دوٹوک ….. قاسم سید
سیاست دانوں اور ملک کے سسٹم کواپنی انگلیوں پر نچانے اور گھٹنوں پر جھکاکر رکھنے والے ایک اور زانی بابا کے پاپوں کا گھڑا بھرگیا اور وہ اپنے اصلی ٹھکانے پر پہنچ گیا لیکن جاتے جاتے کئی خوفناک سوال سماج‘میڈیا اور جمہوری سیاست کی سازشوں سے متعلق چھوڑگیا۔ جب وہ باہر تھااس کے ابروچشم پراپنی نقل وحرکت طے کرتی تھیں اب اندر چلاگیا تواپنادامن چھڑانے خود کو پاک بے داغ بتانے میں لگی ہوئی ہیں۔
یہ سوچ کر بھی شرم آتی ہے کہ ملک میں ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ ایک بابا کو سنبھالنے اوراس کے بھکتوں پر کنٹرول کرنے کے لئے فوج کی مدد لینی پڑی ۔ ہریانہ کا پرتشدد منظر نامہ ڈرائونا اور خوفزدہ کرنے والا ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس ملک کے اتحاد اور سیکورٹی کو دلتوں ‘آدیباسیوں اور اقلیتی فرقہ سے خطرہ نہیں۔ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں سسٹم کی طرف سے اجنبیت ‘لاتعلقی اور تعصب کاسامنا کرنا پڑتا ہے وہ کہیں نکسلی تو کہیں دہشت گرد سمجھائے جاتے ہیں اوران کی حب الوطنی آزادی کے کم وبیش 70کا سال گذرنے کے باوجود مشتبہ ہے ۔ دوسری طرف اکثریتی فرقہ کا جنونی گروہ جو خود کو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھتا ہے اور کئی مرتبہ اس کا ثبوت بھی دے چکا ہے۔ مگر اسے ان کارناموں کے لے کارسیوک ‘بھکت‘رکشک اورسوئم سیوک جیسے مہذب القاب سے نوازاجاتا ہے اور ان کو حکومتوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ مثال کے طور پر 1992میں بابری مسجد مسماری کے موقع پر ریاستی حکومت کے مسجد کے تحفظ سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر حلف نامہ کی دھجیاں اڑائی گئیں جبکہ پردھان سیوک مسجد گرنے اور’پرتگیا‘ پوری ہونے تک آنکھیں موند کر پوجاکرتا رہا اور بابری مسجد کی ایک ایک اینٹ گرانے کے بعد ان قانون شکن فسادی عناصر کو ’کارسیوک‘ کا نام دیاگیا۔ عزت کے ساتھ ٹرینوں اور بسوں میں سوار کرکے منزل تک پہنچایاگیا اگر اس وقت غنڈہ گردی کو دھارمک رنگ نہ دیاگیاہوتاتو آگے ایسی جرأت کوئی نہ کرتا پھر 2000 میں گجرات فسادات کے دوران گودھرا کاردعمل ایک ماہ تک قہر ڈھاتارہا ۔ ابال کو باہر نکالنے کے لئے سرکاری سرپرستی حاصل رہی ‘ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔
سچی بات یہ ہے کہ ملک کو اصل خطرہ اکثریتی فرقہ کے ایسے منظم اور غیر منظم گروہوں سے ہے جو آستھا کے نام پر انتظامیہ وقانون سے ٹکرانے کو تیار رہتے ہیں۔ عدلیہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ انار کی پھیلاتے ہیں۔ ان کےآگے حکومت لاچار‘بے بس اور نتمستک نظرآتی ہے۔ گولی چلانے میں تذبذب سے کام لیتی ہے۔ عدلیہ کی پھٹکار کے بعد حرکت میں آتی ہے۔ پتھر بازوں کا جواب گولی کے فلسفہ پر ایمان رکھنے والے ایسے لمحات میں فیصلہ نہیں لے پاتے‘نہ فسادیوں اور قانون شکن لوگوں پرپلیٹ گن ومرچی بم استعمال کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے کیونکہ یہ غنڈے فسادی نہیں بلکہ بھکت ہیں ۔ یہ ذہنیت اجودھیا اور گجرات میں ہی نہیں ہر اس جگہ اپنی فسطائی فکر کا مظاہرہ کرتی ہے جہاں اسے ہمدردی وسرکاری سرپرستی ملتی ہے۔ ہریانہ میں جو کچھ ہوا یقین نہیں آتا کہ اپنے شہریوں نے ایسا کیا ہوگا ۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی غیر ملکی فوج شہروں کو ویران اور اجاڑ کر گئی۔ ہریانہ جیسی خوش حال ریاست نے پہلی بار یہ نظاہرہ نہیں دیکھا ۔ جاٹ آندولن کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔ پھرسنت رامپال کی گرفتاری کے موقع پرخطرناک ہتھیاروں کی برآمدگی کے ساتھ خون ریز معرکہ ہوا ‘قیمتی جانیں گئیں مگر وہ بھکتوں کی دیوانگی سمجھ کر نظرانداز کردیاگیا ۔ یہ کارروائیاں جتنی خوفناک تھیں وہ سماج اور سسٹم کو ہلانے کے لئے کافی تھیں ۔لیکن ان سے کوئی سبق نہیں لیاگیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ان کی پرورش کون کرتا ہے۔ انہیں دودھ کون پلاتا ہے۔ یہ بابا سنت سوامی اتنابڑا سامراجیہ کیسے بنالیتے ہیں۔ یہ اپنے پروچن میں بھکتوں کو کیا گٹھی پلاتے ہیں کہ ملک کی املاک کو آگ لگانے ‘ٹرینیں پھونک دینے ‘سیکوریٹی دستوں سے ٹکرانے کا جنون پیدا ہوجاتا ہے۔ زانی بابائوں کو بچانے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر اتر آتے ہیں۔ یہ آسا رام باپو‘سنت رام پال ‘سوامی نیتا نند اور گرومیت رام رحیم جیسے زانیوں اور غنڈوں کو پالتاکون ہے۔ تحفظ کون فراہم کرتا ہے۔ ان سے ملک کے غداروں‘باغیوں اور دہشت گردوں جیسا سلوک کیوں نہیں ہوتا۔ ان کے لئے پھانسی کا مطالبہ کیوں نہیں ہوتا۔ امن وامان کو یرغمال بنانے پر سرکار کو گھٹنوں پر جھکانے والے اتنے شیر کیسے ہوجاتے ہیں کہ متبادل ریاست قائم کرلیں۔ان بابائوں کے حضور ماتھا ٹیکنے‘ حاضری دینے اور ووٹ دلانے کی بھیک مانگنے والے سیاست دانوں کو ایسے سوالات کا جواب دیناچاہئے ۔ کیا یہ منظم دہشت گردوں کاٹولہ نہیں‘ کیا ان کے ٹھکانوں سے غیر قانونی آتشیں ہتھیاروں کی برآمدگی اور پرائیویٹ آرمی و خودکش دستے بنانے کی خبریں کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں نہیں بجاتیں۔ چند گھنٹوں میں کروڑوں کی املاک پھونک دینے والے دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک نہیں؟ یہ وزیراعظم کی وارننگ سے خوف زدہ کیوں نہیں ہوتے۔ آستھا کے نام پر تشدد اب دہشت گردی کےراستے پر چلاگیا ہے تو آنکھیں بند کرلینی چاہئے۔ کیا یہ دیش دروہ نہیں۔
جب پاکستان کو نیست ونابود کرنے اور چین کو سبق سکھانے کی بات کی جاتی ہے تو اس پر کمزو شہری کا سینہ بھی پھول کر 56انچ کا ہوجاتا ہے کہ ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ مگر ہریانہ جیسے واقعات میں ایک بابا اوراس کے بھکتوں کو سنبھالنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ فوج کو اتارنا پڑتا ہے ‘سیکورٹی اہلکار بابا کے بھکتوں کے سامنے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں تو کلیجہ منہ کوآجاتا ہے کہ کیا یہ جوش صرف بے قصوروں کے لئے ہے۔ نہتوں کو انکائونٹر میں مارنے کا فن ہی جانتے ہیں۔ ان کے بازو کی مچھلیاں مذہب اور ذات کو دیکھ کر ہی پھڑپھڑاتی ہیں اور بابائوں کے بھکتوں کی دہشت گردانہ حرکتوں پر سلامی دیتی ہیں۔ جوانوں کو پتھر بازوں سے بچانے کے لئے پتھر باز کوبونٹ پر باندھنے کا میجر گوگوئی کا کامیاب فارمولہ آزمانے کے بارے میں کسی کا ذہن کام نہیںکرتا۔ کیاپتھربازوں کے درمیان بھی تفریق کی جانی چاہئے۔بے شک وہ دہشت گردوں کو بھگانے کے لئے پتھر بازی کرتے ہیں لیکن ہریانہ میں پتھر بازی کے واقعات پر لیپاپوتی کیوں۔
انصاف کا دوہرامعیار سسٹم کو ناکام اور مفلوج بنارہا ہے۔ عدلیہ کاچراغ روشن ہے اور امید کا اکلوتا سہارا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ گروہ جو قانون وعدلیہ کو پائوں کی جوتی پر رکھتا ہے ملک کے اتحاد اورسیکورٹی کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ سماج ‘میڈیااورسیاست دانوں نے منافقت چھوڑ کر ان گروہوں پر شکنجہ نہیں کسا تو یہ ملک کو تہس نہس کردیں گے کیونکہ یہ قانون سے ڈرتے نہیں ہیں۔ اقلیتوں کو عدلیہ کا حکم ماننے کی تلقین کرنے والوں کو اس پر غور کرناہوگا۔ سوال کسی فرقہ یا گروہ کا نہیں قانون شکن فکر کی پرورش کرنےو الوں کی بیخ کنی کا ہے معاملہ صرف گرمیت رام رحیم پر ختم نہیں ہوتاایسے بابائوں کا پورے ملک میں جال بچھا ہوا ہے۔ اقلیتوں نے ہمیشہ قانون کا احترام کیا۔ بابری مسجد کی مسماری یا شرعی امورمیں مداخلت پرنہ بدامنی پھیلائی اور نہ ہی قانون ہاتھ میں لیا صرف جمہوری طور پر احتجاج کیا۔ ایک بھی واقعہ نہیں مل سکتا۔وزیراعظم نے سچ کہا ہے کہ آستھا کے نام پر خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی تشدد کو ملک اور سرکار برداشت نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ہمارے ملک کا مزاج نہیں ہےجواس مزاج کو بدل رہے ہیں بدلنا چاہتے ہیں ان سے دو دوہاتھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ورنہ یہ چھوٹے چھوٹے منظم گروہ ملک کونوچ نوچ کر کھاجائیں گے یقینانیو انڈیا یا نیا بھارت اس قانون شکنی کامتحمل نہیں ہوسکے گا۔
editorurk@gmail.com