ہمارے درد صوفی ہیں

قاسم سید
پہلو خان کو الو ر میں دوڑا دوڑا کر مارا گیا جیسے کہ اس کا زندہ رہنا انسانی  سماج کے لئے خطرہ ہو اور اس خطرہ کو مٹانا ضروری ہو ۔اسے لاتوں ، گھونسوں ، ڈنڈوں ، لاٹھیوں اور بیلٹ سے اتنا مارا کہ اس کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں اور اسپتال میں دم توڑ دیا ۔تین اور نوجوان بھی گئو رکشکوں کی ٹولی کے ہاتھوں بری طرح زدو کوب کئے گئے ان کی حالت قدرے غنیمت ہے اگر پولیس اور تاخیر سے پہنچتی تو انہیں زندہ جلا دیا جاتا ۔اس سے قبل دادری میں اخلاق کو گھر سے نکال کر اس لئے ماردیا گیا تھا کہ اس پر عید قرباں پر بیف یعنی گائے یا اس کی نسل کے کسی جانور کی قربانی کا شبہ تھا جو تحقیقات میں بے بنیاد نکلا ۔کوئی اعلان کر رہا ہے کہ یوپی میں رہنا ہے تو یوگی یوگی کرنا ہوگا ۔وندے ماترم گانا ہوگا ۔اشتعال انگیز کیسٹ ریاست بھر میں بجائے جا رہے ہیں کہ ٹوپی والے کو بھی سر جھکا کر جے شری رام کہنا ہوگا ،مندر مخالفوں کے سر اتار لئے جائیں گے ،فلاں کا سرکاٹ لاؤ انعام پاؤ ،گوشت کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ نیشنل گرین ٹریبونل اور سپریم کورٹ کے احکامات کی پاسداری کرانی ہے ۔ طلاق ثلاثہ جیسے قانون الہی کو ختم کرنا ہے کیونکہ اس سے مسلم خواتین پر ظلم و تشدد کا راستہ کھلتا ہے،تعداد ازدواج وغیرہ پر بھی پابندی ہونی چاہئے یہ مسلم خواتین کی مظلومیت کا بڑھتا احساس انصاف کی نئی قسم اور امن و قانون کے نفاذ کے نئے راستے متعارف کرارہا ہے ۔یہ ہندتوا کی عملی تشریح ہے ۔یعنی جب ہندوتوا جو مذہب نہیں طریقہ زندگی ہے نظام حکومت پر اثر و نفوذ کی مکمل صلاحیت حاصل کر لے گا تو اسکی شکل و صورت وہ ہوگی جو یوپی اور کچھ دیگر ریاستوں میں نظر آرہی ہے ۔عجیب اتفاق یہ ہے کہ سارا نزلہ سماج کے کمزور طبقات یعنی مسلمانوں اور دلتوں پر ہی اتر رہا ہے ۔خواہ وہ گائے کے تقدس کی بحالی ہو یا سینکڑوں سال غلامی کا انتقام یعنی یہ بات تقریبا واضح ہوتی جا رہی ہے کہ شدت پسند عناصر بھلے ہی مٹھی بھر ہوں دھیرے دھیرے معاشرے پر حاوی ہو رہے ہیں ان کے پرکھوں نے نظریاتی دہشت گردی کی جو نرسری لگائی تھی اس کے پودے درختوں میں تبدیل ہوگئے جس کا اشارہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اترپردیش میں بی جے پی کی فتح کے بعد پارٹی ہیڈکوارٹر میں کی گئی پر مغز با معنی تقریر میں کیاتھا جن کو ہم صرف گجرات کے وزیر اعلی کے طورپر ہی یاد رکھنا چاہتے ہیں اور اب تک ان کو دل سے پی ایم تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔بات پہلو خان سے شروع ہوئی تھی جو تین طلاق پر آکر ختم ہوئی اس کے درمیان کئی ایسی کڑیاں ہیں جو زنجیر بنانے کےلئے استعمال کی جائیں گی اور ہم غیر محسوس طریقہ سے اس میں جکڑ دیئے جائیں گے اور ہم مقد س آئیں اس کے تحفظ اور بچاؤ کی تحریکیں چلاتے رہیں گے ۔در اصل پارٹ ٹائم سیاست اور الیکشن کمیشن کی طرف سے تاریخوں کے اعلان کے بعد سرگرم ہونے والی امتوں ،گروہوں اور طبقات کے ساتھ تاریخ کا جابرانہ رویہ ہوتا ہے ہم اس سے مبرا نہیں ہیں جب جمہوری ملک میں انتخابی سیاست کا موسم آنےوالی رتوں کا مزاج طے کرتا ہے اور ہماری سیاست صرف ہنگامی حالات میں ہی متحرک ہوتی ہے تو پہلو خان ،اخلاق اور مظفر نگر حصہ میں آتے ہیں ایسے لوگوں پر نہ خدا رحم کرتا ہے اور نہ ہی اس کی مخلوق ،آپ شجاعت کے ترانے پڑھتے رہئے ، پدرم سلطان بودکے نعرہ مستانہ لگائے اور یہ سوچئےکہ کوئی بد دعا آسیب بن کر تعاقب میں ہے کہ بگاڑ ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے کہ ہم کروڑوں میں ہیں مگر بے ہنگم بھڑکی طرح راہ و منزل سے بے گانہ ،صرف اپنے حقوق کے بارے میں حساس و فرائض کے بارے میں بے خبر صرف ہر وقت مانگنے والے نوحہ گری کرنے والے ،سینہ پیٹنے والے ،اپنی غلطیوں کا قصوروار دوسروں کو ٹھہرانے والے بے مطلب بے مصرف اور بے مقصد زندگی میں مست ،تقدیر کا بہانہ بنا کر عمل سے چھٹی لینے والے اگر پہلو خان اور اخلاق کی سی درگت کا شکار ہیں تو بہت زیادہ چلانے اور حکومت کو کوسنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔

در اصل ہم منافقانہ طرز عمل کا شکار ہیں مثلا روز سنت رسول پر استرا پھیرتے رہیں تونہ شرم آتی ہے اور نہ ہی ایمانی غیرت جاگتی ہے مگر جب بحریہ کے کسی مسلم افسر یا سرکاری ملازم پر داڑھی رکھنے پر پابندی لگا دی جائے تو بنیادی حقوق یاد آجاتے ہیں مذہبی آزادی پرحملے قرار دیا جاتا ہے ۔ مسجدیں سونی رہیں ،نمازیوں کو ترسیں یا مسلکی منافرت کے سبب لاٹھیاں چلیںایک دوسرے کے سر پھوڑیں نتیجہ میں مسجد میں تالہ ڈال دیا جائے ،نمازیں نہ ہوں اذان نہ دی جا سکے تو اس کا کوئی اثر دل پر نہیں ہوتا البتہ آثار قدیمہ کی مساجد پر تالہ بندی سے غیرت ایمانی ابال کھاتی ہے ۔اسکے لئے تحریکیں چلانے کو تیار رہتے ہیں ۔
یعنی شریعت کے احکامات کی پامالی کرنا ہماری بنیادی حق ہے ہم اپنے عمل سے اس کے ساتھ جیسا کھلواڑ کریں وہ جائز ہے ۔ہماری شادی بیاہ ،ہماری روز مرہ کی مصروفیات میں سے احکام خداوندی کو نکال باہر کیا ہے تو خدا کا جلال تو حرکت میں آئے گا اب یا اعمال درست کر لئے جائیں یا پھر اپنی بد اعمالیوں پر مصر رہا جائے ۔
اللہ کی گرفت کا وقت نہیں اس کے عذاب کی نوعیتیں انسانی فہم و ادراک سے ماوری ہوتی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ملک میں جو خدشات سنپولوں کی طرح سر اٹھا رہے ہیں اور ہندوتوا کی بین بجا کر انہیںاور مد مست کیا جار ہاہے ۔قانون نے آنکھیں بند کر لی ہیں خوف و دہشت کا ماحول،تعلیمی ،قانونی اور سماجی ہر سطح پر پیدا کیا جا رہا ہے اور منتخب وزیر اعلی ہندو راشٹر کی کھل کر وکالت کر رہا ہے ۔سیکولر کہے جانے والے عناصر دم دبا کر گھر کی چہار دیواری میں چھپ گئے ہیں یا ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں ۔سول سوسائٹی زبردست دباؤ کاشکار ہے اس پر چوطرفہ یلغار ہے ۔مسلمان سیاسی طور پر بے وزن ،بے وقعت اور بے حیثیت کر دیا گیا ہے ۔انتخابی عمل میں اس کی دھمک پر انی بات ہو گئی ہے اور سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کا نام لینے سے جھجھکنے لگی ہیں ۔اسے منہ بھرائی کہہ کر بدنام کر دیاگیا ہے مسلمان کا سر عام قتل ،عام واقعہ ہو تا جار ہا ہے ان کا ذکر کیا کرنا جو گرفتار کئے جاتے ہیں سالوں جیلو ںمیں سڑائے جاتے ہیں انہیں اس لائق نہیں چھوڑا جاتا کہ وہ باہر آکر سر اٹھا کر جی سکیں ۔ایسا لگتا ہے کہ گائے یا کسی اور بہانے سے مارنے کا مقابلہ کر ایا جارہاہے جو جتنا ٹارچر کریں گے اس کے نمبر بڑھیں گے آخر یوگی جی نے ماضی میں کوئی کسر چھوڑی تھی مگر اب وہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیر اعلی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے واقعات اتر پردیش کے انتخابی نتائج کا وقتی ابال ہیں یا اس کو کمال حکمت سے قومی عادت بنایا جارہا ہے کیا ہمیں اپنے مارے جانے کی ویسی ہی عادت ہوجائے گی جیسا بقول اپوروا نند چھتیس گڑھ میں قبائلیوں کی عصمت دری اور اجتماعی قتل کی وارداتوں کی ہو گئی ہے ۔
پتہ نہیں کیوں اب مایوسی پیدا ہونے لگی ہے لکھنے کو دل نہیں چاہتا کہیں کوئی بے چینی اور ہلچل نظر نہیں آتی ہیں تو ہر دیگچی میں اخلاق اور پہلو خان کی بوٹیاں نظر آنے لگی ہیں مگر مسلم محلوں ، علاقوں میں کہیں کوئی تشویش بدلتے حالات پر فکر اور بے چینی دکھائی نہیں دیتی ۔ہمارے مسلکی جھگڑے، جماعتی تعصبات اور تحفظات میں کوئی کمی بظاہر نہیں ہے ۔ایسے سنگین حالات بھی ایک کمرے میں بیٹھنے پر آمادہ کرنے میں ناکام ہیں ۔کوئی سجدہ تعظیم بجالانے کے لئے بے قرار ہے تو کوئی مسلک کو ہی مذہب سمجھ کر دانتوں سے پکڑ ے بیٹھا ہے ۔اس فکر میں کم وبیش سب اپنی صحت کو برف کی طرح گھلا رہے ہیں کہ کاش سیکولر پارٹیاں ایک ہو جاتیں تو یہ انجام نہ ہوتا یہ عجیب خواہش ہے جب ہم اپنے مصالح اور اہداف کے سبب ایک جگہ نہیں آسکتے تو ان لوگوں سے یہ امید کیوں کی جاتی ہے جو نہ ایک مذہب والے ہیں نہ ایک خدا کو ماننے والے اور نہ ایک رسول پر ایمان رکھتے ہیں ۔پھر بھی جب سر پر پڑتی ہے تو پرانی دشمنیاں بھلا کر ایک ہوجاتے ہیں لیکن ایک قبلہ و کعبہ والے کیا ان سے بھی گئے گزرے ہیں ۔سب کا دعوی ہے کہ ہماری اولین ترجیح ملت ہے مگر کیا عملا ایسا ہے ۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔یہ مٹی بہت زر خیز ہے بس ذرا سی نمی کی ضرورت ہے ۔یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلی جائے کہ جو مقابل ہیں ان کے ذہن میں کوئی الجھاؤ نہیں ہے ۔ہندو گورو کے آگے سب کچھ ہیچ ہے تو سوال یہ ہے کہ ہندو کےاندر ہندو ہونے کا احساس پیدا ہو گیا ہے یا مصنوعی طور پر کر دیا گیا ہے تو مسلمان کے اندر مسلمان ہونے کا احساس کب بیدار ہوگا دعوؤں اور زمین آسمان کے قلابے ملانے سے آگے کب بڑھیں گے ۔طاقت ور تو دور کمزور میڈیا سے بھی محروم، نہ ہی اس کی ضرورت کی عملاً کوئی کوشش ۔اتحاد کیصرف خواہش ایسے میں موجودہ اور آنے والے حالات کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ہمارے در د تو صوفی ہیں وہ احتجاج نہیں کرتے اور جان لیجئے جہاں عوام خود کو مرغابیاں سمجھنے لگیں وہاں بندوق والا محافظ نہیں شکاری ہوتا ہے ۔اب اس سے زیادہ کھل کر اور کیا کہا جائے ۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE