ترک صدر کا دورۂ ہند

پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی

ترک صدر رجب طیب اردگان اپنا دو روزہ دورہ ہند مکمل کرکے ترکی واپس لوٹ چکے ہیں، یہ ان کا دوسرا دورۂ ہند تھا ، اس سے قبل 2008 میں انہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا جب وہ اپنے ملک میں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز تھے اور ہندوستان میں ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم تھے، 16 اپریل کو ترکی میں ہونے والے کامیاب عوامی ریفرینڈم کے بعد طیب اردگان ملکی ترقی، معیشت کی مضبوطی، تجارت کے فروغ اور عوامی و فلاح بہبود کےلئے متعدد اہم ترین ممالک کا دورہ کرنے کاعزم رکھتے ہیں، جس کی شروعات انہوں نے ہندوستان سے کی ہے،ہندوستان کا دورہ 16 اپریل سے پہلے ہی طے ہوگیا تھا لیکن اسے حتمی شکل ریفرنڈم میں کامیابی حاصل ہونے کے بعد ملی، ہندوستان کے علاوہ رواں ماہ میں طیب اردگان روس، امریکہ اور چین جیسے اہم ترین ملک کا بھی دورہ کرنے والے ہیں، اس کے علاوہ یورپی یونین کے اجلاس میں بھی وہ شرکت کریں گے۔
بحر الکاہل ایشاء میں ہندوستان اور ترکی دوسرے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں، لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں زیادہ عروج پر نہیں ہے، 2016 میں ترکش فورم نے 212 ملین ڈالر کی ہندوستان میں سرمایہ کاری کی تھی جب کہ ہندوستانی کمپنیوں کی ترکی میں سرمایہ کاری صرف 110 ملین تھی، طیب اردگان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے مواقع کو بڑھانے کے شدید خواہش مند ہیں، چناں چہ انہوں نے 150 افراد کے قافلے کے ساتھ ہندوستان کادورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی، بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستان اور ترکی میں پائے جانے والی مشترکہ خصوصیات کو شمار کرایا، حکومت ہند کو یہ مشورہ دیا کہ ہندوستان کی وزارات برائے صنعت وحرفت انقرہ میں ایک دفتر قائم کرے اور ترکی کی وزارات برائے صنعت و حرفت نئی دہلی میں اپنا دفتر قائم کرے گی، انہوں نے کرنسی کو اہم بنانے پر بھی زور دیا کہ اور کہاکہ ہندوستان اور ترکی اپنی اپنی کرنسی میں لین دین کریں گے، ترک صدر نے اپنی گفتگو میں نریندر مودی کو عالمی دباؤ سے آزاد رہ کر معیشت مضبوط کرنے اور اپنی طاقت کا لوہا منوانے کا مشورہ بھی دیا اور کہاکہ ہندوستان دنیا کی ساتویں سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے اور ترکی سترہویں نمبر پر ہے، دونوں ممالک جی 20 کے ممبر ہیں، ایسے میں یہ دونوں ممالک عظیم طاقت بن سکتے ہیں۔ ترکی کے مشہور اخبار روزنامہ صحاب کے مطابق اردگان نے یہ بھی کہاکہ ترکی کے پرائیوٹ سیکٹر کو عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل ہے ، ترکی کی تعمیراتی کمپنیاں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جس کی تجارتی شرح 342 بلین ڈالر ہے، دنیا کی 250 اہم کنٹریکٹر کمپنیوں میں ترکی کی 42 کمپنیاں شامل ہیں، ہندوستان کی جانب سے 100 اسمارٹ سٹی بنائے جانے کا جو منصوبہ ہے اس کو پایہ تکمیل تک پہونچانے اور اسمارٹ سٹی کی تعمیر میں ترکی کمپنیوں کی خدمات نمایاں رول اداکرے گی۔
طیب اردگان نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ ترکی اس وقت عالمی سطح کے سب سے بڑے دہشت گروپوں کے ساتھ برسر پیکار ہے، دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے جوڑنا صحیح نہیں ہے ، اس دوران ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے مسئلہ کشمیر پر بھی لب کشائی کی ، کثیر الفریق مذاکرات کے ذریعہ اسے حل کرنے کی تجویز پیش کردی ،ساتھ میں ثالثی کی پیش کش کی۔ہندوپا ک کو تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ بھی دیا اور کہاکہ کثیر الفریق مذاکرات کے بغیر کشمیر کا حل ممکن نہیں ہے ، ہندوپاک کے درمیان تعلقات کی بہتری پور ی دنیا کے حق میں بہتر ہے، 70 سالوں سے زائد سے جاری اس تنازعہ کا حل اب ضروری ہوگیا ہے۔ حکومت ہند کو طیب اردگان کی یہ بات پسند نہیں آئی اور مسئلہ کشمیر پر ا ن کی رائے مسترد کرد ی گئی، طیب اردگان کی آمد سے قبل بھی اس موضوع پر بحث و مباحثہ کیا گیا کہ کشمیر کے تعلق سے ترکی کا موقف ہندوستان کی پالیسی کے خلاف ہے ، پاکستان سے ان کے زیادہ قریبی تعلقات ہیں، ترک وزارت خارجہ نے بھی کچھ دنوں قبل کہا تھا کہ وہ کشمیر مسئلے پر پاکستان کے ساتھ ہے۔ان باتوں کو لیکر حکومت ہند پر یہ دورہ منسوخ کرنے کا بہت دباؤ بھی ڈالا گیا لیکن حکومت ہند نے اس طرح کی تمام باتوں کو مسترد کرتے ہوئے طیب اردگان کا ہندوستان کی سرزمین پر خیر مقدم کیا، ترکی ۔ ہندوستان کے تعلقات کو مضبوط بنانے کا عندیہ ظاہر کیا، وزیر اعظم نریندر مودی نے طیب اردگان کے قدم سے قدم ملاکر چلنے کا عزم ظاہر کیا ،ہندوستان نے اس وجہ سے بھی طیب اردگان کو اہمیت دی کہ ترکی این ایس جی کا ممبر ہے جبکہ ہندوستان اس کی ممبر شپ حاصل کرنے کا خواہشمند ہے جس کےلئے ممبران ممالک کی حمایت حاصل کرنی پڑے گی، ترکی نے ہندوستان کی حمایت کا وعدہ کیا ہے، ترکا یہ بھی موقف ہے کہ ہندوستان کے ساتھ پاکستان کو بھی این ایس جی کی ممبر شپ ملنی چاہیئے انہوں نے اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت کے لئے بھی ہندوستان کی وکالت کی۔
ترک صدررجب طیب اردگان کے دورہ کو ہندوستانی میڈیا نے کوئی اہمیت نہیں دی، اس طرح کوئی بھی خبر ٹی وی چینلوں پر عموماً  نہیں چلائی گئی ، نہ ہی میڈیا کی سرگرمیوں سے کسی کو یہ احساس ہواکہ ترکی کے صدررجب طیب اردگان ہندوستان کے دورے پر ہیں، حالاں کہ یہ دورہ جہاں ترکی کےلئے بہت اہمیت کا حامل تھا وہیں ہندوستان کیلئے بے پناہ اہمیت کاحامل ثابت ہواہے کیوں کہ ترکی نے ہندوستان کو این ایس جی میں ممبر بنانے کی حمایت کا وعدہ کیا ہے، عالمی سطح پر ترکی کا شمار دنیا کے اہم ترین ملکوں میں ہوتاہے، عالم اسلام کا سب سے طاقتور ملک ہے، ان سب باتوں کے باوجود مین اسٹریم میڈیا نے اس دورہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی، کچھ اخبارات نے بزنس فورم سے خطاب اور مشترکہ پریس کانفرنس کی خبروں کو شائع کیا تو وہ بھی ادھوری اور ناقص۔ طیب اردگان کی ہندوستان تشریف آوری سے یہاں کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر تھی۔ فرحت و شادمانی کے جذبات سے سبھی لبریز تھے ہر کوئی ان کی راہوں میں پلکیں بچھا کر ان کا استقبال کرنے کیلئے بے چین و بے قرار تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز کرکے مسلمانان ہند کے جذبات کی ترجمانی کرکے قابل ستائش فریضہ انجام دیا ہے۔ اس موقع پر اگر طیب اردگان اپنا کچھ وقت یہاں کے مسلم رہنماؤں کو دیتے اور ان سے بات کرتے تو شاید اور اچھا ہوتا!!!
stqasmi@gmail.com

SHARE