آنچل کو پرچم بنانے والی آج کی عورت

ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان
عالم یوم خواتین8مارچ کے موقع پر ملت ٹائمز کی خاص پیشکش

’خواتین کا دن‘ سن کر بڑا عجیب لگتا ہے۔ کیا ہر دن صرف مردوں کا ہے، خواتین کا نہیں؟ مردوں کے اس غلبہ والے سماج میں عورتوں کا ایک دن مخصوص کرکے غالباًیہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے قدرت کی یہ تخلیق ابھی مس خام ہے اسے کندن بنانے کیلئے نہ جانے کتنی بھٹیوں میں جھونکا جائے گا ‘ نکھار لایاجائے گا تب اسے مردوں کے مساوی ہونے کا ’شرف‘ حاصل ہوسکتا ہے ۔کیا طرفہ تماشہ ہے !
لیکن سماج کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دور نے کروٹ لے لی ہے آج کی عورت مردوں سے کسی معاملے میں پیچھے نہیں ہے ایک وقت تھا جب عورت کو ’ابلا‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا اور جاہل دانشور اسے ’جہنم کا دروازہ‘ اور متکبر مرد ’پیروں کی جوتی‘ کہہ کر رد کیا کرتے تھے لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔آج عورت نہ تو ابلا ہے اور نہ ہی اسے پیروں کی جوتی کہا جا سکتا ہے ۔تمام رکاوٹوں ‘تعصب اور امتیاز کے باوجود آج عورتیں سیاست، انتظامیہ، معاشرت ، موسیقی، کھیل کود، فلم، ادب، تعلیم، سائنس، خلا تمام شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ہمت اور استقلال کے ساتھ سنگ الزام سہتے ہوئے تیر دشنام کے سایہ میں عورتیں آج کارزارحیات میں اپنے آنچل کو پرچم کی طرح استعمال کررہی ہیں ۔آرمی، ایئر فورس، پولیس، آئی ٹی، انجینئرنگ، میڈیکل جیسے شعبے میں نت نئی نذیر قائم کر رہی ہیں۔
صدیوں سے سماج نے عورت کو آدرشوں کی روایتی گھٹی پلا کر اس کے دماغ کو کند کرنے کا کام کیا، مگر عورت آج کلپنا چاؤلہ، سنیتا ولیمز، پی ٹی اوشا، کرن بیدی، کنچن چودھری بھٹاچاریہ، وندنا شیوا، چندا کوچر، فلائنگ افسر سشما مکھوپادھیائے، کیپٹن درگا بنرجی، لیفٹینٹنٹ جنرل پنیتا اروڑہ، سائنا نہوال، نروپما راؤ، کرشنا پونیا،‘اروم شرمیلا، میگھا پاٹیکر، ارونا رائے، جیسی طاقت بن کر معاشرے کو نئی راہ دکھا رہی ہے اور عالمی سطح پر نام روشن کر رہی ہیں۔ عورت کی تعلیم و تربیت اور شخصیت کی ترقی کے افق روزبروز کھلتے جا رہے ہیں، جس سے تمام نئے نئے شعبہ کی توسیع ہو رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں، خواتین نے زندگی کے ہر شعبہ میں بے مثال ترقی کی ہے۔ماضی کی تین دہائیوں میں، خواتین نے کارپوریٹ دنیا میں بھی اہم کامیابی حاصل کی ہے، سماجی اخلاقیات کی پابندیوں سے گزرتے ہوئے گھر اور کام کی جگہ پر خود کو کامیاب کاروباری اور منتظم کے طور پر ثابت کیا ہے۔ ہندستان میں بھی خواتین کاروباری طبقے نے نئے کاروباری اداروں کو شروع کرنے اور انہیں کامیابی سے چلانے میں بہتر کی کئی مثالیں پیش کی ہیں ۔
ہندستان میں کامیاب خواتین انٹرپرینئرس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جیسے رادھا بھاٹیا (چیئرپرسن ‘ برڈ گروپ)، ملکہ شری نواسن (چیئرمین اور سی ای او، ٹریکٹرس اینڈ فارم اکیومپنٹ)، پریہ پال (چیئرپرسن ‘ اے پی جی پارک ہوٹل)، شہنازحسین (سی ای او، شہناز ہربلس انکارپوریٹ)، ایکتا کپور (جوائنٹ منیجنگ ڈائریکٹر ، بالاجی ٹیلی فلمس )اور کثیر القومی کمپنیوں میں سب سے زیادہ مقام حاصل کرنے والی خواتین جیسے اندرا کرشنا مورتی (چیئرپرسن اور چیف ایگزیکٹو آفیسر پیپسی)، نینالال قدوائی (گروپ جنرل منیجر اور کنٹری ہیڈ‘ ایچ ایس بی سی انڈیا)، چندراکوچر (سی ای او اور منیجنگ ڈائریکٹر آئی سی آئی سی بینک) یہ وہ نام ہیں جنہوں نے عورت کے ہونے کے باوجود قیادت و صلاحیت کی بے نظیر مثال قائم کی ہے ۔
کبھی ارسطو نے کہا تھاکہ ’ عورتیں بعض خصوصیات کے فقدان کی وجہ سے عورتیں ہیں‘ مگر موجودہ نقطہ نظر میں ایسے تمام سطحی اصول و ضوابط کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا اور عورت اپنی صلاحیت کے دم پر اپنا آپ ثابت کررہی ہے آج اگر عورت آگے بڑھنا چاہتی ہے تو اس کے قدرتی حقوق کی پامالی کیوں کی جارہی ہے ۔آج بھی معاشرے میں بیٹی کے پیدا ہونے پر ناک بھوں چڑھایا جاتا ہے، چند والدین اب بھی بیٹے بیٹیوں میں کوئی فرق سمجھتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیا صرف اسے یہ احساس کرنے کیلئے کہ وہ عورت ہے وہی عورت جسے ابلا سے لے کر جہنم کا دروازہ تک بتایا گیا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی پاک دامانی کو نعوذباللہ مشکوک کیاگیا۔آج بھی کوچہ و بازار میں ہونے والے عورتوں کی بے حرمتی کے سیکڑوں واقعات عورتوں کے ساتھ تعصب ‘امتیاز‘بے حرمتی کی کھلی داستان سناتے ہیں ایسے میں عورتو ں کا ایک دن مناکر ہم کیا بتاناچاہتے ہیں ؟جب تک سماج اور معاشرہ اس ڈوہرے کردار سے اوپر نہیں اٹھے گا، اس وقت تک عورت کی آزادی ادھوری ہے۔ صحیح معنوں میں خواتین کے عالمی دن کامقصد اسی وقت پورا ہوگا جب خواتین کو جسمانی، ذہنی، نظریاتی طور پر مکمل آزادی ملے گی، جہاں انہیں کوئی پریشان نہیں کرے گا، جہاں جنین قتل نہیں کیا جائے گا، جہاں عصمت دری نہیں کی جائے گی، جہاں جہیز کے لالچ میں عورت کو سرعام زندہ نہیں جلایا جائے گا، جہاں اسے فروخت نہیں جائے گا۔ معاشرے کے ہر اہم فیصلہ میں ان کے نقطہ نظر کو سمجھا جائے گا اوراس پر عمل بھی کیا جائے گا۔ ضرورت معاشرے میں وہ جذبہ پیدا کرنے کی ہے جہاں سر اٹھا کر ہر عورت اپنے عورت ہونے پر فخر کرے، نہ کہ توبہ کہ کاش میں لڑکا ہوتی !!
(مضمون نگار کولکاتاہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وکیل ہیں)

SHARE