لہولہان شام

پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی

مسجد نبوی میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین بیٹھے ہیں، درمیان میں مخبر صادق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں ، صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ارشاد فرماتے ہیں عنقریب قومیں تم پر حملہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کو اس طرح پکارے گی جس طرح کھانے والے کھانے کیلئے پیالے پر گرتے ہیں ، حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ سب اس لئے ہوگا اس زمانے میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوجائے گی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا نہیں ! تمہاری تعداد ان دنوں بہت زیادہ ہوگی لیکن تم ایسے ہوجاﺅگے جیسے سیلاب کی سطح پر خس و خاشاک ہوتے ہیں جسے سیلاب بہالے جاتا ہے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب ختم کردے گا اور تمہارے قلوب میں کمزوری ڈال دے گا، حاضرین میں سے کسی صحابی نے پوچھا یا رسول صلی للہ علیہ وسلم وہ کمزوری کیا ہوگی ، آپ نے ارشاد فرمایا دنیا اور فوائد دنیا کی محبت اور موت کا بزدلانہ خوف۔
چودہ سو سال قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ آج حر ف بہ حرف سچ ثابت ہورہے ہیں، دولت ، اقتدار، شہرت اور ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی فکر مندی نے مسلمانوں کو اربوں کی تعداد میں ہونے کے باجود انتہائی کمزور ، بے بس اور خس و خاشاک کی صف میں لاکھڑا کردیا ہے، کہیں مسلمان بلند ترین عمارتوں کی تعمیر میں مصروف ہیں تو کہیں مسلمانوں کی لاش پاٹ کر بلند ترین بلڈنگ بنائی جارہی ہے ، کہیں مسلمان عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں تو کہیں مسلمان دو گز زمین کے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ڈیرھ ارب سے زائد مسلم آبادی ہونے کے باوجود دنیا کے بیشتر علاقوں میں مسلمان شدید پریشان اور خوفناک زندگی بسر کررہے ہیں، چین کے سنکیانگ صوبے میں جہاں مسلمان کبھی اکثریت میں ہوا کرتے تھے آج وہ نہ صرف اقلیت میں ہیں بلکہ حکومت کا تختہ مشتق بن چکے ہیں اور شعائر اسلام پر شدید پابندی عائد کردی گئی ہے۔ میانمار کے مسلمانوں سے حق شہریت تک سلب کرکے زبردستی انہیں ملک بدر کیا جارہا ہے۔ فلسطین کے مسلمان ستر سالوں سے اسرائیلی دہشت گرد ی اور مظالم کے شکار ہیں۔ہندوستان کے مسلمان بھی یہاں کی انتہاء پسند طاقتوں کے نشانے پر ہیں، خوف ہراس کا ماحول قائم کرکے زندگی سے امن و آشتی اور سکون کو ختم کردیا گیا ہے، کب کس کو کوئی ہجوم آکر قتل کردے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ۔اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ملک پاکستان آپسی لڑائی اور خانہ جنگی کا شکار ہے ، ستر سالوں کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امن و سلامتی کی بحالی وہاں نہیں ہوسکی ہے ۔ افغانستان تباہی و بربادی کی نئی داستان رقم کرچکاہے ، روزانہ خود کش دھماکے ، بم حملے جیسے واقعات روزہ مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ عراق جیسا طاقتور ملک سراپا تباہی اور ویرانی کی تصویر بن گیا ہے ، لیبیا ، تیونس اور مصر سمیت مشرق وسطی کے متعدد ممالک خطرناک حالات کا سامنا کررہے ہیں ۔ انبیاء کی سرزمین اور تاریخی ملک شام ان دنو ں بارود کے ڈھیر پر کھڑاہے ، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ، ہر گلی اور شہر میں خو ن کی ندیاں بہ رہی ہیں ، گذشتہ چھ سالوں میں چھ لاکھ سے زائد بے گناہ شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں، تعلیمی ادارے ، ہسپتال ، مساجد اور مدارس کھنڈارات کے مناظر پیش کررہے ہیں، چھ سالہ خانہ جنگی نے شامی کی معیشت کو بھی تباہ و برباد کردیا ہے، شام سینٹر فار پالیسی ریسرچ کی رپوٹ کے مطابق وہاں کل جی ڈی پی میں 23 سے زائد کمی آچکی ہے ، سرکاری سروس محکمہ میں بھی 16 فیصد کی گرواٹ آگئی ہے، نقل و حمل اور دیگر امور میں بھی شدید کمی آگئی ہے، بیروزگاری کی شرح 80 فیصد سے زائد ہوچکی ہے، 85 فیصد آبادی انتہائی غربت کی شکار ہے، تعلیمی نظام بھی بالکل تہس نہس ہوچکا ہے، 75 فیصد سے زائد اسکولوں کو اسد حکومت نے فوجی کیمپ میں تبدیل کردیا ہے، 90 فیصد بچے خوف کی بنا پر گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے ہیں، ملک میں ایک چوتھائی اساتذہ ملازمت چھوڑ چکے ہیں ، 51 لاکھ سے زائد شامی ہجرت کی زندگی بسر کررہے ہیں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں کل 61 لاکھ مہاجرین پائے جاتے ہیں ہیں جن میں 51 لاکھ تن تنہا شام کے ہیں، ان مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد تقریبا 30 لاکھ ترکی میں پناہ گزین ہے ۔
شام میں 2011 سے اقتدار کی تبدیلی کی جنگ جاری ہے ، 90 فیصد عوام اسد حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے، تیونس سے اٹھنے والی عرب بہاریہ کی ہوا یہاں بھی اسی وقت پہونچ گئی تھی لیکن عالمی طاقتوں اور امریکہ کی دوہری پالیسی کے سبب یہ ملک طویل خانہ جنگی کا شکار ہوگیا ،2013 میں داعش کے منظر عام پر آنے کے بعد یہاں کے باغیوں کا تعلق داعش سے جوڑ دیا گیا اور پھر انہیں پہلے سے زیادہ بے دریغ قتل کیا جانے لگا ، روس اور ایران کی واضح حمایت کے بعد بشار الاسد کے اقدامات مزید جارحانہ ہوگئے ہیں اور یہ تینوں ملکر تمام انسانی حقوق کو پامال کررہے ہیں، گذشتہ 6 اپریل کو اسد حکومت نے معصوم عوام پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرکے ظلم کی ایک اور نئی تاریخ رقم کردی ہے ۔
کیمیائی ہتھاروں کے شکار ہونے والے صرف خواتین ، بوڑھے اور نوجوان نہیں تھے بلکہ اس کے شکار پندرہ سے زائد معصوم بچے بھی ہوئے ، اس خوفناک حملے کی ویڈیو جب منظر عام پر آئی تو بچوں اور معصوموں کی کراہنے کی آواز نے رونگٹے کھڑے کردیئے ، پورے جسم پر لزرہ طاری ہوگیا ،ظالم دل بھی نرم پڑ گیا، امریکی صدر ٹرمپ جیسے سخت دل اور انتہاء پسند شخص کو بھی رحم آگیا اور انہوں نے شام کے تعلق سے اپنی پالیسی تبدیل کردی ، اسد حکومت کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی پر غوروفکر شروع ہوگیا ، فوری طور پر انتقامی کاروائی کرتے ہوئے شام پر چڑھائی کردی، شام کے فضائی دفاع کو ہدف بناکر 59 میزائل ٹاک داغا گیا، الشعیر نامی فوجی اڈہ تہس نہس کیا گیا اور ساتھ میں 99 لڑاکا طیارہ بھی تباہ کیا گیا۔ امریکی حملے سے روس بھی تلملا گیا اور اس نے فوری طور امریکہ کو مداخلت سے باز رہنے کی دھمکی دے دی ، ترکی نے بھی بشار الاسد ، ایران اور روس کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے اسد کے خلاف اقوام متحدہ میں کاروائی کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔
لیکن اس ظالمانہ اور دہشت گردانہ حملے کے خلاف سوائے چند کے کسی اور مسلم ملک نے اپنا شدید احتجاج درج نہیں کرایا، اقوام متحدہ سے اسد کو کیفر کردار تک پہونچانے کا مطالبہ نہیں کیا، روس کے اس دہشت گردانہ حملے کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی انہیں مظلومین کی مدد کرنے کی توفیق مل سکی ، سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل دیا گیا اسلامی فوجی اتحاد بھی صرف سرخیوں میں نظر آتاہے ، کسی بھی ایسے موقع پر کوئی عملی مظاہرہ اب تک دیکھنے کو نہیں مل سکاہے ۔ عالم اسلام کے موجودہ صورت پر نظر ڈالنے کے بعد نتیجہ نکلتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے سچ ثابت ہونے کا یہی وقت ہے ، مسلمانوں پر ہونے والا یہ حملہ خود ان کے اعمال کا سبب ہے، آپسی اختلاف و انتشار ، مال و دولت اور حکومت و اقتدار کی لالچ نے مسلمانوں کو آج ذلیل ترین قوم کی صف میں لاکھڑا کردیا ہے ، و ہ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں ہم پر ، ہماری سرزمین پر حملہ کردیتے ہیں، ہمارے قوم کے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں، ہنسے بستے شہروں کو اجاڑ دیتے ہیں ، ساتھ میں وہ ان سنگین جرائم کا الزام بھی ہمارے سر تھوپ کر ہمیں دہشت گرد ٹھہرا دیتے ہیں اور خود مسیحا بن جاتے ہیں۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے سی ای او اور ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE