نہیں اقبالؔ مایوس

قاسم سید
کیا حالات کے شدید دباؤ نے ہندوستانی مسلمانوں میں مزاحمت ‘ مدافعت اور احتجاج کی قوت کو ہوادی ہے۔ کیا ڈر اور خوف کی انتہا نے ری ایکشن کے طور پر ان کےاندر پھر سے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے اور سڑکوں پر نکل کر جمہوری ذرائع کے استعمال مافی الضمیر ادا کرنے کا حوصلہ پیدا کررہا ہے‘ کیا وہ مختلف بہانوں سے پیدا کئے جانے والے ڈر سے آزاد ہو رہے ہیں۔ کیامرغیوں کی سی بے بسی اور کڑکڑانے کی حدوں سے آگے نکل رہے ہیں۔ کیا ان کے سیل جذبات کو کہیں کنارہ ملنے والا ہے۔ کیا حکمرانوں تک ان کے بدلتے تیوروں کی کھنک پہنچ رہی ہے اور کیا ہماری معزز قیادت اسے کوئی مشتعل رخ دینے اور اس تبدیلی کو جائز راستے پر لگانے کے لئے کوئی روڈ میپ تیار کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
دراصل روہنگیا میں دوسری جنگ عظیم کے بعد بدترین نسل کشی کے واقعات مناظر نے جہاں عالم انسانیت کا ضمیر جھنجھوڑ دیا۔ ہندوستانی مسلمان خصوصاً نوجوانوں میں بیداری کی نئی لہر محسوس کی جارہی ہے ۔ اب تک حالات کے یک رخا پن نے ان کے مزاج میں جھنجھلاہٹ‘ غصہ اور تلملاہٹ پید ا کردی تھی وہ اس سے آزاد ہوناچاہتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کو ان کی پروانہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ مذہبی جماعتیں اپنے اپنے حلقہ ارادت میں مست ہیں۔ حالانکہ وہاں بھی اضطراب بدرجہ اتم موجود ہے لیکن مصلحتوں اور عافیت کی زنجیروں نےباندھ رکھا ہے ۔ روہنگیا نے ان باندھوں کو توڑ دیا۔ نوجوانوں کوغم وغصہ باہر نکالنے کی راہ مل گئی جو ملک کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں اس میں فیصد کے اعتبار سے مسلم نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہےان کے لئے کسی کے پاس کوئی ایجنڈہ نہیں۔ انہیں مصروف رکھنے‘ ہدف کے حصول کے لئے سرگرم رکھنے کی روایتیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ شاید مسئلہ فلسطینیوں کے ساتھ جو جذباتی وابستگی اور لگاؤ دیکھاگیا تھا دہائیوں کے بعد ایسے مناظر پھر دیکھنے میں آئے ہیں۔ پورے ملک میں جس طرح کا جوش وجذبہ اور موجوں کا تلاطم ہے وہ امیدیں جگاتا ہے۔ مایوسی کے اندھیروں میں حوصلوں کے چراغ جلاتا ہے۔ اقبال کو اپنی کشت ویراں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ مٹی میں نمی ہو تو اس کی زرخیزی اپنے جلوے بکھیرتی ہے بس کوئی صحیح طریقہ سے ہل چلانے اور بیج ڈالنے والا چاہئے۔
گرچہ یاران مکتب نے اس معاملہ میں بھی اختلافات کی راہیں نکال لیں اور ایک دوسرے کو کوسنے لعنت ملامت کرنے کا جواز فراہم کرلیا کسی کو یہ شکوہ ہے کہ مشرق وسطی کیوں خاموش ہے ہم تو اس کے لئے جان ودل کا نذرانہ ہتھیلی پر لئے رہتے ہیں۔ آخر ایسی کونسی مجبوریاں ہیں کہ ایک کلمہ احتجاج تک زبان سے نہیں نکلا۔ اپنے بھائیوں اور پڑوسیوں پر راشن پانی لے کر چڑھ جانے میں لمحہ بھر تاخیر نہ کرنے والے ایسی انسانیت سوز حرکتوں اور المیہ پر کیوں خاموش ہیں۔ جبکہ ان کے امیر نے بھی برما کو کھری کھوٹی سنادیں تو جواب کے طور پر کہا جاتا ہے کہ جو ملک اپنے پڑوسی شام کے لئے فوج نہ بھیج سکےگا وہ برما کے لئےکیسے بھیج سکتاہے۔نئے اور پرانے خلیفۃ المسلمین کے وفادار ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں کوئی کسر چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں۔ سوشل میڈیا کے مجاہدین اورفیس بکی دانشوروں کی طرف سے آگ میں خوب گھی ڈالا جارہا ہے۔ ذہنی عیاشی کے عادی اوراپنے علاوہ ہر کسی پر طعن وتشنیع کرنے والے اس کا رخیر میں لگے ہیں لیکن عام انسان کو ایسی لاف زنی سے کوئی سروکار نہیں۔ اسے روہنگیا کے خانماں برباد‘ لہو لہو انسانوں کے ساتھ بری فوج کے وحشیانہ سلوک اور امن نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کے بے رحمانہ رویہ نے بے چین کردیا ہے۔ وہ نہ سوپارہا ہے نہ ٹھیک سے کوئی کام کر پارہا ہے۔ حقیقی اورفرضی ویڈیو ز اس کی روح پر ہتھوڑے چلا رہے ہیں اور جو اس کے بس میں ہے وہ کر گزررہاہے وہ اپنےغصہ کا اظہار سڑکوں پر اتر کرکر رہا ہے۔ شایداپنے رہنمائوں تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہے کہ ڈر کا راستہ موت تک لے جاتا ہے۔ ہندوستان میں گؤ رکشوں کے ہاتھوں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردینے‘بے گناہوں کو گئو رکشا کے بہانے پکڑ کر گوبر کھلانے اور پیشاب پلانے کے غیرانسانی مناظر کا جب وہ روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ نسل کشی کا موازنہ کرتا ہے تواسے یہ واقعات روہنگیا کا ریہرسل معلوم ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے ہاتھوں میں زمام قیادت ہے ان کی پراسرار خاموشی اور گھروں میں دبک کر قنوت نازلہ پڑھنے سے بھی گریز کے مشورہ نے بے چینی میں اضافہ کیا ہے۔ قومی یک جہتی اور امن و ایکتا کانفرنسوں نے بھی اس کے درد کو کم نہیں کیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطی کے مال غنیمت سے بھلے ہی ہماری خوشحالی میں اضافہ ہوا۔ مساجد ومدارس کا جال پھیل گیا۔ تبلیغ واشاعت کے مواقع بڑھے لیکن روحیں مردہ ہوگئیں۔ زبانوں پر تالے پڑ گئے۔ قد آور بونے ہوگئے اور بقول اقبال قہاری ‘ غفاری ‘ قدسی وجبروت جیسے عناصر اربعہ سے مسلمان کا خمیر بنتا ہے وہ کہیں گم ہوگیا اور یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ اس نے انتشار پھیلانے اور گروہ بندی کو تقویت دینے میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ہمیں اس جال سے نکلنے اور اپنے ہاتھ پیروں پر بھروسہ کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ اس موقع پر جولوگ مسلم ممالک کی بے حسی کا شکوہ کرتے ہیں ان کو اپنی خوش فہمیاں دور کرلینی چاہئیں کوئی ایسی مثال دی جائے کہ مسلم ممالک الا ماشاءاللہ نے مسلمانوں کے سنگین مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لی ہو‘کبھی وہ ایران عراق جنگ کے نام پر بٹ گئے‘ کبھی شام نے دو خیموں میں تقسیم کردیا اور اب ایک چھوٹے سے ملک کے خلاف جس طرح کی گھیرا بندی ٹرمپ کے حکم نامہ پر ہوئی ہے۔اس سے کون واقف نہیں ہے۔ قارئین کے حافظہ میں ہوگا کہ جب آسام میں نیلی قتل عام ہوا جس میں معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا تھا ۔ ایک عرب ملک کا سربراہ دورہ ہند پر تھا اورایشین گیمس کے لئے اس نے خطیر رقم حکومت ہند کودی تھی۔ ہم انہیں برا بھلا کہہ کراپنا نامہ اعمال خراب کرتے ہیں۔ان پر تو ترس کھاناچاہئے کہ مشرق وسطیٰ کے حصے بخرے کا نیا پلان زیر عمل ہے اور یہ ایک دوسرے کی نسیں کاٹنے میں توانائی جھونک رہے ہیں۔ ان کی دنیا الگ ہے۔ ان کے مقاصد جدا ہیں۔ ان کی دلچسپیاں مختلف ہیں۔ پناہ گزینوں کوسمندر میں دھکیل دینے والے بنگلہ دیش کی حمیت وغیرت تو جاگی وہ انہیں پناہ دینے کے لئے تیار ہوگیا ورنہ اس نے بھی کوئی کمی نہیں کی تھی۔ یہ عالمی رائے عامہ کے دبائو کا ہی نتیجہ تھا۔
ہندوستانی مسلم نوجوان انگڑائی لے رہا ہے۔ وہ اس دبائو کے کمبل کو اتار پھینکنا چاہتا ہے جو گذشتہ تین سال سے اوڑھا دیا گیا ہے۔ اسے مددچاہئے۔کوئی اس کی انگلی پکڑے اور اجتماعی قوت کو اسٹور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے بہکنا نہیں چاہئے جذبات کی آندھی کہیں سمت نہ بدل دے اور بدخواہ ان کا استحصال نہ کرنے لگیں۔ ہمارے زعما کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اس طوفان کو سنبھال کر رکھیں۔ اسے راہ نجات پرلائیں۔ یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ بیداری کی اس کیفیت کی دبی ہوئی چنگاریوں کو سلیقہ عطا کرنا ہوگا ۔ یہ اس لئے بھی ہواکہ انہیں اپنے درد میں بھی روہنگیاکی بازگشت سنائی دی۔ ماضی میں جینے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ دنیا حال کی طاقت اور کیفیت دیکھ کر عزت کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے۔ ہمارا حال کتنا روشن اور خوبصورت ہے۔ ماضی سے موازنہ نہیں کیا جاتا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ماضی کی روشنی سے حال کااندھیرا دور کرنا ہوگا اوریہ ناممکن نہیں ہے۔
qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں