شمس تبریز قاسمی
انٹر نیٹ اکیسویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے ، ذرائغ ابلاغ اور خبروں کی تحصیل کیلئے سوشل میڈیا سب سے اہم اور موثر ترین پلیٹ فارم ہے، خط و کتابت کیلئے بھی اسی سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے، عوامی محفلوں اور بات چیت کیلئے منعقد ہونے والی محفلیں بھی اب اسی سوشل میڈیا پر ہونے لگی ہیں، کانفرنس ، مشاعرے اور جلسے سوشل میڈیا کے توسط سے کئے جارہے ہیں ، یوں کہہ لیجئے کہ سوشل میڈیا نے انسانی زندگی میں ایک انقلاب بر پا کردیا ہے جس کا سہارا لئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے چناں چہ نوجوانوں کے ساتھ عمر دراز لوگ بھی بکثرت سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں اور اس کے سوا ان کیلئے کوئی راستہ بھی نہیں ہے ۔ سروے کے مطابق اس وقت 7 بلین انسانی آباد ی میں سے 47 فیصد لوگ پوری دنیا میں انٹر نیٹ کا استعمال کررہے ہیں، جبکہ 2005 میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والے صرف 16 فیصد تھے اور 2010 میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد صرف تیس فیصد تھی ۔
سوشل میڈیا کا تعلق انٹر نیٹ سے ہے ،جس کی باضابطہ ایجاد 1990 میں ایک برطانوی شخص Tim Berners-Lee. کے ذریعہ عالمی سطح پر ہوئی ہے ، اس سے قبل انٹرنیٹ کا استعمال امریکہ تک محدود تھا جہاں اس کی ایجاد سب سے پہلے 1969 میں امریکی وزارت دفاع کے ایک تحقیقی ادارے کے تحت ہوئی تھی ، انٹرنیٹ آنے کے بعد لکھنے پڑھنے کی آزادی ہوگئی ، بلاگ اور سائٹ کے ذریعہ تجارت ، صحافت اور دیگر امور فروغ پانے لگے ، لوگوں نے بلاگ لکھنا شروع کردیا اور اظہار ائے کیلئے بلاگنگ کا یہ سسٹم بہت مقبول ہوا ، رفتہ رفتہ انٹرنیٹ نے اور ترقی کی اور کئی ساری سوشل سائٹ منظر عام پر آگئی جس کے بعد انٹرنیٹ انسانی زندگی کا لازمی حصہ بن گئی جس میں فیس بک ، ٹوئٹر ، وہاٹس ایپ ، ای میل ، یوٹیوب، انسٹا گرام ، گوگل پلس وغیرہ نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ۔
سوشل سائٹ میں فیس بک سب سے مقبول ، آسان اور اہمیت کا حامل ہے ، اس پر اکاﺅنٹ ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی شخص کا آئی ڈی پروف ہونا ضروری ہوتا ہے ، فیس بک کے ذریعہ کہیں بھی کسی سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے ، کوئی بھی پیغام آسانی کے ساتھ لاکھوں اور کڑوروں لوگوں تک پہونچایا جاسکتا ہے ، فیس بک کا بنیادی مقصد دوست بنانا، اپنے دوستوں سے ہمیں وقت رابطے میں رہنا، اسٹیٹس، تصاویر اور مختلف حرکات و سکنات سے انہیں آگاہ کرنا ہے لیکن اب اس کا دائرہ استعمال بہت وسیع ہوگیا ہے، لمحہ بھر میں یہاں خبریں دستیا ب ہوجاتی ہیں، لاکھوں لوگوں تک پیغام پہونچ جاتاہے ، خاص بات یہ ہے کہ فیس بک کے سسٹم میں باتوں کو باحوالہ پیش کرنے کا نظام موجود ہے، اس کے پاس اپنا اسپیس ہے جہاں تمام ڈیٹا محفوظ رہتا ہے، بڑے بڑے میڈیا ہاﺅس ، اخبارات ، ٹی وی چینلنز اور ایجنسیاں اب اپنی خبریں عوام تک اسی فیس بک کے ذریعہ پہونچاتے ہیں ، فیس بک پیج ممبران کے ذریعہ ریڈر شپ اور مقبولیت کا پیمانہ طے ہوتا ہے ، سیاسی لیڈران اور شوبز اپنی مقبولیت کا اندازہ اپنے فیس بک فین کے ذریعہ لگاتے ہیں ۔ فیس بک نے اب لائیو نشریات کا نیا فیچر متعارف کرایا ہے جس کے بعد ٹی وی کے ذریعہ لائیو دکھانے کی چنداں ضرورت بھی باقی نہیں رہ جاتی ہے ، جو کچھ ٹی وی پر برا ہ راست دکھایا جاتا ہے اسی چیز کو فیس بک پر بھی براہ راست دکھایا جاتا ہے اور اب اسی کو اپنا یا جارہاہے ، چناں چہ یوپی اسمبلی الیکشن مکمل ہونے کے بعد نتائج آنے سے قبل سابق وزیر اعلی نے اکھلیش یادو نے فیس بک لائیو پر ہی اپنا انٹرویو دیا تھا ، مقبو ل ترین میڈیا ہاﺅس بی بی سی میں بکثرت فیس بک لائیو کو انٹرویو اور بائٹ وغیرہ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ، اس کے علاوہ ٹی وی چینلوں کی نشریات بھی اب فیس بک پیج پر لائیو دکھائی جاتی ہیں ۔
سوشل میڈیا میں دوسرے نمبر پر ٹویٹر ہے جو فیس بک سے قدرے مختلف ہے، یہاں پیغام کی ایک حد مقرر ہے جو کہ 150 حروف پر مشتمل ہے نیز اس میں آپ کا سوشل سرکل فرینڈس تک محدود نہیں ہوتا بلکہ آپ کسی کو بھی فالو کر سکتے ہیں۔ آپ مختصر پیغام، تصاویر، متحرک تصاویر اور ویڈیوز شامل کر کے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، آپ کسی بھی شخصیت کو فالو کر کے اس کے پیغامات کی اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں اور ری- ٹویٹ کے ذریعہ آگے پہنچا سکتے ہیں۔ ٹویٹر کو کسی حد تک خبروں کا آفیشل ذریعہ مانا جاتا ہے اور اہم شخصیات اس کو استعمال کرتی ہیں، ہندوستان جیسے ملک میں حکومتی اہلکار اور سرکاری افسران تک اپنی بات پہونچانے کیلئے فیس بک سے زیادہ یہی ٹوئٹر مؤثر ہے ۔
سوشل میڈیا میں تیزی کے ساتھ مقبول ہونے والا ” وہاٹس ایپ “ فیس بک اور ٹوئٹر سے بالکل مختلف ہے ، اس کی حیثیت صرف چیٹنگ اور بات چیت کی ہے البتہ بات چیت کیلئے یہاں دو طریقے ہیں ایک پرسنل چیٹ کے اور دوسرے گروپ چیٹ کے لیکن اس کے ذریعہ سب سے زیادہ کوئی بھی پیغام فارورڈ کیا جاتا ہے ، دوسروں کو شیر کیا جاتا ہے ، منٹوں میں کوئی بھی مسیج ہزاروں گروپ میں شیر ہوجاتاہے ، تاہم وہاٹس ایپ میں فارورڈ کرتے وقت اصل مسیج کا پتہ نہیں چل پاتاہے کہ یہ مسیسیج کہاں سے وائر ل ہوا ہے اور کون اس کا حقیقی خالق ہے ، اس لئے بہت زیادہ یہاں فرضی مواد بھی پوسٹ کئے جاتے ہیں ۔
سوشل میڈیا کا ایک اہم ترین باب یوٹیوب ہے جو ویڈیو کے ساتھ خاص ہے ، یوٹیوب پر کوئی بھی ویڈیو اپڈیٹ کرکے لاکھوں لوگوں تک پہونچائی جاسکتی ہے ، یوٹیوب پر بڑے بڑے چینلز موجود ہیں، بہت سے چینل صرف یوٹیوب کے ذریعہ چل رہے ہیں، اس کے علاوہ تمام چینلوں کا یوٹیوب پر باضابطہ اکاﺅنٹ ہے جہاں نشر شدہ ویڈیوز ڈالی جاتی ہیں، یوٹیوب آنے کے بعد ٹی وی اسکرین کی بھی فروخت کم ہوگئی ہے کیوں کہ زیادہ تر لوگ اب یوٹیوب پر ہی نیوز، ڈرامہ ا ور فلمیں دیکھ لیتے ہیں، دیگر سوشل میڈیا کی طرح یوٹیوب کابھی استعمال کامن ہے اور کوئی بھی شخص اپنی ویڈیا بناکر وہاں اپڈیٹ کرسکتاہے ۔
سوشل میڈیا کی فہرست میں آن لائن اخبارات اور نیوز پورٹل بھی شامل ہیں جس نے صحافت کو دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم کردیاہے، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا کی بعد اب تیسری قسم سائبر میڈیا کی ہوگئی ہے ، عصر حاضر میں ویب جرنلزم سب سے زیادہ مقبول ہے ، پرنٹ ایڈیشن کے قارئین کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے ، ترقی یافتہ ممالک میں بھی پرنٹ سے بہت زیادہ آن لائن اخبارات پڑھے جانے لگے ہیں، جو اخبارات پرنٹ میں نکلتے ہیں وہ بھی اپنے قارئین کو بڑھانے کیلئے ویب سائٹ پر اپنا مواد استعمال کرتے ہیں ۔ ویب سائٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے دنیا میں کہیں بھی پڑھا جاتا ہے اور قارئین کا بہت بڑا حلقہ بن جاتاہے۔
گوگل پلے اسٹور کا سوشل میڈیا کو عوام سے قریب کرنے میں سب سے نمایاں کردار ہے جہاں تما م ایپ کی شکل میں موجود ہے اور قارئین اسے اپنے موبائل میں انسٹال کرکے استعمال کرتے ہیں ، ہر اپڈیٹ کی انہیں اطلاع ملتی ہے ۔
سوشل میڈیا کی مذکورہ اہمیت دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس سے بڑا کوئی اور میڈیا ہاﺅس نہیں ہے ، عوامی تحریک چلانے کا اس سے بڑا فی الحال کوئی اور پلیٹ فارم دستیاب نہیں ہے ، لوگوں تک اپنی باتوں کو پہونچانے کیلئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے ، انقلاب برپا کرنے کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے کا اس مضبوط اور منظم کوئی اور طریقہ نہیں مل سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اس کے ذریعہ سب سے بڑا انقلاب تیونس میں برپا ہوا، جہاں اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں تھی ، میڈیا پر حکومت کی اجارہ داری تھی ، سچ بولنا جرم سمجھا جاتا تھا وہاں سوشل میڈیا ایک متبادل کی شکل میں ملا، عظیم انقلاب بر پا ہوگیا، اس کے بعد اسی شوسل میڈیا کا سہارا لیکر مصر کی عوام نے جسنی مبارک کے اقتدار سے نجات حاصل کی اور آج بھی سوشل میڈیا سے کوئی انقلاب لایا جاسکتا ہے کہ کیوں کہ اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے ، کسی کی ملکیت نہیں ہے ، کوئی بھی یہاں لکھ سکتا ہے ، اپنی رائے کا اظہار کرسکتاہے ، اپنی باتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ سوشل میڈیا کے فیچرس امیر و غریب ، ہندو مسلم، بادشاہ و رعایا سبھوں کیلئے یکساں ہیں ۔
سوشل اور سائبر میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کے درست استعمال کی کوششیں تیز کی جائیں، میڈیا کے نہ ہونے کا رونا رونے کے بجائے منظم انداز میں اس سے وابستگی اختیار کی جائیں ، نوجوانوں اور صارفین کو انٹرنیٹ استعمال کرنے کی ترغیب دلائی جائیں ، ورکشاپ کرکے صارفین کی رہنمائی کی جائیں ، دینی اور نظریاتی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے پیغام رسانی پر توجہ دیں، نیوز فیڈ، بلاگز، آڈیو، ویڈیوز شئیرنگ، تصاویر ، ویب سائٹس، سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی فکر کریں، ریڈیو اور ٹی وی کی طرح اسے اسلام کے خلاف سازش سمجھنے کے بجائے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں ، ان وسائل کو اختیار کرکے انتشار اور بدامنی پھیلانے کی بجائے اچھی روایات کی ترویج کے لئے سماج میں اس کی تلقین کریں، جلسوں اور مختلف پروگرامس میں اس کے مثبت اور منفی استعمال کے اثرات کے بارے میں بتائیں اور بہتر مقصد کیلئے اس کی استعمال کرنے کی نصیحت کریں، یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف سماجی اور دینی تنظیموں کی جانب سے ڈیجیٹل آوٹ ریچ ٹیم قائم کی جائے جو انٹرنیٹ پر جاری ہونیوالے ایسے مواد کا جواب دے سکے جو ملک اور مذہب کے خلاف ہو۔ اسی طرح ٹی وی چینلوں کی ہرزہ سرائی کا جواب دیا جاسکتا ہے، اسلام کے خلاف پیروپیگنڈے کا صحیح اور مسکت جواب فراہم کیا جاسکتا ہے، اس پلیٹ فارم کا استعما ل کرکے اسلام کی شبیہ بگاڑنے والوں کو خاموش کیا جاسکتا ہے ، ویڈیو کلپس استعمال کرکے عوامی شعور کو بیدار کیا جاسکتا ہے ۔
اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد مسلمانان ہند جس ذہنی پریشانی کے شکار ہیں ،حالات سے خوف زدہ اور مستقبل سے مایوس ہیں، ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ایک انتہاءپسند اور اسلام مخالف شبیہ کے حامل شخص کے وزیر اعلی بننے سے پورے ہندوستان میں جو دہشت کا ماحول قائم ہوگیا ہے ایسے میں اپنی قوم کو حوصلہ دلانے ، ان کے درمیان سے خوف و ہراس کو ختم کرنے، انہیں آپس میں متحد کرنے ،ان کے درمیان بیداری پیداکرنے اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے یہی سوشل میڈیا سب سے اہم ذریعہ ہے ، اسی کا استعمال کرکے قوم و ملت کو ایک سیدھی راہ دکھلائی جاسکتی ہے ،خفیہ طورپر انتہائی آسانی کے ساتھ وہاٹس ایپ ، فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ کا استعمال کرکے مستقبل کیلئے کوئی منصوبہ طے کیا جاسکتا ہے اور یہ طریقہ رام لیلا میدان میں لاکھوں کی بھیڑ جمع کرنے سے زیادہ موثر ، مفید اور سود مند ثابت ہوگا ، دیرپا اس کا اثر ہوگا اور مسلمانوں بالخصوص نئی نسل کے درمیان بیداری آئے گی ۔
خلاصہ کلام کہ اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ سب سے طاقتور اور اہم ترین چیز ہے ،سوشل میڈیا سب سے مضبوط اور موثر ذرائع ابلاغ ہے ، اسمارٹ فون زندگی کی تمام حرکات و سکنات کا مرکز بن گیاہے ، کامیابی کے حصول کیلئے ، سماجی بیدار ی لانے کیلئے ، ارباب اقتدار تک اپنی بات پہونچانے کیلئے ، کسی طرح کا کوئی انقلاب برپاکرنے اور تحریک چلانے کیلئے سوشل میڈیا سے بڑھ کر کوئی اور طاقت اور ذریعہ نہیں ہے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے سی ای او اور ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com