مسلمان ایمانی فراست سے وقت کی رفتار کو اپنی گرفت میں کر لیں اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لئے ہر ممکنہ جائز ذرائع کا استعمال کریں

مدثر احمد قاسمی

ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلام قیامت تک باقی رہنے والا ایک عالمگیر مذہب ہے، اسی وجہ سے اس مذہب کی تعلیمات ہر زمان و مکان میں قابلِ عمل اور بلا شک و شبہ قابلِ تقلید بھی ہیں۔ اس مذہب کے پاس قرآن کریم کی شکل میں دستورِ حیات اور فرموداتِ نبوی ﷺکی صورت میں اُصولِ زندگی موجود ہے ۔یہ محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔مثال کے طور پر انسانوں کو پریشانی سے بچانے کے لئے قرآن کریم اور احادیثِ نبوی میں جا بجا شراب اورخنزیر کے استعمال کو حرام قرار دیا گیا ہے،کیونکہ اس کے استعمال سے انسان مختلف ذہنی و جسمانی امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے اب سائنس نے بھی تسلیم کرلیا ہے ،جیسا کہ ابھی حال ہی میں فرانس کی ایک میڈیکل ریسرچ لیبارٹری کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی شراب اور سور کا گوشت انسانی صحت کے لئے نہ صرف مضر ہے‘ بلکہ ان کے استعمال سے انسانی جسم کو ایسے شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں جن سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ شراب اور سور کا گوشت استعمال کرتے ہیں وہ 40 سال کی عمر کے بعد لاعلاج بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یقیناًاس رپورٹ نے اسلام کے ہر زمان و مکان میں قابل عمل اور قابل تقلید ہونے کو اظہر من الشمس کردیا ہے ۔اس رپوٹ سے حقیقت پسند افراد ضرور اس نتیجے پر پہونچنے میں کا میاب ہوجائیں گے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ایک ایسے وقت میں جب کہ سائنسی آلات اور سائنسی تجربات کا تصور بھی موجود نہیں تھا ،اسلام نے مذکورہ چیزوں کے استعمال سے انسانوں کو روک دیا تھاجویقیناً مذہبِ اسلام کے بر حق ہونے کی واضح دلیل ہے۔

ایک طرف یہ سچائی ہے کہ اسلام قیامت تک باقی رہنے والا مذہب ہے اور اس کی تعلیمات ہر زمان و مکان میں قابلِ تقلید اور قابل عمل ہیںلیکن دوسری طرف اسلام دشمن عناصر مسلسل یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اسلام نئی صدی کامذہب نہیں ہے اور یہ موجودہ زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتا کیونکہ اس کی تعلیمات فرسودہ ہیں اورنئے حالات اور نئی ایجادات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔در اصل یہ سوال ایک غلط فہمی پر قائم ہے اور وہ یہ کہ نئے زمانے کے حالات اور ضروریات کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے پھر اسلام کیسے نئے زمانے کا ساتھ دے سکتا ہے؟

عقلی طور پر یہ سوال ہی مہمل ہے اور اسی وجہ سےہر خاص و عام کو اس کا جواب سمجھانا انتہائی آسان بھی ہے اور وہ یہ کہ دو الگ الگ چیزیں ہیں1۔اصول اور 2۔اس اصول پر مرتب ہونے والے اور بننے والے مسائل۔مثال کے طور پر علم ریاضی میںحساب بنانےکے الگ الگ فارمولے ( اصول)ہیں اور وہ طے شدہ ہیں ،اب آپ اُن فارمولوں کو استعمال کرکے جتنا چاہے حساب بنالیں۔وقت اور جگہ کے بدلنے سے اُن فارمولوں کی صحت پر کچھ اثر نہیں پڑتا،ایسا نہیں ہے کہ وہ اُصول اور فارمولے سو سال پہلے کے لئے تھے لیکن اب وہ قابل عمل نہیں ہیں،ہاں یہ ضرور ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ حساب بدلتا رہتا ہے۔بعینہ یہی معاملہ مذہبِ اسلام کے ساتھ ہے کہ قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی نے اصول بتلا دئے ہیں اور اُن اصولوں پر مسائل مرتب کرکے ہر زمان و مکان کے مسائل بآسانی حل کئے جا سکتے ہیں۔لہذا اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اسلام کے صول اس دنیا کے باقی رہنے تک تمام نئےمسائل اور چیلنجیزکو حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔

اب ہمارے لئے یہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ انسانی زندگی کا اصل مقصد اطاعتِ خداوندی ہےاور یہ عظیم مقصد مذہب پر عمل پیرا ہو کر ہی حاصل ہوسکتا ہے،جس کے لئے تین نکتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔1۔ عقائد:یہ وہ پہلو ہے جس کے متعلق تمام نکات قرآن و حدیث میں حتمی طور پر بیان کردئے گئے ہیںاورجو ہر زمان و مکان کے لئے ہمیشہ ہمیش یکساں باقی رہیں گے ، مثال کے طور پر وحدانیت باری تعالیٰ اوررسالتِ محمد عربی ﷺ پر ایمان وغیرہ2۔عبادات:اس پہلو سے متعلق بھی تمام نکات قرآن و حدیث میںواضح طور پر بیان کردئے گئے ہیں اور اس میں بھی مرورِ ایام سے تبدیلی واقع نہیں ہوگی، مثال کے طور پر نماز، روزہ،حج،ذکوٰۃ وغیرہ3۔معاملات:یہ وہ پہلو ہے جس کے متعلق قرآن و حدیث میں کچھ مسائل بیان کر دئے گئے ہیں اور باقی وقت اور حالات کے حساب سے نئے مسائل مستنبط کرنے کے لئےعلمائے امت نےقرآن و حدیث کو ماخذبنا کر اصول مرتب کر دئے ہیں۔جس کی بنیاد پر پیش آمدہ چاہے کوئی بھی مسئلہ ہو اسے حل کیا جا سکتا ہے۔پھر کوئی صاحبِ عقل کیسےیہ سوال کر سکتا ہے کہ اسلام نئے زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتا؟

اس پہلو کے واضح ہوجانے کے بعد اب ایک اہم ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انہیں وقت کی رفتار کو سمجھنا ہوگا ،کیونکہ اس کے بعد ہی دنیا کو اسلام کی حقانیت سے روشناس کرانا ممکن ہے۔مثال کے طور پر یہ زمانہ کاغذ اور قلم کا زمانہ نہیں رہا بلکہ کمپیوٹر نے اس کی جگہ لے لی ہے۔اس حقیقت کو قبول کئے بغیر اگر ہم کا غذ اور قلم کو ہی لکھنے کے آلات کے طور پر استعمال کرتے رہے تو ہمارا وقت سے پیچھے رہ جانا طے ہے کیونکہ اگر اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے ہم نے کسی کتاب کے لکھنے میں ایک سال صرف کردیا تو یقیناً ہم گیارہ مہینے پیچھے ہوجائینگے کیونکہ یہی کام کمپیوٹر کے ذریعہ ایک مہینہ میں انجام دیا جاسکتا تھا۔ اسی طریقے سے یہ زمانہ کتابوں کو الماری میں سجائے رکھنے والی لائبریری کا زمانہ نہیں ہے بلکہ ڈیجیٹل لائبریری کا زمانہ ہے ،اس تناظر میں اگر آپ ایک ہزار کتابیں لکھ کر لائبریری میں رکھ دیں تو وہ اتنی کار آمد نہیں ہیں جتنا کہ اگر آپ محض ایک سو کتابوں کو انٹر نیٹ پراپ لوڈ کر دیں۔غور کریں تو مو ء خر الذکر طریقہ ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ اس راستہ کو اپنا کر ہم بیٹھے بیٹھائے عالمی پیمانے پر اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے اہل بن جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ امتِ اجابت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امتِ دعوت تک اسلام کا پیغام پہونچائیں۔اس حوالہ سے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ امت دعوت جو زبان سمجھتی ہے ہم اس زبان کو اپنی بات پہونچانے کے لئے استعمال کریں۔مثال کے طور پر اگر امت دعوت انگریزی زبان سمجھتی ہے تو ہم چاہے ایک ہزار کتاب عربی میں لکھ دیں ،اس سے انہیں کچھ بھی فائدہ پہونچنے والا نہیں ہے، یا یہ کہ امت دعوت ہندی زبان سمجھتی ہے اور ہم اردو میں کتاب پر کتاب لکھتے رہے تو بھی ان کے لئے یہ بے سود ہے۔میں اپنی اس بات سے عربی یا اردو زبان کی اہمیت کو کم کرنے کی جراء ت نہیں کر رہا ہوں بلکہ صرف دعوتی اور غیر دعوتی زبان کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔ اسی طریقہ سے ایک اور اہم بات کاہمارے لئے سمجھنا ضروری ہے کہ ایک وہ وقت تھا جب مسلمانوں کے دینی جلسوں میں غیر مذہب کے بھی کچھ نہ کچھ لوگ شریک ہوا کرتے تھے اب صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمان بھی اس میں کم دلچسپی لینے لگے ہیں،اسی وجہ سے اس کے متبادل پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ظاہر ہے کہ اس کا متبادل آڈیو اور وڈیو کلپس ہیں،جسکو بڑے پیمانے پر تیار کر کے سوشل میڈیا پر عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری تقریروں کا فائدہ عام ہوجائے اوربطور خاص امت دعوت تک بھی ہمارا پیغام پہونچ جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ایک عالمگیر اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ مذہب ہے ،بس ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ایمانی فراست سے وقت کی رفتار کو اپنی گرفت میں کر لیں اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لئے ہر ممکنہ جائز ذرائع کا استعمال کریں۔