منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو!

مدثر احمد قاسمی
ملت ٹائمز
آپ کی کشتی منجدھارمیں ہو،ہوا مخالف ہو،امید کی کوئی کرن نظر نہ آئے اورکہیں سے دستِ تعاون دراز ہونے کی امید بھی نہ ہو پھر بھی اگرآپ بادِ مخالف سے ٹکرانے کی سکت رکھتے ہیں،مایوسی کی اوٹ سے آپ کو امید کی کرن نظر آتا ہے اوراپنی آہوں سے دستِ قدرت سے مسیحائی کی امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں تو غالب گمان بلکہ یقین یہ ہوتا ہے کہ آپ بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہوجائینگے۔ اس کی بہت ساری مثالیں ماضی اور حال میں ہمیں ملتی ہیں اور اس کی زندہ مثال مروڈ جنجیرہ میں غرق آبی کے ایک بڑے سانحہ میں لاپتہ طالب علم سیف احمد مڈکی کی لاش کا ملنا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ غرق ہونے والے ۱۴/طلبہ میں سے ۱۳/طالب علموں کی لاش بر آمد کرلی گئی تھیں لیکن ایک طالب علم سیف احمد لاپتہ تھا، اس بچہ کو تلاش کرنے کے لئے کوسٹ گارڈ اور نیوی کی تیز رفتار کشتیاں، ہیلی کاپٹرس اور جدید کشتی ’’ہوور کرافٹ ‘‘کا استعمال کیا گیا، اس دوران۱۷/گھنٹے ان ایجنسیوں نے تلاشی آپریشین کیا لیکن لاش نہیں ملی۔ اسی دوران کچھ علمائے کرام مسلم نوجوانوں کے ساتھ ساحل پر آئے جن میں مولانا وسیم مقادم، مولانا سندیلکر اور دیگر شامل تھے۔ ان لوگوں نے کہا ہم اپنی طرف سے کوشش کر کے دیکھتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے سمندر کے بیچوں بیچ جاکر۳/مرتبہ آذان دی تاکہ رب العالمین کی مدد و نصرت حاصل ہو۔ اس کے بعد تلاشی آپریشن دوبارہ شروع کیا گیا اور کر شمہ دیکھئے کہ تھوڑی دیر بعد سیف کی لاش بھی مل گئی۔
مذکورہ واقعہ سے ہم اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ اگر ہم میں جستجو ،حوصلہ اور خدا پر بھروسہ ہے تو ہم مایوسی کی چادر کو چاک کرکے کامیابی کی منزل کی تلاش میں امید کا سفر جاری رکھ سکتے ہیں اور سرخ روئی کو اپنا مقدر بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر مایوسی کے بادل نے ہماری جستجوکو پا بزنجیر کردیا،حوصولوں کا دم گھونٹ دیا اور خدا پر بھروسے کی رسی کوکمزور کرڈالا تو یاد رکھئے ناکامی کے عمیق غار میں اپنے آپ کو پہونچانے والے ہم خود ہی ہونگے۔ دنیا بھر کے مسلمان بالعموم اور ہندوستانی مسلمان بالخصوص کامیابی اور ناکامی کے اس پیمانہ پر اپنے آپ کو پرکھ سکتے ہیں اور اپنی پوزیشن کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔آج مسلمان اپنے آباواجداد کی کامیابیوں پر نازاں ہیں لیکن اپنی موجودہ کامیابیوں کے تناسب سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔مسلمان فخر کے ساتھ ذیل میں مذکور اسماء کا ذکر تو کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی کامیابی کے رازوں کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

یہاں مختصراًمسلم قوم کے ان آفتاب و مہتاب کا تذکرہ کیا جا رہاہے جنہوں نے علوم کے گوہر لٹائے اور سائنسی ایجادات کے بانی و مبانی بنے۔ الحمیاری(کیمیاں داں)، ابراہیم الفزاری (ماہر فلکیات)،یعقوب بن طارق (ماہر ریاضی)،الخوارزمی (بابائے الجبرا)، ابن فرناس (ماہر طبعیات)، علی ابن ربان الطبری (ماہر طب)، جابر ابن سنان البتانی (شمسی سال کے ایام و اوقات کا تخمینہ سازی)، الفرغانی(اجرام فلکی کی حرکات پر تحقیقی کام)، ابو بکر الرازی (تیزاب کبریت کی دریافت)، الفارابی (علم منطق کی درجہ بندی)، المسعودی (زمینیات کا احاطہ بندی)، احمد بن وحشیہ (زراعت داں و ماہر مصریات)، ابو القاسم الزہراوی (جدید آپریشن کا موجد)، ابن الہیثم( روشنی پر تجربات)اور احمد بن ماجد(بحریات و جہاز رانی)۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق کو
پلٹیں گے تو اس نتیجہ پر پہونچیں گے کہ مختلف میدانوں کے ان ماہرین و سائنسدانوں کی کامیابیاں بھی مذکورہ تینوں بنیادوں۔ جستجو ،حوصلہ اور خدا پر بھروسہ ۔کی وجہ سے ہی معرض وجود میں آئیں۔ جی ہاں ان کے اندر جستجو و طلب بھی تھی، وہ عزم و حوصلہ کے پہاڑ بھی تھے اور خدا پر بھروسہ بھروسہ انکا وصفِ خاص تھا۔
اگر پہلے نکتہ یعنی جستجو کی بات کریں تو اسلام نے علوم کے دریا بہائے ہیں اور مسلمانوں کو اسمیں غوطہ زنی کی دعوت دی ہے ، چنانچہ کہیں قرآن کریم میں تفکر و تدبر کی دعوت دی اور فرمایا’اس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے(اے دیکھنے والے) کیا تو رحمٰن کی آفرینش میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلاتجھ کو( آسمان ) میں کوئی شگاف نظر آتا ہے؟ (سورہ ملک آیت نمبر ۳)، کبھی حقائق کو معلوم کرنے کے لئے ‘زمین پر سیر کرو'(سورہ نمل آیت ۴۹)کہہ کر حوصلہ افزائی کی گئی ہے، کہیں خود اپنی خلقت پر غورو فکر کی دعوت دی گئی ہے ‘تم اپنی ذات میں غورو فکر نہیں کرتے'(سورہ ذاریات آیت ۲۱) اور اسی طریقے سے جستجو کی للک پیدا کرنے کے لئے کہیں چاند و سورج کے منزلوں کو بتلایا گیا تو کہیں رات و دن کے آنے جانے کو۔
اور اگر دوسرے نکتہ یعنی حوصلہ کی بات کریں تو اس کی اہمیت کو بھر پور انداز میں اجاگر کرکے اس کو اپنانے کی دعوت دی گئی ہے۔ چنانچہ سورہ لقمان کی آیت نمبر ۱۷ میں حضرتِ لقمان کی نصیحت میں بطورِ خاص بلند حوصلگی پر بہت ہی عمدہ اسلوب میں ابھارا گیا ہے’اے میرے بیٹے نماز قائم کر اور نیکی کا حکم کر اور برائی سے روک اور جو کوئی مصیبت تمہیں پیش آئے اس پر صبر کر بیشک یہ بہت ہمت والاکام ہے۔.جابجاقرآن کریم میں حضور ﷺ کی حوصلہ افزئی کی گئی ہے اور احادیث میں صحابہ کے حوصلوں کو پروان چڑھایا گیا ہے، جسکے نتیجہ میں حضور ﷺ اور صحابہ الوالعزمی کی تابندہ مثال تھے اور بعد میں آنے والے ملت کے افراد بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر عزم و حوصلہ کے پہاڑ ثابت ہوئے اور اسی حوصلہ نے انہیں کارہائے گراں مایہ انجام دینے پر ابھارا۔

جہاں تک تیسرے نکتہ یعنی اللہ پر بھروسہ کا سوال ہے تو اسکی تعلیم دینِ اسلام کی اساس ہے اور اس کے بغیر کسی بھی کام کا تصور کفر تک لے جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں جابجا اس کی تعلیم دی گئی ہے۔چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۵۹ میں حضور ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ ‘ آپ متعلقہ معاملہ میں عزم کریں تو اب اللہ پر بھروسہ کریں،بلا شبہ اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں’ اس آیت میں حضور ﷺ کو بھروسہ کی تلقین فرماکر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو اللہ پر بھروسہ رکھنے کی تعلیم دے دی گئی ہے ۔اللہ پر بھروسہ ہی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعہ آپ بظاہر ناممکن نظر آنے والی چیز کو بھی اپنی دسترس میں لاسکتے ہیں۔ اسی بھروسہ نے کبھی بحر ظلمات میں گھوڑے ڈالنے سے بھی نہ ہچکچانے پر آمادہ کیا تھا اور کبھی قیصر و کسریٰ کی طاقتوں کو سر نگوں ہونے
پر مجبور کیا تھا۔
غرضیکہ جب جستجو، حوصلہ اور اللہ پربھروسہ کو حرزِ جاں بنا کراور اسلامی اصول و اقدار کی پاسداری کررتے ہوئے مسلمانوں نے دنیا پر حکمرانی کی توصرف مسلمان ہی ہمہ جہت کامیابی سے سرفراز نہیں ہوئے بلکہ دیگر اقوام عالم بھی بھر پور مستفیض ہوئے، تاریخ کے اس سنہرے دور میں جہاں مسلمانوں نے عظیم الشان ایجادات اور سائنسی اصول دنیا کو دیا وہیں ان کے انقلابی کردار سے دوسرے مذاہب کے پیروکاربھی بھر پور مستفیض ہوئے۔ لیکن افسوس جب مسلمان عدم جستجو اورپست حوصلگی کے شکار ہوئے اور اللہ پر بھروسہ کی رسی کو کمزور کرلیا تونہ صرف یہ کہ علمی وسائنسی دنیا پر صدیوں سے قائم بادشاہت سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ جہالت کی تاریک غار میں پہونچ گئے۔اب بھی وقت ہے کہ مسلمان ہوش کے ناخن لیں، جستجو، حوصلہ اور اللہ پربھروسہ کے صفات سے اپنے آپ کو متصف کرلیں اور آنے والی نسلوں کو ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے سے بچالیں۔
(مضمون نگارمعروف کالم نویس اور ایسٹرن کریسنٹ ممبئی میں اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں)

SHARE