مسلم پرسنل لا بیداری مہم

مولانا ندیم الواجدی

ایک بڑی ملی تنظیم جماعت اسلامی ہند نے ۲۳/ اپریل سے ۷/مئی تک پورے ملک میں مسلم پرسنل لا بیداری مہم چھیڑنے کا فیصلہ کیا ہے، ایک اور بڑی ملی جماعت ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ (محمود گروپ) نے اس مہم کی تائید کی ہے اور اپنے ارکان سمیت تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کی اس مہم کا حصّہ بنیں، بلا شبہ پورے ملک میں دونوں جماعتوں کا بڑا نیٹ ورک ہے، خود جماعت اسلامی ہند کی ۱۱/سو شاخیں ہیں، اور جمعیۃ علماء ہند بھی تقریبًا ہر شہر، ہر قصبے اور ہر گاؤں میں سرگرم عمل ہے، امید ہے یہ مہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی۔
اس میں شک نہیں کہ دینی تعلیم سے دوری، اور جہالت نے مسلمانوں کی اکثریت کو دین سے دور کردیا ہے، اسلام کی بہت سی تعلیمات ایسی ہیں جن سے بہت سے تعلیم یافتہ بھی باخبر نہیں ہیں، اسی لیے مسلم معاشرے میں بہت سے معاملات کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں، مسلمانوں کی اسی ناواقفیت سے فائدہ اٹھاکر ملک کے ٹی وی چینل اسلامی تعلیمات کا کھلم کھلا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں، اگر چہ وہ اپنے پروگراموں میں بعض مولوی نما داڑھی والوں کو اور کچھ حقیقی مولویوں کو بھی بلاتے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ وہ اپنے پروگراموں میں مولویوں کو بھرپور نمائندگی دے رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی کچھ ایسی نام نہاد مسلم خواتین اور جدید تعلیم یافتہ حضرات کو بھی خالص فقہی اور شرعی موضوعات پہ گفتگو کرنے کے لیے بٹھادیتے ہیں جن کو شریعت کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا، لیکن وہ اپنی جرأت بے جا اور اینکروں کے جانب دررانہ تعاون سے اسلام اور اس کی تعلیمات پر بہ طور خاص عورتوں کے متعلق اس کے تصورات اور نظریات پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں، دوسری طرف مولوی نما داڑھی والے حضرات اپنی جہالت کی وجہ سے اور حقیقی مولوی اپنی بے زبانی اور خود اعتمادی میں کمی کی وجہ سے ان حملوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور میدان سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اس پسپائی سے اینکر حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے کوئی بڑا قلعہ فتح کرلیا ہے، دارالعلوم دیوبند نے اس طرح کے نام نہاد ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ علماء اور دانش ور حضرات ان مباحثوں میں شریک ہو کر اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کے عمل کا حصّہ نہ بنیں، اب یہ ان حضرات کا کام ہے کہ وہ کہاں تک اس اپیل پر عمل کرتے ہیں، ہماری رائے میں مباحثوں میں شرکت نہ کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے، اس کے بجائے مسلم امہ کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے وہ راستہ زیادہ مفید ہے جو جماعت اسلامی ہند نے اختیار کیا ہے اور جس کی تائید جمعیۃ علماء ہند نے کی ہے۔
موجودہ دور میں اسلامی تعلیمات سے مسلمانوں کی نا واقفیت کی بڑی وجہ علماء دین کی بے توجہی اور ائمہ وخطباء مساجد کی غفلت شعاری ہے، عام طورپر یہ حضرات اپنی تقریروں میں ان موضوعات پر گفتگو نہیں کرتے جو معاشرتی مسائل میں مسلمانوں کی رہ نمائی کرسکیں، اس کے برعکس ان کا سارا فوکس گھسے پٹے موضوعات پر ہوتاہے،مدارس کے سالانہ جلسوں میں جو تقریریں سننے میں آتی ہیں اور جن کی رودادیں اُردو اخبارات کے صفحات کی زینت بنتی رہتی ہیں ، عمومًا ان کاموضوع ۱۸۵۷ کی جدوجہد، تحریک آزادی میں علماء کا کردار، اور مدارس کی نا قابل فراموش حصہ داری رہتا ہے، بلا شبہ یہ موضوع بھی اہمیت رکھتا ہے، مگر صرف یہی موضوع اہمیت نہیں رکھتا، مسلمانوں کی زندگی کے کچھ اور گوشے بھی ہیں جن پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے، خاص طورپر اصلاح معاشرہ کا موضوع بڑا اہم ہے، اس موضوع پر کم ہی کوئی مقرر تقریر کرتا نظر آتاہے، ائمہ مساجد اور جمعہ کے خطیب بھی رٹی رٹائی تقریروں سے آگے نہیں بڑھتے، دین کے نام پر جلسوں اور کانفرنسوں کی کمی نہیں، مگر لاکھوں، کڑوڑوں روپیوں کے بجٹ سے ہونے والے ان عظیم الشان جلسوں اور کانفرنسوں سے امت کو کچھ حاصل نہیں ہوتا، خاص طورپر نصف مسلمان یعنی عورتیں تو بالکل ہی محروم رہ جاتی ہیں، غالبًا اسی کوتاہی کے پیش نظر جمعیۃ علماء ہند نے سال رواں کو اصلاح معاشرہ کے سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے، اگر ہم سے یہ مجرمانہ کوتاہی سرزد نہ ہوئی ہوتی اور ہم نے ایمان داری کے ساتھ مرد خواتین تک اسلام کا آفاقی پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہوتی تو آج نہ اصلاحِ معاشرہ کا سال منانے کی ضرورت پیش آتی اور نہ مسلم پرسنل لا بیداری مہم کے ہفتے منانے پڑتے۔
بہ ہر حال اب جب کہ مسلم امہ ملی تنظیموں، دینی مدرسوں اور ائمہ مساجد کی غفلت شعاری کا نتیجہ بھگت رہی ہے ایسے میں امید کی جو کرن بھی چمکے ہمیں اس کو خوش آمدید کہنا چاہئے، ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کی یہ مہم ہمہ گیر سطح پر ہو، اور اس میں خواتین تک پہنچنے کی اور ان تک اسلامی تعلیمات پہنچانے کی خاص طورپر کوشش کی جائے، آج ملک میں فسطائی طاقتیں اسی حوالے سے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہیں، میڈیا کے ذریعے سے مسلسل یہ بتلایا جارہا ہے کہ اسلام صرف مردوں کی بات کرتا ہے، جو بھی حقوق ہیں وہ صرف مردوں کے لیے ہیں، جوبھی آزادی ہے وہ صرف مردوں کو حاصل ہے، اسلام میں عورتوں کی صرف یہ حیثیت ہے کہ وہ گھر میں رہیں، بچے پیدا کریں، انھیں پالیں پوسیں اور دنیا سے رخصت ہوجائیں، نکاح وطلاق سے لے کر خرید وفروخت تک، ملازمت تجارت اور سفر تک میں عورتوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، ایک طرح سے وہ مرد کی غلام اور زندگی کے ہر مرحلے میں اس کی دست نگراور محتاج ہیں، میڈیا کا یہ پروپیگنڈہ برادران وطن کو اسلام کی طرف سے بد گمانی میں مبتلا کررہا ہے، ہوسکتا ہے اس کے اثراتِ بد مسلم خواتین کے ذہنوں کو بھی مسموم کردیں، اس سے پہلے کہ یہ صورت حال پیدا ہو ہمیں مسلم خواتین تک پہنچنا ہوگا اور انھیں بتلانا ہوگا کہ اسلام نے ان کو کتنی آزادی دی ہے، اور کن کن معاملات میں دی ہے، وہ کتنی خود مختار ہیں اور کتنی محتاج ودست نگر، انھیں بتلانا ہوگا کہ اسلام دینا کا واحد مذہب ہے جس نے خواتین کو باعزت مقام عطا کیا ہے، اس کو بے پناہ حقوق دئے ہیں، آج بھی اسلام ہی ان کی عزت وعظمت کا محافظ ہے اور اس کی تعلیمات ہی ان کی سربلندی کی ضامن ہیں ، اس سلسلے میں اصولی طورپر یہ بات واضح کرنی ہے کہ اسلام نے انسان کو جو عزت واحترام عطا کیا ہے اس میں مرد وعورت دونوں برابر کے شریک ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جو احکامات نازل کئے ہیں ان کی پابندی بھی دونوں پر لازم ہے، اور ان احکامات پر عمل کرنے میں آخرت کا جو اجر وثواب ہے اس میں بھی دونوں برابر ہیں، اس کے لیے قرآن کریم کی یہ آیات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں،’’ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے معاون ومدد گار ہیں‘‘ (التوبہ: ۷۱) ’’اور عورتوں کے لیے وہی حقوق ہیں جو ان پر مردوں کے حقوق ہیں اچھائی کے ساتھ‘‘ (البقرۃ: ۲۲۸) اور جو بھی ایمان کی حالت میں اچھے عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت یقینا ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی ان پر ظلم نہ ہوگا، (النساء: ۱۲۴)قرآن کریم میں اس طرح کی بے شمار آیات ہیں، اور حدیث کے ذخیرۂ کتب میں اس نوعیت کی سینکڑوں احادیث ہیںان کو سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ عورتوں کے تعلق سے اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اس کا مدلّل اور بھرپور جواب دیا جاسکے۔
آج کل اسلام کا نظام ِ نکاح وطلاق دشمنوں کے نشانے پر ہے، حالاں کہ یہ آزادی، عدل اور انصاف پر مبنی ایک مستحکم نظام ہے جس میں مرد وعورت دونوں کے حقوق سامنے رکھے گئے ہیں، اس سلسلے میں کہیں بھی جو کوتاہی ہورہی ہے اس کی ذمہ داری اس حق کو استعمال کرنے والوں پر ہے اسلام پر نہیں ہے، ہم نے گذشتہ ہفتے کے مضمون میں بھی لکھا تھا کہ عورت کو اگر اپنے شوہر سے کوئی ایسی شکایت ہے جس کی بنیاد پر علیحدگی اختیار کی جاسکتی ہے تو اسے خلع کے ذریعے طلاق حاصل کرنے کا پورا پورا حق ہے، اس کے علاوہ بھی عورت کو ایک حق حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ بہ وقت نکاح اپنے نکاح نامے میں ایسی شرائط تحریر کراسکتی ہے جن پر مرد کے ذریعے عمل نہ کرنے کی صورت میں عورت کو اپنے شوہر کی زوجیت سے علیحدگی اختیار کرنے کا حق حاصل ہوجائے ، ہمارے خیال میں دنیا کے کسی بھی مذہب نے عورت کو اتنا بڑا حق نہیں دیا ہے۔ یہ سب حقوق سامنے آنے چاہئیں، طلاق کو بھی اسلام نے اتناآسان نہیں بنایا کہ جو چاہے جب چاہے طلاق دیدے، اس کا پورا نظام ہے، علماء کو چاہئے کہ وہ مردوں کو عورتوں کے حقوق اور مردوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتلائیں کہ اگر میاں بیوی میں نباہ نہ ہو تو علیحدگی کے لیے کیا شکل اختیار کی جائے،ان دنوں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ طلاق کا قانون عورت کے حق میں انتہائی غیر مفید ہے، بلکہ ایک طرح سے یہ قانون ظالمانہ ہے، مردوں کو جو حق طلاق حاصل ہے اس کی تلوار ہر وقت عورت کی گردن پر لٹکتی رہتی ہے، یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو اس حق کی مصلحت وحکمت اوراس حق کے استعمال کرنے کے موقع و محل اور طریقہ کار کا علم ہی نہیں ہے، اکثر جگہوں پر جاہل نکاح خواں نکاح پڑھاکر چلتے بنتے ہیں، یہ اہم کام ہے، اہل علم حضرات کو یہ ذمہ داری سنبھالنی ہوگی اور بہ وقت نکاح مردوزن کو اسلام کے نظام نکاح وطلاق کے محاسن اور اس کی خوبیوں سے روشناس کرانا ہوگا ،امید ہے فسطائی طاقتوں نے امت مسلمہ کو جو چیلنج دیا ہے اس کا جواب ہم ان کی زبان میں دینے کے بجائے اسلامی تعلیمات کو عام کرکے دیں گے۔
nadimulwajidi@gmail.com