داعش سے کس طرح ڈیل کیا جائے؟

داعش کے فتنے نے مشرق وسطیٰ میں تو تباہی پھیلا رکھی ہے، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں،ادھر یورپی ممالک سے پڑھے لکھے مسلمان نوجوانوں نے داعش کا ساتھ دینے کے لیے شام اور عراق کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے،مغربی حکومتوں کے لیے یہ ایک الگ سے مسئلہ بن چکا ہے۔ادھر افغانستان میں بھی ایک گروہ نے خود کو داعش قرار دے کر منظم کرنا شروع دیا ہے۔ افغان صوبہ ننگر ہار میں یہ طاقت پکڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی داعش کے آثار نظر آئے ہیں،حکومت اور ادارے اگرچہ اس کی تردید کر رہے ہیں، لیکن داعش سے تعلقات کے شبہ میں پکڑے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ سیالکوٹ سے اگر ایک گروہ پکڑا گیا ،کہا جارہا ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعے شام میں داعش کے کمانڈروں سے رابطے میں تھے۔ کراچی سے بھی گرفتاریاں ہو چکیں، اگلے روز لاہور سے ایک سرکاری عہدیدار پکڑا گیا، اس کی بیوی کے بارے میں پہلے میدیا پر خبریں چلیں کہ وہ بعض دوسری عورتوں کو لے کر شام چلی گئیں۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی، ان خواتین کے موبائل فون کی لوکیشن بتا ریی ہے کہ وہ کراچی یا بعض اطلاعات کے مطابق پنجاب کے کسی شہر میں پو شیدہ ہیں۔

ہمرے ہاں داعش کے حوالے سے دو نقطہ نظر واضح ہو چکے ہیں۔ ایک حلقہ انکاری ہے،وفاقی اور صوبائی حکومت خاص کر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار واشگاف الفاظ میں کہ چکے ہیں کہ پاکستان میں داعش موجود نہیں۔ عسکری ذرائع بھی ان کی تائید کر رہے ہیں۔ داعش کے حوالے سے ایک اور حلقہ بھی موجود ہے، جو نہ صرف اس کی موجودگی پر اصرار کرتا ہے، بلکہ اس کے وجود کو کئی گناہ بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی کوشش کی جا ری ہے۔ ایک فیکٹر ضرب عضب بھی ہے، چونکہ ضرب عضب کے ذریعے ریاست پاکستان نے اپنی رٹ منوائی ہے،دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور ایک طرح سے ان کا صفایا کر دیا۔ پوری اسلامی دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے ایسا کر دکھایا۔ اس کی بڑی وجہ ہماری منتخب سیاسی قوت اور فوج کا ایک صفحے پر اکھٹے ہو کر پوری یکسوئی سے آپریشن کو سپورٹ کرنا ہے۔

آپریشن ضرب عضب کی کامیابی سے پاکستانی ریاست کا جو امیج بنا ہے، اس سے بعض قوتیں خائف ہیں،داعش کے فتنے پر ذور دینے کاا یک مقصد ضرب عضب کے تاثر کو ضائل کرنا بھی ہے۔ ہمارے خیال میں جو بات بتنی ہے، اتنی کہنی چاہیے۔ داعش کے جس قدر آثار نظر آئے ہیں،ان سے انکار بھی مناسب نہیں اور اس تنظیم کو اس کے اصل وجود سے بھی بڑا دکھانا بھی بہت غلط ہے۔ اسی طرح داعش کے بیانیہ کو رد کرنے کے چکر میں ہر قسم کے اختلافی نقطہ نظر پر پابندی لگانے اور اسے داعش کی حمایت قرارادینا بھی درست نہیں۔ جو حقیقت ہے اس کا اعتراف کریں، اس پر سنجیدگی اور غیر جانبداری کے ساتھ بات کریں،اس کے تدارک کرنے کا سوچیں۔
سب سے پہلے تو داعش کے حوالے سے دو تین بنیادی باتیں سمجھ لی جائیں تو اس پورے، معاملہ کا اندازہ لگانا آسان ہو جائے گا۔ داعش اصل میں چار حروف یعنی ’’داع ش‘‘ کا مجموعہ ہے، اصل اصطلاح ’’ دولت اسلامیہ عراق و شام‘‘ ہے۔ نام ہی سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس کا تعلق جنوبی ایشیا یا پاکستان، افغانستان وغیرہ سے نہیں ہے۔ اصل میں یہ شدت پسند سنی عناصر کے مختلف گروپ تھے جو پہلے عراق میں امریکی فوجیوں کے خلاف عراق کے سنی عرب صونے ’’الانبار‘‘ میں لڑ رہے تھے۔ تکرت، فلوجہ، رمادی، وغیرہ میں ان کا اثرورسوخ زیادہ تھا۔

پہلے یہ القائدہ کا حصہ بن گئے،جب ان کی اینٹی شیعہ کا روائیوں پر اسامہ بن لادن نے ناراضگی ظاہر کی تو یہ سائیڈ لائن ہو گئے۔ خاص کرعراقی القائدہ کے سربراہ ابو معصب الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد شدت پسند جنگجوالگ ہو گئے، بعد میں جب شام میں بشارالاسد کے خلاف تحریک مزاحمت شروع ہوئی تو یہ ادھر چلے گئے۔

بشارالاسد کے خلاف سنی مزاحمت کو کئی ممالک کی جانب سے مدد ملتی رہی،امریکہ کا نام لیا جاتا ہے اور عرب ممالک کا بھی۔ یاد رہے کہ اسد کے خلاف مذاحمت کرنے والے گروپ کئی قسم کے تھے، جن میں بعض اعتدال پسند سمجھے جاتے ہیں، کچھ زیادہ شدت پسند تھے، یہی لوگ بعد میں داعش کا حصہ بنے، ویسے تو القائدہ بھی شام میں فعال تھی۔ ( جگہ کی کمی کے باعث میں زیادہ تفصیل میں نہیں جا رہا نہ ہی وہاں موجود گروپوں کے نام لکھ رہا ہوں)۔ ادھر عراق میں امریکی فوجیوں کے نکلنے کے بعد اقتدار عراقی شیعہ اکثریت کو ملا، نوری المالکی وزیراعظم تھے۔ انہوں نے صدام دور کی زیادتیوں اور مظالم کا بدلہ سنی عربوں سے چکایا اور وہاں شدید ترین منفی اور تلخ جذبات پیدا ہو گئے۔

یہ یاد رہے کہ عراق میں شیعہ آبادی پچاس سے پچپن فیصد ہے، آج کے عرق میں انہی کی گرفت مضبوظ ہے، آج کل وہ عراق کے تقریبا خود مختار علاقہ کے مالک ہیں، جہاں کرکوک جیسے تیل کے ذخائر والا شہر بھی موجود ہے، جبکہ سنی بیس پچیس فیصد ہیں مگر وہ پچھلے کئی عشروں سے حکمران تھے۔ اس لحاظ سے عراقی اشرافیہ، فوج، پولیس، بیوروکریسی، میں ان کا غالب حصہ تھا،صدام کے جانے کے بعد یہ اچانک صٖفر ہو گیا، فوج سرے سے ختم ہوگئی، نئی بھرتی ہوئی تو اس میں سنی عربوں کو بھرتی نہیں کیا گیا۔ سنی عربوں کی محرومیوں سے جس جنگجو گروپ نے فائدہ اٹھایا اور اہم عراقی شہر موصل سمیت بعض دوسرے علاقوں پر قبضہ کیا، جہاں سے نکلنے والے تیل کو بیچ کر کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں، انہی جنگجووں نے اپنے زیرقبضہ علاقہ داعش یعنی دولت اسلامیہ عراق و شام کا نام دیا کہ عراق و شام کی درمیانی سرحد کے دونوں اطراف کے کچھ علاقوں پر ان کا کنٹرول ہوچکا ہے۔

داعش نے موصل کے بعد بغداد کی طرف آنے کی کوشش کی مگر انہیں عراقی فوج نے شیعہ ملیشیاز کی مدد سے روک لیا، انہیں امریکی سپورٹ بھی ملی۔ داعش نے ادھر سے مایوس ہو کر دوسری سمت کردوں پر دباؤ ڈالا اور کوبانی شہر میں کئی ماہ تک دونوں کی جنگ جاری رہی، کرد میلشیا نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنے علاقے بچائے، مگر ابھی کشمکش جاری ہے۔ داعش نے شام کی طرف بھی زور ڈالا، رقہ شہر کے قریب حضرت بی بی زینب کا مقبرہ ہے۔ رقہ اور اس کے اردگرد قبضہ کے لیے داعش اور شامی فوجوں کے درمیان سخت لڑائی ہوتی رہی ہے۔ شامی افواج کو لبنان کے شیعہ گروپ حزب اللہ کی کھلی سپورٹ حاصل ہے، ایرانی فوج خاص کر ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈروں اور ٹرینروں کی شامی فوج کے ساتھ مل کر لڑنے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ حضرت بی بی زینب کے مقبرے کی حفاظت کی خاطر ہی ایران سے باہر کے شیعہ رضا کار نوجوانوں کو بھرتی کیا جاتا رہا ہے، ایرانی حکومت اس حوالے سے مختلف ویب سائٹس پر اشتہارات دیتی رہتی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان سے بھی بہت سے رضا کار نوجوان اس مقصد کے لیے شام جا چکے ہیں۔

داعش کی سپورٹ کس کس نے کی؟ کیا یہ امریکی ایجنٹ ہے؟ سعودی عرب اور ترکی بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ، اس قسم کے سوالات کے جوابات اتنے آسان نہیں۔ مڈل ایسٹ کا معاملہ بڑا پیچیدہ ہو چکا ہے، وہاں کئی ملک ایک نقطہ پر متفق توکسی دوسرے نقطہ پر ایکدوسرے کے مخالف ہیں۔ امریکہ کا ایجنٹ ہونے کا الزام تو کسی پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ حتمی بات تو کوئی نہیں کہ سکتا، مگر یہ بات ضرور ہے کہ داعش امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کا کام ضرور کر ری ہے۔ دانستہ یا نا دانستہ داعش والے وہی کام کر رہے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں استعماری قوتیں بہت عرصے سے چاہتی ہیں۔ جو آگ، شیعہ اورسنی تصادم عالمی قوتوں کی خواہش تھی وہ آج ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سعودی عرب یا ترکی نے ممکن ہے شروع میں کسی حوالے سے شام کے سنی گروپوں کی مدد کی ہوتو داعش کو بھی فائدہ ملا ہو، مگر اب سعودی عرب بہر حال داعش کی مخالفت کے حوالے سے یکسو ہو چکا ہے، سعودی داعش کا خاتمہ چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ اس کا پھیلاؤ خود سعودی بادشاہتوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ادھر ترکی کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں.

اس پر روس اور ایران الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ داعش سے سستا تیل خرید رہا ہے، ترک حکومت اس کی تردید کرتی ہے، طیب اردوان کہ چکے ہیں کہ یہ الزام سچ ثابت ہوا تو وہ اقتدار چھوڑ دیں گے۔ ویسے ترکی اپنے اندرونی مسائل اور کرد علیحدگی پسندوں کے ساتھ لڑائی میں الجھ چکا ہے، اب جبکہ پیرس حملے کے بعد مغربی دنیا داعش کے خلاف ہو چکی ہے، ایسے میں ترکی داعش کی حمایت کرنے کا ایڈویچر نہیں کر سکتا۔

داعش کا اصل محاز مشرق وسطیٰ ہے، اس کے جنگجووں کا تعلق بھی وہاں سے ہے، اس کے ایجنڈے کا بنیادی تعلق پاکستان،افغانستان سے نہیں، داعش جیسی سخت گیر شدت پسند سوچ رکھنے والے بھی یہاں نہیں۔ داعش کااس خطے میں کیا عمل دخل ہو سکتا ہے، وہ کون ہیں جو داعش کے نام لیوا ہیں، انہیں کس طرح ہینڈل کرنا چاہیے، اس پر اگلی نشست میں بات ہو گی۔

SHARE