مشاری الذایدی
شام میں گومگو کی کیفیت کے حوالے سے لاچارگی کے سبب اقوام متحدہ میں بین الاقوامی منصوبے پیش کرنے والی بعض شخصیات نے تمناؤں کی زبان اور رجائیت کا سہارا لینا شروع کردیا۔اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ شام میں جنگ بندی مضبوط اور اپنی جگہ پر جمی ہوئی ہے… انہوں نے یہ بات ظاہری مسکراہٹ کے ساتھ کہی۔شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی یورپی ایلچی اسٹیفن ڈی میستورا تھوڑے محتاط اور درشت نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کی کامیابی کو یقینی بنانے والے دو ممالک روس اور امریکا ہیں۔
شامی اپوزیشن جماعتوں کی تصدیق کے مطابق زمینی حقائق یہ ہیں کہ فوجی حملے جاری ہیں۔ زمینی طور پر بشار الاسد کی فوج اور حزب اللہ کی ملیشیاؤں کی طرف سے جب کہ فضائی طور پر روسی طیاروں اور ان کے میزائلوں کے ذریعے۔
امریکا میں وہائٹ ہاؤس اور وزارت خارجہ کے ترجمانوں نے بشار الاسد، روس اور شیعہ ملیشیاؤں کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کہا کہ ہم پر لازم ہے کہ تھوڑا توقف کریں۔ جان کیری نے بتایا کہ وہ اپنے روسی ہم منصب سرگئی لافرووف کے ساتھ اس بات پر متفق ہیں کہ خلاف ورزیوں کو اعلانیہ طور پر زیر بحث نہ لایا جائے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ بندی کے اگلے روز سے ہی اس کے دم توڑ جانے کے اعلان کو خوف ہے۔بالخصوص اوباما انتظامیہ کو۔ اور حل یہ نکالا گیا کہ جنگ بندی کو “زندہ رکھا جائے” خواہ مصنوعی سانسوں کے ہی ذریعے..اور انسانی وجوہات کو اس کا بہانہ بنایا جائے۔
شامی جنگ بندی کے حوالے سے امریکی سراب میں اس نئے خبط کی اصل وجہ.. عرب مبصرین کی نظر میں امریکی پالیسی کا “تصوراتی فقر” اور دل شکستگی ہے۔ دیگر مبصرین کے نزدیک اس کی وجہ اوباما انتظامیہ کی طویل المدت اور خفیہ امریکی ساز باز ہے جس کا مقصد نسلی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر شام کی تقسیم ہے… بالخصوص اس حوالے سے مسلسل امریکی شاروں کے بعد جن میں سب سے آخر میں جان کیری کی جانب سے سینیٹ میں دیا گیا بیان ہے۔ شام کا پر آفت مسئلہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے خاص طور پر روسی مداخلت کے بعد۔
امریکا کے پلان (بی) کی تشریح میں فرق ہے۔ ایک فریق کے نزدیک اس کا مطلب امریکا اور روس صریح تقسیم یا بہترین حالات میں فیڈریشن کی طرف جائیں گے (اس پر کسی دوسرے کالم میں بات ہو گی)… جب کہ ایک دوسرے فریق کے مطابق یہ منصوبہ شام کے حل کے لیے سعودی عرب اور ترکی کے موقف سے قریب تر ہونے کے لیے ہے بالخصوص محفوظ علاقہ اور زمینی مداخلت۔
امریکی چینل سی این این کے مطابق نیٹو افواج کے سابق کمانڈر ریٹائرڈ ایڈمرل جیمز اسٹیورڈس کا کہنا ہے کہ “میں سمجھتا ہوں کہ پلان (بی) روس کے بغیر ایک مہم ہو گی.. نو فلائی زون کے قیام سے ہم ایک اعتدال پسند اپوزیشن تیار کر سکیں گے”۔ یہاں اردن کے کردار سے متعلق بات بھی پوری ہوگئی۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ فریبِ خیال اور حقیقت میں فرق کیا جانا چاہیے۔ کیا بشار اور اس کا نیٹ ورک جنگ کی چٹان سے اتر کر سیاست کی ہموار زمین پر آ سکتے ہیں؟ کیا خمینی کا ایران اپنے تصور کے خلاف شام کو قبول کرسکتا ہے؟ کیا روس محض نئے شام کی ولادت ہوتے ہی آسانی سے شامی سرزمین سے لوٹ جائے گا؟
سیاسی حل ہی زیادہ بہتر اور پرامن ہے اور ہر عاقل یہ ہی چاہتا ہے.. تاہم حقیقت اور تصور کو ملا دینا یہ ایک غلطی بلکہ بہت بڑا قصور ہے… کس چیز پر مذاکرات ممکن ہیں اور کس چیز کے لیے لڑنا چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ ’’الشرق الاوسط۔ العربیہ اردو‘‘