کالی کٹ کا پہلا سفر (قسط سوم)

شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ)
کالی کٹ ریاست کیرالا کا دوسرا اہم اور تاریخی شہر ہے جس کا نام اب کوزی کڈ ہوگیا ہے ، شہروں کی عالمی درجہ بندی میں یہ 192 ویں نمبر پر ہے، ہندوستان میں رہائش کے اعتبار سے اسے دوسرا مقام حاصل ہے ،27 کیلومیٹر سے زائد کے رقبہ پر محیط ہے ،کل آبادی تقریبا 6 لاکھ ہے جس میں 70 فیصد مسلمان ہیں بقیہ ، ہندو اور عیسائی ہیں ۔تعلیمی ،اقتصادی ،سماجی اور سیاسی سطح پر مسلمان یہاں بہت مضبوط ہیں ، اسلامی حمیت اور جذبہ سے سرشار ہیں۔ جگہ جگہ مسجدیں بنی ہوئی ہیں، اسلامی سینٹر قائم ہیں ، اسکول اور مدرسے بڑی تعداد میں مسلمانوں نے قائم کر رکھے ہیں، ایک جگہ سے واپس لوٹتے ہوئے آٹو ڈرائیور سے میں نے پوچھاکہ یہاں مسلمانوں کا کوئی بڑا تعلیمی مرکز ہے تو اس نے مرکز الثقافہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے سربراہ کا نام شیخ ابوبکر بتایا ، گذشتہ شب ڈاکٹر عبد القادر شمس صاحب جب فون پر بات ہوئی تھی تو انہوں نے بھی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ وہاں جائیے، روزنامہ سہارا وغیرہ میں بھی اس کا اشتہار نظروں سے گزر چکا تھا ، آٹو ڈرائیور نے بتایا کہ مین کیمپس دور ہے البتہ اس کی شاخ نزدیک ہے وہاں لیکر چلتے ہیں، چناں چہ انہوں نے مرکز انٹرنیشنل اسکول پہونچا دیا جہاں میری ملاقات اس برانچ کے منیجر مولانا شفیق سے ہوئی اور کافی دیر تک ہماری گفتگو جاری رہی ، انہوں نے بتایاکہ مرکز الثقافہ مدرسہ ہے جہاں دورہ حدیث شریف تک کی تعلیم دی جاتی ہے ، اس کے علاوہ تقریباً سو سے زائد اس کی شاخیں پورے کیرالا میں ہے جہاں انگلش میڈیم اسکول کا نظام ہے ، مدرسہ میں فری تعلیم دی جاتی ہے، اسکول میں فیس بھی لی جاتی ہے ، انہوں نے یہ بھی بتایاکہ اس طرح کے اور بھی کئی بڑے ادارے ہیں جس کے ماتحت سو سے زائد اسکول ، کالجز اور اسلامی مدرسے چل رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایاکہ تعلیم میں مسلمان الحمد اللہ یہاں بہتر ہیں، مسلمانوں کا پچاس فیصد طبقہ اعلی تعلیم یافتہ ہے ، جبکہ بنیادی تعلیم سو فیصد ہے ، عصری تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی سیکھنے کا یہاں معمول ہے اور مذہبی رحجانات کا غلبہ ہے ۔ تجارت میں بھی مسلمانوں کی حصہ داری وافر مقدار میں ہے، بڑے بڑے شاپنگ مال، ہوٹل ، ریسٹورینٹ اور دیگر چیزیں مسلمانوں کی ملکیت ہیں ۔
تاہم ہندوستان کے دیگر خطوں کی طرح یہ صوبہ بھی مسلکی جنگ کا شکار ہے، میر اخیال تھا کہ صرف حنفی فقہ کے ماننے والے مختلف خانوں میں تقسیم ہیں لیکن یہاں آکر پتہ چلاکہ شافعی فقہ کے پیروکار وں کے بھی کئی گروپ ہیں اور آپس میں باہم دست و گریباں رہتے ہیں، دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث اور جماعت اسلامی کے بجائے کچھ دوسری جماعتیں یہاں پائی جاتی ہیں، لیکن سبھی کے نظریات کچھ اسی انداز کے ہیں، البتہ ان میں ایک ندوة المجاہدین ہے جس کے بارے میں لوگوں نے بتایاکہ یہ سب سے زیادہ پرتشدد جماعت ہے ۔ دنیا کی سب سے پرامن تحریک تبلیغی جماعت بھی یہاں سرگرم ہے ، افسوسناک بات یہ ہے کہ قادیانیوں کی بھی یہاں مسجد بنی ہوئی ہے ۔
ہندوستان کی تاریخ میں کالی کٹ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ، ساتویں صدی عیسوی میں صحابی رسول مالک بن دینار ضی اللہ عنہ اسی شہر میں تشریف لائے تھے جہاں سے یہاں آمد اسلام کی تاریخ شروع ہوتی ہے، انہوں نے ہی سب سے پہلی مسجد تعمیر کی جس کا تفصیلی تذکرہ دوسری قسط میں ہوچکا ہے ۔1498 میں ” واسکو دا گاما “ کی کشتی بھی کالی کٹ کے ” کپڈ “ ساحل پر لنگر انداز ہوئی تھی جس نے ہندوستان اور یورپ کے درمیان سب سے پہلے تجارتی رشتہ قائم کیا ، کچھ دنوں کیلئے پرتگال نے بھی یہاں تجارتی مرکز قائم کیا تھا ۔ انگریزوں نے بھی اسے اپنا تجارتی مرکز بنایا ، مالا بار کی حکومت سے پہلے اپنا معاشی رشتہ قائم کیا اور بعد میں بغاوت کرکے قابض ہونے کی کوشش کی ، بتایا جاتاہے کہ کالی کٹ میں انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک عظیم جنگ ہوئی تھی جس میں تقریباً 3 ہزار مالائی مسلمان شہید ہوئے ۔ میسور میں ٹیپو سلطان کی بادشاہت قائم ہونے کے بعد کالی کٹ کو انہوں نے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور یہ حکومت میسور کی تجارتی بندر گاہ بن گئی ۔ 1342سے 1347 کے درمیان مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بھی چھ مرتبہ یہاں کا سفر کیا تھا اور کالی کٹ بندر گاہ کی تجارتی نقطہ نظر سے بہت تعریف کرتے ہوئے کہاکہ یہاں پر دنیا بھر کے لوگ مل جاتے ہیں ۔
بہر حال یہ پورا علاقہ مالا بار کہلاتا ہے جہاں پہلے مستقل ایک حکومت قائم تھی ۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا دو روزہ بین الاقوامی سمینار اسی مالابار کے علاقے میں کالٹ سے 25 کیلومیٹر کے فاصلہ پر مالا پورم ضلع میں ہونا تھا جہاں کالی کٹ یونیورسیٹی واقع ہے لیکن سیاسی مافیاﺅں نے وی سی پر شدید دباﺅ بنایا جس کی وجہ سے کیمپس میں پروگرام کا انعقاد منسوخ کردیا گیا ، شعبہ اسلامیات کا اشتراک بھی منقطع کرنا پڑا ، نیشنل وویمن فرنٹ نے فوری طور پر شہر میں نالندہ آڈیٹوریم بک کرکے کانفرنس وہاں شفٹ کیا ۔ سابق نائب صدر جمہوریہ حسب وعدہ تشریف لائے اور خواتین کے حقوق پر انہوں نے بیس منٹ تقریر کی ۔
اپنے خطاب میں انہوں نے دنیا بھر میں خواتین کی سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ پیش کیا ، بار بار قرآن کریم کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اسلام نے خواتین کو مکمل حقوق دیئے ہیں، کسی طرح کا جنسی امتیاز اسلام میں نہیں برتا گیا ہے ، اپنی تقریر کا اختتام انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی تلاوت کرکے کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ” خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ہے جسے خود اپنی حالت بدلنے کی آپ فکر نہ ہو “۔ جناب حامد انصاری کی پوری تقریر میں ایک لفظ بھی سیاست سے متعلق نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے کسی پر تنقید کی ، افتتاحی سیشن میں شروع سے اخیر تک بیٹھے رہے ۔ یہ پہلا موقع تھا جب مجھے بھی ان سے بالمشافہ ملاقات کرنے اور گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا۔ آئی او ایس کی چیرمین ڈاکٹر منظور عالم نے انہیں ممینٹو بھی پیش کیا جبکہ حامد انصاری صاحب کے ہاتھوں نیشنل وویمن فرنٹ کی صدر محترمہ ایس اے زینبا اور چنئی سے تشریف لائیں ناول نگار محترمہ سلمی کو ممینٹو بھی دیا گیا ۔
24 ستمبر کو یہاں کے اکثر انگریزی اخبارات نے منفی خبریں شائع کی ، حامد انصاری کی تقریر کے متن پر اعتراض کرنے کیلئے کچھ نہیں ملا تو ان کی شرکت پر ہی سو الیہ نشان قائم کردیا، اخبارت کی سرخی اس انداز سے بنائی گئی کہ حامد انصاری نے شدت پسند تنظیم پی ایف آئی کے پروگرا م میں شرکت کی ، وشو ہندو پریشد نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر حامد انصاری کو نشانہ بنانا شروع کردیا، اس کانفرنس کو پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے جوڑتے ہوئے کہاکہ یہ دہشت گرد تنظیم ہے ، اس میں حامد انصاری نے شرکت کرکے بہت بڑا جرم کیا ہے ، ان کے مدت صدرات کی بھی جانچ ہونی چاہیئے کہ کہیں وہ کسی دہشت گرد تنظیم سے جڑے ہوئے تو نہیں تھے ۔ مقامی بی جے پی صدر نے بھی حامد انصاری کی شرکت پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ پی ایف آئی جانچ ایجنسیوں کی رڈار پر ہے ، انہیں قوم سے معافی مانگنی چاہیئے ۔ ایک دن بعد یہ خبر دہلی تک بھی پہونچ گئی اور مین اسٹریم میڈیا نے حامد انصاری کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو گھسیٹنے کی کوشش ہورہی ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ سمینار آئی او ایس کا تھا، سارا انتظام اسی نے کیا تھا، اسے صرف نیشنل وویمن فرنٹ کا اشترا ک حاصل تھا ، پی ایف آئی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا ، مقامی طور پر تمام ذمہ داریاں نیشنل وویمن فرنٹ کے سپرد تھی ، سمینار کے شرکاء میں 98 فیصد تعداد خواتین کی ہی تھی ، میرے خیال میں اسٹیج سے لیکر سامعین میں شریک تمام خواتین دانشور اور تعلیم یافتہ بھی تھیں، کیرالا کی یہ خواتین با پردہ نظر آئیں، پورے سمینار ہال میں چند ایک کو چھوڑ کر کوئی بھی بے حجاب نہیں تھیں اور جو نظر آئی ان کا تعلق کیرالا سے نہیں تھا۔ نیشنل وویمن فرنٹ خواتین کے درمیان کام کرتی ہے ، کیرالا، کرناٹک ، چننئی ، دہلی ، سمیت متعدد ریاستوں میں یہ تنظیم متحرک و فعال ہے اور خواتین کے حقوق کیلئے مسلسل سرگرم عمل ہے ، سمینار میں پی ایف آئی کا براہ راست کوئی رو ل نہیں تھا ،تنظیم نے ایک پریس ریلیز جاری کرکے واضح طور پر انکار بھی کیا ہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی سمینار میں کوئی حصہ داری نہیں تھی (جاری)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں