تقسیم شام کا ایک اور منصوبہ

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
شام ملت اسلامیہ کا اہم ترین ملک ہے،یہاں کی تاریخ آرٹ، ثقافت اور انسانی تعلقات کی دریافت کے سفر پر مبنی ہے۔بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع شام کی سرزمین کے ہر قدم پر ایک تاریخ موجود ہے۔ اسے دنیا کی مختلف تہذیبوں کے سنگم کی سر زمین ا ور مشرق و مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت بھی حاصل ہے ۔ ہزار ہا سال سے بحر اوقیانوس اور د ریائے فرات کے درمیان کا یہ علاقہ تاریخی تبدیلیوں کا مرکز رہا ہے۔شا م میں چھ ہزار سال پرانی تاریخ کے آثاراب بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ یہاں دنیا کی قدیم ترین عمارات اور مذاہب کے آثار بھی ملتے ہیں، ملک شام کے بے شمار فضائل احادیث نبویہ میں مذکور ہیں، قرآن کریم میں کی متعدد آیات میں بھی ملک شام کی بابرکت سرزمین کا تذکرہ ہے۔عیسائیت کی بنیاد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا آغاز بھی شام ہی سے ہواتھا۔ دمشق کو طویل عرصے تک اسلامی دارلسلطنت کی حیثیت حاصل رہی۔ہندوستان،ا سپین اور ایشائے کوچک تک اسلام کا ابدی پیغام بھی شام ہی سے پہنچا،تاریخ اسلام کے نامور جرنیل حضرت خالدبن ولید نے سب سے بڑی اور خطرناک لڑائی’’ جنگ یرموک‘‘ بھی اسی ملک میں لڑی تھی جو عالم اسلام کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کہلاتی ہے ۔مورخین نے لکھاہے کہ شام سریانی زبان کا لفظ ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت سام بن نوح کی طرف منسوب ہے۔ طوفان نوح کے بعد حضرت سام اسی علاقہ میںآکر آباد ہوئے تھے،عربی زبان میں اسے سوریااور انگلش میں اسے سیریا کہاجاتاہے ،
عالم اسلام کا یہ مبارک خطہ پہلی جنگ عظیم تک عثمانی حکومت کی سرپرستی میں ایک متحدہ ملک تھا، خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد انگریزوں اوراہل فرانس کی پالیسیوں نے اس سرزمین کو چار ملکوں میں تقسیم کردیا جو آج شام، لبنان، فلسطین اور اردن کے نام سے مستقل ملک ہے،موجودہ شام کا رقبہ 185,180 کیلومیٹر اور 71,479 مربع کیلومیٹر پر مشتمل ہے ،2014 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی کل آباد ی17,064,854 ہے جس میں 87 فیصد مسلمان ،دس فیصد عیسائی اور تین فیصد دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں ۔شام میں سنی مسلمان 74 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ ہیں جن میں 60 فیصد عرب سنی مسلمان ہیں ،9 فیصد کرد ہیں جبکہ شیعہ کل 13 فیصد ہیں ۔
شام گذشتہ پانچ سالوں سے مسلسل خانہ جنگی کا شکارہے ،انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والے ادارے’’ آبزرویٹری‘‘ کی تازہ اطلاع کے مطابق شام میں اب تک 3 لاکھ 70 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ،جبکہ عرب میڈیا میں یہ تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ بتائی جارہی ہے ،یورپ ،ترکی اور دیگر ممالک کی طر ف ہجرت کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد شامی مہاجرین کی ہے ، گذشتہ ماہ جاری کی گئی اقوام متحدہ کی ایک رپوٹ کے مطابق تارکین وطن میں نصف تعداد شامیوں کی ہے ،تقریبا چھ لاکھ سے زیاہ شام کی عوام جنگ ،بھوک ،بدامنی اور قتل و غارت گیری سے پریشان ہوکر ترک وطن کرچکی ہے ۔شام میں خانہ جنگی بندکرنے ،امن وامان قائم کرنے کے سلسلے میں متعدد اقداما ت کے دعوے کئے جارہے ہیں لیکن زمینی سطح پر سبھی ناکام ہیں ،حال ہی میں جینوا امن مذاکرات سے کچھ توقع تھی لیکن وہ مذاکرات بھی شامی عوام کیلئے کوئی خوشخبری کا سبب نہ بن سکی ،اکتوبر 2015 میں روس نے داعش کے نام پر شام میں بمباری کا سلسلہ شروع کرکے وہاں ایک نیا بحران پیداکردیا ،مساجد ،ہسپتال،تعلیمی ادارے اور بے گناہوں پر حملے کئے گئے ،روس نے صرف ان علاقوں کو نشانہ بنایا جہاں حریت پسند اور عرب سنی مسلمان آباد تھے ۔
شام کے مسئلے پر عالمی رہنماؤں اور اقوام متحدہ کی پالیسی منظر عام پر آگئی ہے ،جنگ بندی کے نام پر امریکہ اور روس کے اتفاق سے بہت سی چیزیں واضح ہوگئی ہے ،مسلک کے نام پر شام کی ایک اور تقسیم کا کھیل اجاگر ہوگیا ہے ، کردوں کی حمایت اور امریکہ کی جانب سے مکمل ہتھیار کی فراہمی اسی کھیل کا حصہ ہے ،ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ایک بیان سے اس کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ امریکہ کردوں کو ہتھیار دے رہا ہے۔ کیوں دے رہا ہے؟ ظاہر ہے، اپنا ملک بنانے کے لیے، کرد بشار کے خلاف نہیں لڑ رہے ہیں، ان کی جنگ ترک سرحد سے ملحقہ شامی علاقوں پر قابض شامی حریت پسندوں سے ہے،گذشتہ ہفتہ کردوں کی دہشت گرد تنظیم نے استنبول اور دیگر علاقوں میں سلسلہ وار تین بم دھماکے کرکے سو سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاتھا، نومبر میں بھی اسی تنظیم نے استنبول میں دھماکے کر کے سو سے زیادہ افراد کو مار ڈالا تھا، کردوں کی اس کھلی دہشت گردی کے باوجود امریکہ نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کردوں کی اس تنظیم پر بمباری روک دے۔سوال یہ ہے کہ امریکہ کی کردوں کے ساتھ ہمدردی کیوں ہے ؟ وہ اسے دہشت گردکیوں نہیں مان رہاہے ؟امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس بیان سے امریکی منشاء کی مکمل تصدیق ہوجاتی ہے جس میں انہوں نے ا مریکی ایوان نمائندگان میں سالانہ وزارتی بجٹ اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’لگ رہا ہے کہ شام کو متحد رکھنے کے لیے وقت تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ اگر لڑائی زیادہ عرصہ طول پکڑتی ہے تو شام ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس کی فوجی معاونت سے بشارالاسد کی فوجیں حلب کا کنٹرول سنبھالتی ہیں تو شام کی سرزمین مزید غیر محفوظ ہو جائے گی‘‘۔
امریکہ کے ساتھ اس کی چھاؤنی یعنی اسرائیل بھی تقسیم شام کا نقشہ بناچکا ہے ،اسرائیل شام کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا خواہشمند ہے، ایک علویوں کا شام، دوسرا کردوں کا،تیسرا دروزیوں کا( علوستان،کردستان ،دروزستان) اس تقسیم کے مطابق 3فیصد علوی شیعہ علوی علاقے میں رہیں گے ،تین فیصد دروز 10 فیصد عیسائیوں کے ساتھ علاحدہ رہیں گے ،اس کے علاوہ 9 فیصد کردوں کا ایک مستقل ملک ہوگا جہاں ان کے ساتھ دس فیصد شیعہ بھی ہوں گے ،اس پوری تقسیم میں صرف 35 فیصد عوام کا ذکر ہے ،بقیہ ان 65 فیصد شامی باشندوں کا کوئی ذکر نہیں ہے جو عرب سنی مسلمان ہیں ، پس پردہ ان کے حق میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ ترکی میں پناہ لے لیں، سعودی عرب میں گھر بنا لیں، اردن چلے جائیں، یورپ جاتے ہوئے سمندر میں ڈوب جائیں، جو چاہیں کریں ،تاہم تقسیم شام میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں رکھا گیاہے ۔
تقسیم شام کا منصوبہ روسی ایجنڈے میں بھی سرفہرست ہے ،صدر پیوتن نے بشار الاسد کو انتباہ بھی کردیا ہے کہ وہ پورے شام پر حکومت کا خواب نہ دیکھیں جس کا واضح مطلب ہے کہ شام کی تقسیم ہوگی اوردوستی کا حق اداکرتے ہوئے مخصوص علاقے میں بشار الاسد کو اقتداردیا جائے گاتاہم روس نے ابھی تک اپنا فارمولا واضح نہیں کیا ہے کہ وہ کس بنیاد پر شام کی تقسیم چاہتاہے ۔
شام باردو کے دہانے پر ہے ،عالمی طاقتیں اپنے مفاد کے مطابق اس کی تقسیم میں مصروف ہیں ،حریت پسندوں اور آزادی کے علمبرداروں کو کچلا جارہاہے ،داعش کے وجود نے ایران ،روس اور امریکہ کا خواب آسانی کے ساتھ شرمندہ تعبیر کردیا ہے ،تجزیہ نگاروں کے مطابق روس اور ایران کو کافی امیدیں داعش سے وابستہ ہیں وہ حریت پسندوں کو میسرے سے گھیر رکھے گی کیوں کہ میمنے کی طرف بشار کی فوج اور روسی و ایرانی فضائیہ ہیں۔
سعودی عرب نے اس پوری جنگ میں کاغذی لڑائی سے آگے بڑھتے ہوئے اپنی جسمانی موجودگی کا احساس کراکر امریکہ، روس اور ایران کے اتحاد کوالجھا کر رکھ دیا ہے، اس کے طیارے ترک اڈوں پر پہنچ چکے ہیں،شام کو بربادی سے بچانے کیلئے عالم اسلام کے دو عظیم حکمراں شاہ سلمان اور طیب اردگان مسلسل کوشاں ہیں۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com