پہلو خاں کی موت؛ غور و فکر کے چند پہلو

مولانا ندیم الواجدی
راجستھان کے ضلع الور کے گاؤں بہڑوڑ میں گؤ رکشا کے نام پر ایک پچاس سالہ مسلمان تاجر پہلو خاں کو نہایت بے دردی اور سفاکی کے ساتھ مار مار کر ہلاک کردیا گیا، مقتول کے ساتھ پندرہ لوگ اور بھی تھے، ان سب کو بھی ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان لوگوں کا قصور یہ تھا کہ وہ جانوروں کے ہفتہ واری بازار سے کچھ گائے دودھ نکال کر بیچنے کے لئے لے کر آرہے تھے، ان کے پاس خریداری کی رسیدیں اور جانوروں کو اپنے ساتھ لے کر جانے کے سرکاری اجازت نامے موجود تھے، راستے میں مسلّح حملہ آوروں نے ان کی گاڑیوں کو روک لیا، ان کو بے رحمی کے ساتھ زود کوب کیا اور اس وقت تک پیٹتے رہے جب تک وہ بے ہوش نہیں ہوگئے، ظالموں نے ان کی جیبوں سے لاکھوں روپے بھی نکال لئے، پولیس نے دعوی کیا ہے کہ ان حملہ آوروں کا تعلق وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں سے تھا، اس پورے واقعے کے دوران پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی، گؤ رکشک دل کے انچارج پروین سوامی نے اس قتل کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ اگر گؤ اسمگلنگ کرنے والے ہمارے عقیدے کے ساتھ کھلواڑ کریں گے تو ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا، سب سے زیادہ افسوس ناک بیان راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ کا ہے جنھوں نے کہا ہے کہ پہلو خاں کو اس کی غلطی کی سزا ملی ہے اس کے پاس گائے لے جانے کے قانونی دستاویزات نہیں تھیں، وزیر داخلہ نے یہ نہیں بتلایا کہ کسی غلطی کی سزا دینا عدالت کا کام ہے یا عام لوگ بھی سزا دینے کے مجاز ہیں؟
جہاں تک گائے کاٹنے کا تعلق ہے مسلمان پہلے ہی سے اس سلسلے میں احتیاط کا دامن تھامے ہو ئے ہیں اگرچہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں گائے کا ذبیحہ جائز اور حلال ہے، دوسرے ملکوں میں یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ میں بھی گائے کے گوشت پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن کیوں کہ ہندوستان میں برادران وطن نے گائے کے ساتھ اپنی عقیدت کو جوڑ دیا ہے اس لئے ان کی دل دہی اور دل داری کے لئے ہندوستانی مسلمان گائے کاٹنے اور اس کا گوشت کھانے سے گریز کرتے ہیں، اب رہا یہ سوال کہ ہندو بھائیوں کی یہ عقیدت مبنی بر حقیقت ہے یا محض افسانوی تصور وخیال یا صرف سیاست، اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو تو مشہور مؤرخ پروفیسر ڈی این جھاکی مشہور کتاب The myth of holy cow کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔ پروفیسر صاحب نے اس موضوع پر بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ پراچین کال ہی سے بھارت میں گائے کے گوشت کا استعمال عام تھا، بل کہ خاص خاص موقعوں پر گائے کی قربانی بھی دی جاتی تھی، بہت سی مذہبی رسومات میں گائے کی بلی دینا ضروری تصور کیا جاتا تھا، پروفیسر صاحب کے مطابق چندرگپت موریہ کے عہد حکومت (322م ق 298ق م) سے پانچویں چھٹی صدی عیسوی تک بھارت میں گؤ ہتھیا پر پابندی نہ نظریاتی طور پر موجود رہی اور نہ عملی طور پر، جب چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود میں آئیں اور افتادہ زمینیں راجوں مہاراجوں کی طرف سے عام وخاص میں تقسیم کی گئیں تب زراعت کے نقطۂ نظر سے جانوروں کی اہمیت اور ضرورت محسوس کی گئی، لوگ ان کو پالنے پوسنے لگے، خاص کر گائے کی اہمیت میں اضافہ ہوا کیوں کہ یہ جانور کاشت کے کاموں میں مدد دینے کے ساتھ ساتھ اپنے پالنے والوں کو دودھ بھی دیتا ہے، تب گائے کی نسل کو باقی رکھنے اور بڑھانے کی ضرورت محسوس کی گئی اور دھرم شاستروں میں یہ ذکر آنے لگا کہ گائے کی ہتھیا نہیں کرنی چاہئے، آہستہ آہستہ گائے کو نہ مارنے کا نظریہ عقیدے کی شکل اختیار کرتا چلا گیا اور ہندوستان میں زراعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ گائے کے تئیں خصوصی عزت واحترام کا احساس بھی بڑھتا چلا گیا، سب سے پہلے برہمنوں کے مطالبے پر مغل بادشاہ بابر نے گؤ کشی پر پابندی لگائی، اس نے اپنے بیٹے ہمایوں کو بھی وصیت کی کہ وہ گائے کاٹنے پر پابندی لگائے رکھے، اکبر اور جہاں گیر نے بھی اپنے پیش رو بادشاہوں کی تقلید کی، انگریزوں نے ہندؤں اور مسلمانوں کو لڑانے کے لئے اس عقیدے کو خوب ہوادی اور اس کا بے جا استعمال کیا یہاں تک کہ انیسویں صدی میں اس عقیدت کو سیاست کا محور بنادیا گیا، اسی دوران پنڈت دیانند سرسوتی نے گؤ رکشا سمیتی بنائی اور گائے کے تحفظ کی عوامی تحریک کا آغاز کیا، یہ وہی مہاشے ہیں جن کے ساتھ دار العلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے گوشت خوری سمیت بہت سے موضوعات پر مناظرے کئے ہیں، پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی تحریک کے نشانے پر مسلمانوں کو رکھا، اس تحریک سے ملک میں فرقہ واریت کو زبردست فروغ ملا، جس وقت یہ تحریک شباب پر تھی اس وقت ویر ساورکر جیسے انقلابی ہندو مفکر نے اپنی تحریروں میں گائے کو ایک کار آمد جانور سے زیادہ اہمیت نہیں دی، آزادی سے پہلے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خلافت تحریک کے دوران جب گاندھی جی نے مسلمانوں کا ساتھ دیا، اسی طرح جب ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف تحریک عدم تعاون کا بگل بجا یا تو مسلمانوں نے اپنے ہندو بھائیوں کے تئیں اظہار تعلق کی خاطر اور قومی یک جہتی کو تقویت دینے کی غرض سے رضاکارانہ طور پر گائے کاٹنی بند کردی، آج بھی مسلمان اسی پر کار بند ہیں، جن ریاستوں میں گائے کاٹنے پر قانوناً پابندی ہے وہاں کا مسلمان قانون پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں بعض ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں قانونی طور پر گائے کاٹی جاتی ہے، بنگال، آسام، کیرالہ، منی پور اور گوا کا شمار ایسی ہی ریاستوں میں ہوتا ہے، دوسری طرف بعض ریاستیں گؤ کشی کے خلاف سخت قوانین بنانے میں لگی ہوئی ہیں، گجرات میں یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ جو لوگ گائے کاٹیں ان کو سرِ عام پھانسی دے دی جائے، مہاراشٹر میں گائے کاٹنے کی سزا جرمانہ اور پانچ سال کی قید متعین کی گئی ہے، ریاست ہریانہ میں قید کی یہ سزا دس سال ہے، یہ عجیب بات ہے کہ ملک ایک ہے مگر گائے کے سلسلے میں حکومتوں کا طرز عمل مختلف ہے، کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ مرکزی حکومت پورے ملک کے لئے یکساں قانون بناکر نافذ کردے تاکہ ہندو بھائیوں کے عقیدے کے مطابق گائے کا مکمل تحفظ ہوسکے۔
اسلام اگرچہ گائے کاٹنے اور اس کا گوشت کھانے کے خلاف نہیں ہے مگر برادران وطن کی خاطر دار العلوم دیوبند نے ایک سے زائد بار مسلمانوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ ملکی قانون اور ہندو بھائیوں کے مذہبی جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عید الاضحی کے موقع پر بھی گائے نہ کاٹیں، دار العلوم دیوبند کی کوئی بھی اپیل مسلمانان ہند کے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے اور وہ اس حکم پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
اب تک صرف گؤ کشی پر پابندی رہی ہے اور مسلمان اس پر عمل بھی کرتے رہے ہیں، مگر اب گائے رکھنا بھی جرم کے دائرے میں آنے لگا ہے، مرکز اور بعض ریاستوں میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس جرم کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے، گؤ رکشا سمیتیوں اور منڈلوں کے لوگ جہاں کسی مسلمان کو گائے کے ساتھ دیکھتے ہیں اس پر گائے کی اسمگلنگ اور ہتھیا کا الزام لگا کر مار پیٹ شروع کردیتے ہیں، بل کہ اسے قتل بھی کردیتے ہیں، جیسا کہ الور میں پہلو خاں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، اس سے پہلے دادری میں اخلاق احمد کو بھی محض اس شبہے میں ہلا ک کیا گیا تھا کہ اس کے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے، ہندو بھائیوں کی طرح مسلمان بھی گائے پالتے ہیں، اور ان کی خرید وفروخت کرتے ہیں، ریاست ہریانہ اور راجستھان میں ہزاروں مسلمان اس کاروبار سے وابستہ ہیں، یہاں تک کہ راجستھان کے راٹھ مسلمانوں کے ذریعے پالی جانے والی گائے کے نام ہی راٹھی گائے پڑ گیا ہے، گائے پالنے کے خلاف فرقہ پرستوں کی تازہ مہم نے خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے، یوپی کے سابق وزیر محمد اعظم خاں جن کے طویلے میں گوردھن پیٹھ کے شنکر آچاریہ کی دی ہوئی گائے پل ر ہی تھی اتنے خوف زدہ ہوئے کہ انھوں نے یہ گائے شنکر آچاریہ جی کو واپس کرنے ہی میں عافیت سمجھی، اعظم خاں نے اپنے اس طرزِ عمل سے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک خاموش پیغام دینے کی کوشش کی ہے جس کو سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے، موجود حالات میں دار العلوم دیوبند کو بھی پہل کرنی چاہئے اور مسلمانوں کے نام اپیل جاری کرنی چاہئے کہ وہ ان حملوں سے سبق لیں، اور اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی خاطر گائے کی خرید وفروخت اور اس کی نقل وحمل اور پرورش وغیرہ سے خود کو دور ہی رکھیں اس طرح فرقہ پرست تنظیموں کے پاس مسلمانوں کے خلاف فتنہ انگیزی کرنے کا یہ بہانہ بھی باقی نہیں رہے گا۔
nadimulwajidi@gmail.com