہ جانور کاٹنے کے ”جرم“ میں ملوث رہے ہیں، اگر واقعۃً حکومت اس کاروبار کو قانون کے دائرے میں لانا چاہتی ہے اور ذبیحہ خانوں کو ماحولیات سے ہم آہنگ کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ کو ذبیحہ خانوں کے قیام کے لیے مالی امداد فراہم کرے اور نوکر شاہوں کو اس بات کے لیے پابند کرے کہ وہ پرانے اجازت ناموں کی تجدید اور نئے اجازت ناموں کے اجراء کے عمل کو ممکنہ حد تک آسان بنائیں تاکہ جلد سے جلد یہ تعطل دور ہوسکے، ابھی گوشت کے سلسلے میں وزیر اعلا یوگی کے نادر شاہی فرمان کی صدائے باز گشت تھمنے بھی نہ پائی تھی کہ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ مسٹر سبرانیم سوامی بابری مسجد کے معاملے کو لے کر سپریم کورٹ جاپہنچے، حالاں کہ وہ نہ اس مسئلے میں فریق ہیں، اور نہ گواہ ہیں، سپریم کورٹ نے ان کی اس دخل اندازی پر ناگواری کا اظہار بھی کیا ہے مگر سپریم کورٹ کے معزز جج یہ مشورہ بھی دے بیٹھے کہ بابری مسجد کا مسئلہ باہمی گفت وشنید کے ذریعے حل کرلیا جائے، اس سلسلے میں وہ ثالثی کا رول بھی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، سپریم کورٹ کے اس مشورے پر تمام ہندو تنظیموں نے اپنی رضامندی ظاہر کی ہے، یہاں تک کہ یوپی کے نئے وزیر اعلا مسٹر یوگی بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ مسئلہ بات چیت سے حل ہونا چاہئے، انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس طرح کی ممکنہ بات چیت کے عمل میں اپنا پورا تعاون پیش کریں گے، حسب توقع مسلمانوں کا ردّ عمل ویسا ہی رہا جیسا ہونا چاہئے تھا، مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ملت کے قائدین خالصی ملّی مسائل پر بھی ذاتی مصلحتوں کی چادر تان دیتے ہیں، اس معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، قاعدے کی بات یہ تھی کہ تمام قائدین کو صرف ایک بات کہنی تھی کہ یہ معاملہ پچیس برسوں سے عدالت میں ہے، کئی مرتبہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ناکام اٹھ چکے ہیں، اب یہ مناسب نہیں ہے کہ عدالتی کار روائی کو روک کر پھر بات چیت کی جائے، یوں بھی بات چیت وہاں کامیاب ہوتی ہے جہاں فریق مخالف کے رویّے میں لچک ہو، جہاں آستھا کا سوال ہو وہاں لچک ممکن ہی نہیں، پھر بات چیت سے کیا حاصل ہوگا، اب تو صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ عدالت اپنا فیصلہ سنادے، مسلمان پہلے ہی ملک کو اور عدالت کو یہ یقین دلا چکے ہیں کہ بابری مسجد کے سلسلے میں کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی ہو مسلمان اس کو قبول کریں گے، مسئلے کی حساسیت کے باوجود بعض قائدین ملت کی یہ رائے کہ بابری مسجد کے قضیے میں گفت وشنید کی جاسکتی ہے مسلمانوں کے متحدہ موقف کو کمزور کرنے والی ہے، سیدھی سچی بات یہ ہے کہ اب بات چیت کا وقت گزر چکا ہے اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں کوئی بات چیت مفید ثابت ہونے والی نہیں ہے، موجودہ حالات میں صرف عدالت عالیہ ہی فیصلہ کرسکتی ہے جو اسے جلد از جلد کردینا چاہئے تاکہ ملک بابری مسجد اور رام مندر کے قضیے سے نکل کر کچھ اور سوچنے کے قابل ہوسکے۔
تین طلاق کا مسئلہ بھی ملت اسلامیہ کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے، اس مسئلے میں حکومتوں یا عدالتوں کی مداخلت کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے، آئین ہند نے ہمیں اپنے پرسنل لا پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے، یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم کس سے نکاح کریں، کیسے نکاح کریں، کس کو طلاق دیں اور کس طرح طلاق دیں، چودہ سو سال سے تین طلاقوں کو تین مانا جارہا ہے، مسلمانوں کے چاروں فقہی مسلک تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں، غیر مقلدین عمل کی حد تک تین کو ایک مانتے ہیں لیکن دوسرے مسلکوں میں اس کے وجود کی نفی وہ بھی نہیں کرتے، ان حالات میں حکومت کی غیر ضروری دلچسپی سے یہ معاملہ بھی الجھتا جارہا ہے، اب معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کہ دو تین عورتیں کسی صوبائی وزیر اعلا کے دربار میں پہنچ کر تین طلاقوں کے خلاف واویلا مچاتی ہیں ان کا قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے، حالاں کہ ابھی عدالت نے اس کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا فیصلہ بھی نہیں سنایا کہ تین طلاق دینے والے شوہر قانون کی گرفت میں آگئے، یہ کہاں کا انصاف ہے، چند نام نہاد خواتین کی فریاد اتنی مؤثر ثابت ہورہی ہے، اور وہ محضر نامے وزارت قانون نے ردّی کی ٹوکری میں ڈال دئے ہیں، جن پر دو کڑوڑ سے زیادہ مسلم خواتین نے دستخط کئے ہیں اور ان کے ذریعے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ وہ شریعت اسلامیہ پر مکمل یقین رکھتی ہیں اور انہیں اسلام کے نظام نکاح وطلاق کی معقولیت پر پورا اطمینان ہے، مسلم تنظیموں کی ہزار وضاحتوں کے بعد بھی حکومت ہند نے سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے حوالے سے رٹ داخل کردی، عدالت کو بھی اس مسئلے سے اس قدر دلچسپی ہے کہ وہ گرمیوں کی تعطیلات میں بھی ۱۱/ مئی سے ہر روز اس کی سماعت کرنا چاہتی ہے، کیا واقعی اس ملک میں مسلم خواتین کا صرف یہی ایک مسئلہ ہے جو لاینحل رہ گیا ہے، یا کچھ اور مسائل بھی ہیں جن پر حکومتوں کی نظر کرم ہونی چاہئے، سب سے زیادہ اہم مسئلہ تو سماجی تحفظ کا ہے جو بلاتفریق مذہب اس ملک کی خواتین کو حاصل ہی نہیں ہے، اس کے بعد تعلیم کا مسئلہ ہے، آج بھی لاکھوں مسلم بچیاں تعلیم سے محض اس لیے محروم ہیں کہ انہیں سازگار ماحول اور مالی وسائل میسر نہیں ہیں، حکومتوں اور عدالتوں کو چاہئے کہ پہلے وہ اس طرح کے سماجی مسئلوں پر توجہ دے، تین طلاق تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، ایک سروے کے مطابق مسلمانوں میں تین طلاق کے معاملات کا تناسب تین فی صد سے بھی کم ہے، ظاہر کچھ ایسا کیا جارہا ہے کہ شاید ہر مسلم شوہر اپنی منکوحہ کو تین طلاقوں کی تیز چھری سے ذبح کرنے میں لگا ہوا ہے۔
یوپی میں یوگی کے وزیر اعلا بننے کے بعد آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی پر چلنے والی تنظیموں کے کارکن خود کو بے تاج بادشاہ سمجھنے لگے ہیں، غیر قانونی ذبیحہ خانوں کی بندش کے بعد چکن، مٹن، اور فش حتی کہ انڈے کی دکانوں پر ان بے تاج بادشاہوں کے قہر سے تو کچھ ایسا ہی اشارہ ملتا ہے کہ اب پولیس کا کام یہ لوگ کریں گے، ان کی جسارت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ وہ عدالتی کار روائی کے لیے لائے گئے ایک ملزم پر پولیس کے موجودگی میں محض اس لیے حملہ کردیتے ہیں کہ ملزم کا تعلق دیوبند جیسے شہر سے ہے، اور وہ ایک مشہور سیاسی اور دینی گھرانے کا فرد ہے، اگرچہ پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف سنگین دفعات میں رپورٹ درج کرلی ہے لیکن ابھی تک ایک کے علاوہ کوئی اور ملزم گرفت میں نہیں آسکا، دوسری طرف مظفرنگر کے ایک اسکولی طالب علم ذاکر علی کو محض اس لیے گرفتار کرلیا گیا کہ اس نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایک شہید پولیس اہلکار کی ڈی پی لگا رکھی تھی اور اس نے وزیر اعلا یوگی کے متعلق کچھ لکھ دیا تھا، ان حالات میں اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اب یہ ہمارے قائدین کو سوچنا ہے کہ وہ ان نازک حالات سے نکلنے کے لیے کیا مشترکہ حکمت عملی تیار کرتے ہیں، ویسے اس طرح کی امید کم ہی ہے کہ قائدین ملت کسی ایک مشترکہ حکمت عملی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے، اس سلسلے میں مجلس مشاورت کی اوّلین کوشش ناکام ہوچکی ہے، دوسری اور تیسری کوششیں بھی ناکام ہی رہیں گی، ماضی سے تو کچھ ایسا ہی سبق ملتا ہے۔
(★مضمون نگار ماہنامہ ترجمان دیوبند کے مدیر اعلی ہیں)
nadimulwajidi@gmail.com