قاسم سید
سیکولر پارٹیوں کی پے درپے شکستوں اور مودی کی لگاتار فتوحات نے بظاہر ان لوگوں کا حوصلہ پست کردیا ہے جو ملک کو فرقہ واریت اور خانہ جنگی سے ہر حال میں بچاناچاہتے ہیں۔اب لڑائی یکطرفہ ہوگئی ہے جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے کی طرز پر پہلے ترغیب پھر ترہیب کے ذریعہ بی جے پی کی قلمرو میں شامل کرنے کے لئے ہر وہ قدم اٹھایا جارہا ہے جہاں کسی بھی طرح کی لکشمن ریکھا کوئی قدروقیمت نہیں رکھتی۔ منافقوں کی فوج میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ ان کے چہروں سے نقاب تو پہلے ہی اٹھ چکا تھا۔ اب انہوں نے شرم وحیا کے تمام کپڑے بھی اتار دئیے ہیں اور ہر طرح کا ناچ دکھانے کے لئے تیار ہیں۔ عیارانہ مزاحمت کے تکلفات بھی بالائے طاق رکھ دئیے ہیں اس سے وہ طبقہ شدید جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہے جس نے اپنا سب کچھ بلکہ تقدیر بھی ایسے منافقوں سے وابستہ کر رکھی تھی جو ان کا ملجا ماویٰ تھے۔ یہ ڈھونگی سیکولر ایسے لوگوں کی وفاداریوں کا صلہ قانون ساز اداروں کی رکنیت‘ کسی بڑے پروجیکٹ کی منظوری یان کے چہیتوں کو کسی کا رپوریشن کا چیئرمین نامزد کرکے دیا کرتے تھے۔ اگران کا ڈوسیئر تیار کیا جائے تو اپنے مریدوں کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔ فہرست بہت طویل ہے۔ بہتر ہے کہ ان کی نام نہاد شرافتوں اور قربانیوں پر پردہ پڑا رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک خطرناک ترین نظریاتی لڑائی کے مرحلہ میں ہے ۔ لگاتار فتوحات سے سرشار ہندوتووادیوں کے مقابلہ میں شکستہ دل، مرعوب نام نہاد سیکولر سٹوں کی منتشر فوج ہے جس نے ہر آزماش میں مایوس کیا۔ بابری مسجد کی مسماری ایسے منافقوں کی ریاکاری و مکاری کا سب سے بڑا ثبوت ہے جس کا سرخیل آخری گنبدگرنے تک پوجا اپاٹھ میں مصروف رہا جس نے پوری قوم سے وعدہ کیا کہ اس مقام پر جلد مسجد کی تعمیر ہوگی مگر ان پر آنکھ بند کرکے ایمان لانے والوں کا بھروسہ پھر بھی نہیں ڈگمگایا اور وہ ان کے قبیلہ کا حصہ بنے رہے۔ شاید مجبوری بھی تھی کہ دوسری طرف جا نہیں سکتے تھے۔ آج بھی بابری مسجد کے ملبہ پر قائم رام مندر سیکولر عناصر کی عیارانہ سیاست کا شرمناک اظہار ہے‘ انہوں نے قدم قدم پر اقلیتوں کو دھوکہ دیا۔ سیکولرازم کے نام پر خون کشید کرتے رہے۔ وہ لٹتے رہے۔ گھروں پر قبضے کرلئے گئے۔ بستیاں خالی کرالی گئیں۔ اپنے ہی ملک میں مہاجر بنادیا۔ گجرات سے مظفر نگر تک ایک ہی داستان ہے صرف کردار الگ ہیں اس لئے جو لوگ گجرات کے زخموں کو ہرا رکھنے اور ہاشم پورہ ومظفرنگر کو بھولنے کی تلقین کرتے ہیں وہ بیمار ذہنیت کے مارے ہیں اور اس مشورے میں ان کی ہزاروں مجبوریاں چھپی ہیں۔
بہار میں جو کچھ ہوا‘جس نام پر ہوا اس تماشہ پر صرف ایسے لوگ حیران زدہ مایوس ہیں جو ان سے کسی خیر کی توقع کرتےتھے اور انہیں سیکولرازم کے تئیں مخلص سمجھتے تھے مگر جو سیاست کی نیرنگیوں اور نام نہاد سیکولرسٹوں کی منافقانہ روش کی تاریخ سے آگاہ تھے انہیں اس پر تعجب تھا کہ آخر دو سال تک رفاقت کا رشتہ کیسے باقی رہا۔ 6 سال میں چھ مرتبہ وزارت اعلی کا حلف لینے والے نتیش کمار ہیں۔ سادہ لوح کنبہ مستقبل کا وزیراعظم دیکھ رہاتھا جو مودی کے طوفان کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا تھا۔ان کی بار بار توبہ کو قبول کرلیا گیا تھا۔ کون نہیں جانتا تھا کہ گودھرا سانحہ کے وقت وہی ریلوے کے وزیر تھے آخر اس واقعہ کی غیر جاندارانہ انکوائری کا ذمہ وزارت ریلوے کا تھا۔ واجپئی کے دور حکومت میں این ڈی اے کا حصہ رہے 17 سال تک بی جے پی سے سیاسی رشتہ ازدواج قائم رہا۔ آر جے ڈی کے ساتھ سیاسی حلالہ کرکے پھر این ڈی اے سے سیاسی شادی کرلی۔ ہرجائی پن کر سیکولر عناصر کی رگ رگ میں موجود ہے صرف نتیش کمار ہی کیوں ہندوستانی سیاست کا کوئی بھی بڑا نام لے لیجئےجو سیکولر فورسیز کا حصہ رہے مگر جب بھی قومی مفاد نے پکارا ساری زنجیریں توڑ کر فرقہ پرست کہی جانے والی طاقتوں کے گلے کا ہار بن گئے ۔ جنتاپارٹی میں جن سنگھ کو کس نے شریک کیا۔ جنتادل کی وی پی سرکار نے لیفٹ کے ساتھ بی جے پی کی حمایت نہیں لی‘جنتادل نے بی جے سے انتخابی مفاہمت کرکے اسے سیاسی طاقت نہیں دی۔ ان باتوں کو بار بار دہراکر خود کو شرمندہ کرنا پڑتا ہے ہم نے ہمیشہ ایسے لوگوں پر داؤ لگایا جو آزمائشوں کے وقت ساتھ کھڑے نظرنہیں آئے۔ 20 کروڑ کی آبادی میں مشکل سے دو تین سو افراد ہی سیکولرازم کے فواکہات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ سیاسی پارٹیوں کی غیر مشروط غلامی اور وفاداری کے عہد نے اس حال تک پہنچادیا کہ صرف ووٹ ہی بے وقعت نہیں ہوا وہ ساری قیادت ہی غیر موثر ،بے قیمت ہوئی جس نے ہر قدم پر عہدوفاداری نبھایا اور اس کی خاطر رسوائیاں وبدنامیاں بھی مول لیں۔ اب حالت یہ ہے کہ سیکولر فورسیز ایک ایک کرکے ہتھیار ڈالتی جارہی ہیں یا بزور طاقت انہیں گھیر کر لایا جارہا ہے۔ اس وقت انیس ریاستیں بی جے پی کی سلطنت میں شامل ہوگئی ہیں۔ نتیش کمار نے اقلیتوں کو بہت مایوس کیا ہے کیونکہ مہاگٹھ بندھن کو اقتدار میں لانے کے لئے بہت محنت کی تھی ۔حالانکہ اس وقت بھی لالو یادو نے امارت شرعیہ میں اپنے سفیر کو بھیج کر یہ ہدایت دی تھی کہ براہ کرم ہماری حمایت کا کھل کر اعلان نہ کریں۔ خاموشی کے ساتھ مہم چلائیں ورنہ اکثریتی ووٹ بدک جائے گایعنی بندوق کی نالی پر ووٹ لیا اور چپ رہنے کا فرمان بھی۔ اترپردیش میں بھی یہی صورت حال تھی کہ مسلم ووٹ کے بھاؤ گر گئے تھے۔ بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کی کامیابی کہی جائے گی کہ اس نے مسلم ووٹ کو بے وقعت وبے اثر کردیا۔ یہ ثابت کردیا کہ ان کی حمایت لئے بغیر بھی سرکار بنائی جاسکتی ہے اور چلائی بھی جاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں بھی اب صرف دور سے سلام کرنا ہی بہتر سمجھتی ہیں۔ حال ہی میں راہل گاندھی نے پارٹی میٹنگ کے دوران تاکید کی تھی کہ ہم مسلم ایشوز احتیاط کے ساتھ اٹھائیں تاکہ منہ بھرائی کا الزام نہ لگ سکے۔ ظاہر ہے جب مسلم ووٹ بینک دیوالیہ ہوجائے تو اس کے کرتا دھرتاؤں کی بولی کیسے لگ سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ووٹ کے خریداروں کی کمی نے اس کے کسٹوڈین کا مارکیٹ بھی گرادیا ہے اس لئے وہ خاموش ہیں کچھ بولنے کے لئے ہے نہیں ۔ نتیش کمار کے تجربہ نے ان کی سیاسی بصیرت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب منافقوں کی فوج میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے ہندوتوادی ان کا ’شدھی کرن‘ کرا رہے ہیں۔نظریاتی جنگ یکطرفہ ہوگئی ہے صرف سول سوسائٹی اب تک محاذ پر ڈٹی ہے جس کو دیش بھکتی بنام دیش دروہ کے نام گھیرا جارہا ہے۔ اس لئے اسے نئی کمک نہیں مل رہی ہے۔ سیکولر پارٹیاں سپر ڈال چکی ہیں جو باقی ہیں ان کی نیت بھی ڈانواڈول ہے۔ اقلیتوں کو رام مندر‘ گائے‘ گیتا‘ گنگا‘ وندے ماترم جیسے تنازعات میں الجھاکر ان کی توانائی کو ضائع کیاجارہا ہے تو پھر راستہ کیا ہے۔ اقلیتیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی بھی ہیں‘ مسلسل نشانے پر ہیں۔ گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی کے مناظروائرل کرکے مسلمانوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جارہا ہے۔ اسلام کو صوفی اور ریڈیکل اسلام میں بانٹ کر انقلابی مسلمانوں کو سبق سکھانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ کشمیر کے بگڑتے حالات کا اثر لازمی طور پر ملک میںبسے مسلمانوں پر ہوتا نظرآرہا ہے۔ نوجوانوں کو مسلمان ہونے کی بنا پر نوکری دینے سے منع کرنے کے واقعات بھی میڈیا کے ذریعہ سامنےآرہے ہیں۔ میڈیا میں صفر نمائندگی کے ساتھ اپنا موقف رکھنے میں ناکام ہیں جو تصویر بنائی جارہی ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ بظاہر تمام راستے بند ہیں۔ حوصلے دینے والے بھی زبان پر تالے لگائے ہوتے ہیں۔ ان کی پراسرار خاموشی نے سراسیمگی اور بے چینی میں اضافہ کردیا ہے۔ انہیں کہیں سے رہنمائی حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی بے چینی کاکوئی علاج بتانے والا نہیں ہے۔ مسلم قیادت نے موجودہ سرکار سے ڈائیلاگ کے بھی تمام راستے بند کررہے ہیں ان کی ضد ہے کہ سرکار بلائے گی تبھی جائیں گے مگر ان کے پاس اس سوال کاکوئی جواب نہیں کہ سرکار کیوں بلائے گی۔ ان کی اکثریت اس خوش فہمی میں مبتلا ہےکہ صرف دو سال اور باقی ہیں اس کے بعد تواپنی پسند کی سرکار آجائے گی۔ جس کے ہاں جانے کے بہانے تلاش کئےجاتے ہیں اور بن بلائے خودوقت لے کر پہنچنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کی جاتی ہے ان کا یہ تجزیہ کس بنیاد پر ہے اس کو وہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ بہرحال ملک کا مسلمان شدید اضطراب میں مبتلا ہے تو پھر راستہ کیا ہے یہ سوال ہر شخص کے ذہن میں گونج رہاہے۔
اس کا جواب بہت آسان ہے مگر عمل مشکل ہے کیونکہ اس راستہ پر جانا نہیں چاہتے۔ نہ جانے کس کی کیا مجبوریاں ہیں۔ یہ حالات پہلی بار پیدا نہیں ہوئے ہیں ماضی میں بھی شدید آزمائشیں آئی ہیں جب کانگریس کے دور میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور لوگوں میں مایوسی پیدا ہوگئی تھی۔ ایسے وقت میں مسلم قیادت نے اجتماعیت کے ساتھ پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک گیر دورہ کیا تھا۔ انہیں حوصلہ دیا تھا۔ شاید ہی کوئی مسلم رہنما ہوگا جو اس وفد کا حصہ نہیں تھا۔ موجودہ وقت پھر اس کا تقاضہ کررہاہے کہ پارٹی ومسلکی مفادات سے بلند ہوکر ہماری معزز مخلص قیادت ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ملک گیر دورہ کرے۔ عوام سے رابطہ کرے۔ ان کے ٹوٹے حوصلوں کو نئی زندگی دے۔ نوجوانوں کی بے چینی کو راستہ دے ورنہ یہ لاوا پھوٹ کر پورے سماج کو متاثر کردے گا۔ ہمارےبیشتر رہنماؤں کا عوام سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے۔ وہ ہوا میں معلق ہیں۔ نظریاتی جنگ کے نازک موڑ پر ہندوستان جیسے ملک کو عوام سے دور جاکر ڈرائنگ روم اور ایرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر نہیں چلایا جاسکتا ‘عوام نےبہت قربانیاں دی ہیں‘ مذہبی تشخص کے ساتھ سیاسی تحفظات کی جمہوری لڑائی کے لئے باہر نکلنا پڑے گا۔ دوسری طرف آسان راستہ تو کھلا ہوا ہے کانفرنسیں کرئیے‘ قرار دادیں منظور کریئے، اپنے مریدوں کو بلائیے، طاقت کا مظاہرہ کرئیے اور پھر گھر بیٹھ جائیے۔ رہے نام اللہ کا۔