کب شرمندہ تعبیر ہوگا سبھوں کے لیے مفت، معیاری اورمساوی تعلیم کا خواب

ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی
ملت ٹائمز
آج سے تقریبا چھ برسوں قبل حکومت نے مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ 2009پاس کرکے پورے ملک میں معیاری وانصاف پر مبنی مفت تعلیم فراہم کرنے کا عہد کیا تھا۔ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا مرکزی وسرکاری حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ 6 سے 14 سال کے بچوں کی مکمل تعلیمی کفالت کریاور انہیں معیاری تعلیم کی فراہم کرے۔اس میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی تھی کہ یہ ایکٹ بچہ کو یہ حق فراہم کرتا ہے کہ اسے قریبی اسکول میں داخلہ دیا جائے، اسے مفت تعلیم دی جائے، اس کی حاضری کو یقینی بنایا جائے، اس سے کسی بھی قسم کی فیس نہ لی جائے، اگرکوئی بچہ صحیح وقت پر داخلہ نہیں لے پایا ہے تو اسے اس کی عمر کے حساب سے مناسب کلاس میں داخلہ دیا جائے، کلاس میں استاداور بچے کا مناسب تناسب رہے، شہروں اور دیہاتوں میں ہرجگہ اس تناسب کو بہتر سے بہتر رکھنے کو یقینی بنایا جائے اور بچوں کو ایسی معیاری تعلیم دی جائے کہ وہ ٹیوشن کا محتاج نہ ہو۔اسی طرح اس بات کی یقین دہانی کی گئی تھی کہ پرائیوٹ اسکولوں میں 25 فیصد نشستیں پسماندہ وپچھڑے طبقات اور اقتصادی طور پر کمزوروں کے لیے مختص کیے جائیں گے جنہیں مفت داخلہ وتعلیم فراہم کی جائے گی۔
یکم اپریل 2010 کو اس ایکٹ کا نفاذ عمل میں آیا تھا۔ صرف دو مہینہ بعد اس کے نفاذ کو 6 سال کا عرصہ پورا ہونے جارہا ہے۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہندوستان کی عمومی ریاستوں میں حق تعلیم ایکٹ کے نفاذ کی صورت حال کسمپرسی کا شکار ہے۔ صرف کیرلا ایسی واحد ریاست ہے جہاں پرائمری تعلیم کے سوفیصد خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکا ہے، اسی طرح پرائیوٹ اسکولوں میں پسماندہ واقتصادی طور پر کمزوروں کے داخلہ کی صورت حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ صرف اترپردیش میں 75 میں سے 12 ضلعوں میں پرائیوٹ اسکولوں میں غریب ونادار بچوں کو تناسب کے حساب سے داخلہ دلانے کی کارروائی نہیں ہوپائی ہے،جہاں ہوئی بھی ہے وہاں سبحان اللہ۔ بہت سارے دلت،آدی باسی اور اقلیت کے بچے اپنے ساتھ ہونے والے بھید بھاؤ کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیتے ہیں۔ 50 فیصد پرائمریری اسکول سے پاس ہونے والے بچے ایسے ہیں جو نہ تو حساب کی مبادیات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں نہ ہی کسی شورٹ اسٹوری کو پڑھنے کے اہل ہوتے ہیں۔ بچوں کو زدو کوب کرنے اور انہیں نفسیاتی طور پر پریشان کرنے کے واقعات بھی آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں جبکہ اس پر مکمل روک لگائے جانے کا عہد کیا گیا تھا۔ بچوں کی اخلاقی وذہنی تربیت کا تو پوچھنا ہی نہیں ہے۔ بہت سارے سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں میں کم عمر بچیوں کو اساتذہ اور ذمہ داران کے ذریعہ حاملہ بنانے کے واقعات بھی آئے دن اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں، لیکن کوئی قانون ایسے مجرموں کو عبرت آموز سبق سکھانے میں اپنا مؤثر رول ادا نہیں کرپارہا ہے۔
2011 کے سروے کے مطابق ہندوستان میں تعلیمی تناسب 74.4 ہے جس میں 82.14 مردوں کا اور 65.46 خواتین کا ہے۔ کیرلا ہندوستان کی واحد ریاست ہے جہاں تعلیمی تناسب پرائمری تعلیم میں سوفیصد ہے۔ اس کے بعد گوا، تریپورا، میزورم، ہماچل پردیش، مہاراشٹر اور سکم کا نمبر آتا ہے۔پورے ہندوستان میں سب سے کم تعلیمی تناسب بہار کا ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہندوستان کا تعلیمی تناسب بہت کم ہے۔ اس ملک کی آبادی کافی زیادہ ہے، یہ رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے لیکن آبادی کے اعتبار سے چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ سوا بلین سے زیادہ یہاں کی آبادی ہے، لیکن آبادی کے تناسب سے اسکولوں اور کالجوں کی تعداد بہت کم ہے۔ آج بھی یہاں کے آبادی کا ایک حصہ خط افلاس سے نیچے زندگی گذار رہا ہے، بہت سارے لوگوں کو مفت ومعیاری تعلیم حق کا پتہ ہے ہی نہیں، اور اگر ہے بھی تو وہ سہولت ضرورت کے مطابق انہیں میسر نہیں ہے۔
ہندوستان کے عمومی تناسب سے ذرا ہٹ کر جب ہم دلتوں، آدی باسیوں، اقلیتوں اور خواتین کے تعلیمی تناسب کا جائزہ لیتے ہیں تو صورت حال اور بھی ابتر دکھائی دیتی ہے۔ 2011 کے سروے کے حساب سیدلتوں اور آدی واسیوں میں 15 سال تک کے عمر کے بچے بچیوں میں خواندگی کی شرح 23 فیصد اور 23.5 فیصد بالترتیب ہے۔ ان طبقات میں خواتین کی شرح خواندگی صرف 19.5 فیصد ہے۔ دلتوں اور آدی باسیوں کے اسکول منقطع کرنے کا تناسب بھی زیادہ ہے۔ اقلیتوں کی حالت بھی دلتوں کی طرح بلکہ کچھ معاملات میں وہ ان سے بھی پچھڑ ی ہوئی ہے کیوں کہ موجودہ ہندوستان میں انہیں دلتوں کی طرح ریزرویشن کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔
تعلیم کی سالانہ صورت حال رپورٹ (ASER) 2014 میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہیکہ پرائیوٹ اسکولوں میں داخلہ کا تناسب2014 میں18.7 فیصد تھا جو 2016 میں بڑھ کر 30.8 فیصد ہوا ہے ۔ لیکن اس میں پسماندہ وغیر ترقی یافتہ طبقات کی شمولیت کا تناسب آج بھی بہت کم ہے۔ اچھے اور معیاری اسکولوں میں جو ڈی پی ایس اور آکسفورڈ پبلک اسکول کے معیار کے ہیں وہاں تو عام متوسط طبقے کی بھی رسائی نہیں ہے پچھڑے طبقات کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔
دی نیشنل یونیورسٹی آف نیشنل پلاننگ اینڈ ایڈمیسٹریشن کے 2011-12 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایس سی ایس ٹی کے 16 فیصد بچے پرائیوٹ اسکول جاتے ہیں، اقلیتوں کے پرائیوٹ اسکول جانے والے بچوں کی تعداد بھی اسی آس پاس ہوگی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لازمی ومعیاری مفت تعلیم ایکٹ میں پرائیوٹ اسکولوں میں 25 فیصد کمزور طبقات کے بچوں کیداخلے کی جو بات کہی گئی تھی وہ شرمندہ تعبیر کیوں نہیں ہوپارہی ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ “سب کا ساتھ اور سب کا وکاس” کا نعرہ دینیوالی مودی حکومت اس طرف خصوصی توجہ مبذول کرے۔ پرائیوٹ اسکولوں میں 25 فیصد کمزور طبقات کے بچوں کے داخلے کو یقینی بنایا جائے۔ تاکہ ہرطبقات کے بچے ایک ساتھ بیٹیں و، کھائیں، زندگی گذاریں اور تعلیم حاصل کریں ۔ تاکہ ایک دوسرے کے مابین دوریاں کم ہوں اور سبھوں کو معیاری تعلیم کا موقع ملے۔ سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ اس سلسلے میں کیجریوال حکومت نے نرسری میں داخلہ کے لیے جو شرط عائد کی تھی وہ مستحسن قدم تھا، گرچہ عدالت نے اس پر فی الحال روک لگادی ہے۔ اسی طرح مخصوص اسکولوں کو منتخب کرکے ان کے معیار تعلیم کو پرائیوٹ اسکولوں کے مساوی کرنے کی سمت میں اس حکومت نے جو کوشش کی ہے وہ بھی قابل ستائش ہے، اسے مرکزی حکومت اور دوسری ریاستوں کو بھی اپنا نا چاہیے۔ اس سے سرکاری وپرائیوٹ اسکولوں کے معیار تعلیم او رسہولیات کے فرق کو ختم کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔
مذکورہ تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی ہمیں بہت سارے چیلنجز کا مقابلہ کرنا باقی ہے، ایسی صورت حال میں حکومت کی ذمہ داری ہیکہ وہ اس سمت میں خصوصی پیش قدمی کرے۔ آج سے چھ سالوں قبل کیے گئے عہد کو عملی جامہ پہنانے میں جو کوتاہیاں ہوئی ہیں انہیں دور کیا جائے ، سرکاری اسکولوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، آبادی کے حساب سے اسکولوں کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے، اسکولوں کے معیار اور انفرسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے، بچوں اور اساتذہ کے تناسب کے سرکاری اسکولوں میں بھی سی بی ایس ای کی شرط کے مطابق کی جائے، پرائیوٹ اسکولوں میں اقتصادی پسماندہ کے لیے 25 فیصد نشستوں پرداخلے کو یقینی بنایا جائے،بچوں میں تخلیقی صلاحیت اور تعمیری ذہنیت پیدا کرنے کا خصوصی ماحول بنایا جائے، 6-14 سال تک کے بچوں کے سوفیصد داخلہ کو ہندوستان کی تمام ریاستوں میں یقینی بنایا جائے تاکہ ہم بھی سر اٹھاکرکہ سکیں کہ ہمارا ملک تعلیمی میدان اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ضررور کامیاب ہوگا۔
(مضمون نگارامام محمد بن سعود یونیورسٹی ، ریاض میں اسسٹنٹ پروفیسر اور رحیق گلوبل اسکول، نئی دہلی کے ڈائکٹر ہیں)

SHARE