ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
عشرت جہاں فرضی مڈبھیڑ کا جن فروری کے آخری ہفتے میں ایک بار پھر بوتل سے باہر آگیا۔ ملک کے سابق ہوم سیکریٹری جی کے پلے نے یہ کہہ کر ہلچل پیدا کردی کہ پی چدمبرم کی وزارت داخلہ کے دوران اگست ۔ستمبر2009میں ایک ہی مہینے کے فرق سے دو متضاد حلف نامے داخل کئے گئے تھے جن میں سے پہلے میں عشرت جہاں کولشکر طیبہ کی کارکن بتا یا گیا تھا اور دوسرے میں اس پر خاموشی اختیار کرلی تھی اور اس طرح یوپی اے کی سرکار نے لشکر طیبہ کی پشت پناہی کی تھی۔ جہاں اس بیان نے ملک کے سیاسی حلقوں میں عشرت جہاں کیس کو دوبارہ زندہ کردیا اور اس پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا وہیں دوسری جانب اس وقت کے وزارت داخلہ کے ایک اور انڈر سیکریٹری آر وی ایس منی جنہوں نے ان دونوں حلف ناموں پر دستخط کئے تھے انہوں نے بھی یہ کہہ کر سنسنی پھیلا دی کہ اس حلف نامے پر دستخط کرنے کے لئے مجھے ٹارچر کیا گیا تھا۔ اور سکریٹ کے بٹ سے جلا یاگیا تھا۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے اپنی جلی ہوئی پینٹ بھی پیش کی۔پورا ایک ہفتے میڈیا میں اس پر بحث ہوتی رہی اور بحث نے یہ رخ اختیار کیا کہ گویا کانگریس کی قیادت والی گزشتہ یوپی اے حکومت دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہی تھی اور اس غرض سے تمام افسران اور ایجنسیوں کا ناجائز استعمال کررہی تھی۔ابھی اس پر بحث چل ہی رہی تھی کہ ایک اور سابقہایس آئی ٹی چیف ستیش ورمانے یہ کہہ کر سب کو حیران کردیاکہ مسٹر منی جھوٹ بول رہے ہیں اور یہ کہ وہ ایک بار پھر عدالت سے رجوع کرکے آئی بی کے افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی اجازت مانگیں گے۔واضح رہے کہ یہ سب کچھ ایک بار پھرڈیوڈ کیمرانس ہیڈلی کے اس بیان کے بعد شروع ہوا ہے جو انہوں نے ویڈیو کاننفرنس کے دوران دیا جس میں انہوں نے عشرت جہاں کے بارے میں پوچھے گئے کچھ ڈرامائی سوالوں کے جواب میں عشرت جہاں کو لشکر طیبہ کا رکن بتایا تھا۔لیکن ستیش ورما کے بیان کے فوراً بعد یہ معاملہ ایک بار پھر ٹھنڈا پڑگیا یہاں یہ بات سمجھا جانا ضروری ہے کہ آخر12سال پرانے اس کیس پر بار بار بحث کرنے کی نوبت کیوں آتی ہے۔
15؍جون 2004احمدآباد کے مضافات میں صبح سویرے ممبرہ کی رہنے والی 19سالہ عشرت جہاں رضا کو اس کے چار ساتھیوں کے ساتھ احمدآباد کی پولیس اور مقامی آئی بی کی ایک مشترکہ ٹیم نے ایک مڈبھیڑ میں قتل کردیا اس ٹیم کی قیادت گجرات پولیس کے ڈی آئی جی، ڈی جی بنجارا کررہے تھے جو اس سے قبل سہراب الدین اور پشو پتی کا انکاؤنٹر بھی کرچکے تھے۔ بعد ازاں انہیں اس سلسلے میں آٹھ سال تک جیل میں بھی رہنا پڑا اور ان کے خلاف مقدمہ ابھی جاری ہے۔عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں پر یہ الزام لگایا کہ وہ اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اور لال کرشن اڈوانی کو قتل کرنے کے لئے لشکر طیبہ نے بھیجا تھا۔بہرحال ابھی تک نہ تو اس الزام کی تصدیق ہوسکی کہ وہ لشکر طیبہ کی بھیجی ہوئی تھی اور نہ یہ حقیقت واضح ہوسکی کہ انکاؤنٹر فرضی تھایا اصلی۔ بحث کا سلسلہ 12سال سے جاری ہے۔موجودہ تنازعہ اپنے آپ میں بہت سے دلچسپ سوالات رکھتا ہے جن کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ایک بات تو یہ ہر ذہن میں واضح رہنی چاہیے کہ یہ دو سوالات الگ الگ ہیں۔ایک تو یہ کہ عشرت جہاں دہشت گرد تھی یا نہیں اور دوسرا سوال یہ کہ مڈبھیڑ اصلی تھی یا نقلی۔ اکثر بحث کے دوران ان دونوں سوالوں کو اکٹھا کرلیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد بحث کرنے والوں پر حب الوطنی ثابت کرنے کے خاطر عشرت جہاں کو دہشت گرد ماننے پر زور دیا جاتا ہے اور اس پردے میں مڈبھیڑ کی داستان کو بھی جائز ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ساری جست وخیز میں اس معاملے میں پوشیدہ بہت سی سازشوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔مثلاً یہ ہیڈلی کے ساتھ پہلی تحقیقات کسی ہندوستانی ٹیم نے جون 2010میں کی تھی۔جب یہاں سے این آئی اے کی ایک چاررکنی ٹیم اس وقت کے این آئی اے سربراہ لوک ناتھ بہاری کی قیادت میں شکاگو گئی تھی اور ایک ہفتے تک مستقل دس ،بارہ گھنٹے روزانہ ہیڈلی سے سوالات کئے گئے تھے۔اس رپورٹ میں عشرت جہاں کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ ہیڈلی نے اس سلسلے میں بہت مبہم باتیں کہیں ہیں۔ جسے ملک کی کسی عدالت میں بحیثیت ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ حیرت ہے کہ اس سال فروری میں جب ایک بار پھر ہیڈلی سے سوالات کرنے کے لئے ویڈیو کانفرنسنگ کی گئی تو اس میں ملک کی سراغ رساں ایجنسیوں کے بجائے یہ ذمہ داری بدنام زمانہ وکیل اجّول نکلم کو دے دی گئی جو مبینہ طور پر ملک کے سب سے محب وطن وکیل سمجھے جاتے ہیں اور ملک کے تمام مفروضہ دہشت گردوں کے کیس میں سب سے بڑے سرکاری وکیل ہوتے ہیں۔مرکزی حکومت سے یہ سوال بجا طورپر پوچھا جاسکتا ہے کہ سراغ رساں ایجنسیوں کے ذمہ داروں کو نظر انداز کرکے ایک سرکاری وکیل کو اتنی اہم اور سنسنی خیز تفتیش کی ذمہ داری آخر کیوں دی گئی۔ پھر جس انداز سے ان وکیل صاحب نے سوالات کرکے اپنے مطلوبہ جوابات ہیڈلی کے منہ میں ڈالے وہ ملک کی کسی عدالت میں قابل قبول نہیں ہے اور پھر اس بیان کی بنا پر دو ہفتے کے بعد ہی ملک کے سابق داخلہ سکریٹری کا بیان آنا یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ملک میں کچھ لوگ کچھ خاص وجوہات کے تحت اس بحث کو دوبارہ چھیڑنا چاہتے تھے۔و گرنہ امر واقع یہ ہے کہ سابق ہوم سکریٹری کا یہ بیان اس سے قبل 2013میں بھی آچکا تھا اور اس پر بحث بھی ہوچکی تھی۔ دوبارہ بیان آنے پر اس انداز سے بحث چھڑ گئی گویا یہ بیان پہلی بار آیا ہو۔اس کے بعدآر وی ایس منی کا بیان بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے جولائی 2014میں ایک انتہائی سنسنی خیز بیان دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ انہیں آئی بی کے ذمہ دار افسر نے یہ بتایا ہے کہ پارلیامنٹ پر ہونے والا حملہ اور 26نومبر کو ممبئی پر ہونے والا حملہ دونوں ہی انٹیلی جنس بیورو نے خود کروائے تھے اور ان حملوں کا مقصد ملک میں دہشت گردی کے خلاف پوٹہ اور یو اے پی اے جیسے سخت ترین قوانین بنانے کی راہ ہموار کرنا تھا۔اس وقت منی صاحب نے یہ نہیں کہا کہ 2009کا حلف نامہ داخل کرنے کے لئے انہیں کسی نے ٹارچر کیا تھا۔اس وقت سے لے کر اب تک ان صاحب نے اپنے مذکورہ بیان کی کوئی تردید بھی نہیں کی۔ اب اچانک اپنے ٹارچر کی داستان سناتے وقت وہ اس بیان کی تردید کررہے ہیں اور حیرت ہے کہ ان سے یہ سوال نہیں کیا جارہا کہ ایک سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے اتنا سنسنی خیز بیان کیوں دیا اور نہ ہی یہ سوال کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والے ظلم کے خلاف اس وقت قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جس کے وہ مجاز تھے۔ آج بھی جب وہ سنسنی خیز بیان دے رہے ہیں تو انہوں نے باضابطہ کارروائی نہ کرتے ہوئے صرف میڈیا کا سہارا لیا ہے اور تادم تحریر بھی ان کی طرف سے پولیس میں نہ کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور نہ کسی عدالت میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف کوئی عرضی داخل کی گئی ہے۔ میڈیا میں ہونے والی اتنی زبردست بحث کے بعد بھی منی صاحب نے اپنابیان کسی حلف نامے کی صورت میں نہیں دیا ہے۔اسی طرح جی کے پلے صاحب نے بھی کوئی بیان حلفی کہیں داخل نہیں کیا ہے بلکہ صرف میڈیا میں اپنی بات کہہ کر ہنگامہ خیزی کی ہے۔جب کہ متعلقہ افسر ستیش ورما نے براہ راست عدالتی چارہ جوئی کا عندیہ ظاہر کرتے ہوئے ان بیانات کو خارج کردیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ طبقہ جو اس بحث سے کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا وہ خوفزدہ ہو کر اچانک خاموش ہوگیا اسی لئے میڈیا میں اب یہ بحث بھی بہت دھیمے سروں میں سنائی دیتی ہے۔
اس معاملے میں ایک بڑی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جولائی 2004میں عشرت جہاں قتل کے چند دنوں بعد موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال صاحب کو آئی بی کا ڈائریکٹر بنایا گیا تھااور اس وقت گجرات کے وزیر داخلہ موجودہ بی جے پی صدر امیت شاہ تھے جبکہ موجودہ وزیر اعظم گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔تو سوال کیا جاسکتا ہے کہ جو تینوں لوگ 2004میں اس معاملے میں کسی نہ کسی طرح ملوث تھے اور جن پر اس مڈبھیڑ کی چھینٹیں جاتی رہی ہیں وہی تینوں اب مرکز میں برسراقتدار ہیں۔کیا یہ محض اتفاق ہے یا کوئی معشوق اس پردہ زنگاری بھی موجودہ ہے۔ایک سوال اور بھی ذہن میں چبھنا چاہیے کہ وہ آلوک ناتھ بہاری جو ہیڈلی سے تفتیش کے لئے شکاگو گئے تھے اور جو این آئی اے کے سب سے پہلے ڈائریکٹر تھے وہ ان سارے معاملے میں کہاں ہیں۔واضح رہے کہ آلوک ناتھ بہاری بھی اجیت ڈوبھال کی طرح کیرل کیڈر کے آئی پی ایس افسر ہیں۔جن کے حصے میں ملک کی سب سے زیادہ ہیجان انگیز تفتیشیں آتی رہی ہیں اور انہوں نے ان سب میں بہت نمایاں کارکردگی انجام دی ہے جس کے لئے انہیں پولیس میڈل بھی دیا گیا۔ لیکن اجیت ڈوبھال کے قومی سلامتی مشیر بنتے ہی ان کو اہم ذمہ داریوں سے سبکدوش کرکے کیرل بھیج دیا گیا ۔کیونکہ یہ دونوں لوگ آپس میں ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اجیت ڈوبھال یوپی اے کے ذریعے 2008میں بنائے گئے این آئی اے سے کبھی مطمئن نہیں رہے۔یہ وہی ایجنسی ہے جس نے ملک میں ہیمنت کرکر ے کے بعد آر ایس ایس اور دیگر سخت گیر ہندو جماعتوں کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردی کا پردہ فاش کیا ہے۔ اسی این آئی اے نے اسیما نند ،سادھوی پرگیا، کرنل پروہت اور دیگر لوگوں کو گرفتار کرکے یہ بتایا کہ مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں وغیرہ میں ان آر ایس ایس سے ملحق تنظیموں کا رول تھا۔چنانچہ ملک کی موجودہ سرکار اس ایجنسی کی کارکردگی سے کبھی مطمئن نہیں رہی۔ اجیت ڈوبھال جو ملک کے داخلی سلامتی کے سب سے بڑے ماہر سمجھتے جاتے ہیں وہ بھی این آئی اے کے قیام کے مخالف رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قارئین نے غور کیا ہوگا کہ اس پوری بحث میں آئی بی کے رول کی توبہت تعریف کی جاتی رہی لیکن سی بی آئی اور این آئی اے پر شدید تنقید کی گئی اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی رہی ہے کہ بامبے ہائی کورٹ کے حکم پر سی بی آئی کے ذیعے کی گئی عشرت جہاں قتل کی تفتیش میں آئی بی کے چار بڑے افسروں کو ماخوذ کیا گیا تھا اور ان کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی سفارش کی گئی تھی۔جسے اس بحث کے ذریعہ غلط ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی تین بڑی سراغ رساں ایجنسیوں کے مابین اختلافات اس طرح کھل کر سامنے آئے ہیں اور ایک ایجنسی دوسری ایجنسی کے افسران کو ملزم بنانے کی سفارش کررہی ہے یہ بھی واضح ہے کہ داخلی سلامتی کے محاذ پر آئی بی کا رول ہمیشہ ہی مشکوک رہا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ بہت سے مبینہ دہشت گردانہ واقعات میں آئی بی خود شریک رہی ہے ۔ مثلاً پارلیامنٹ پر ہوئے حملے اور بمبئی پر ہونے والے حملے کے بارے میں منی صاحب کا مذکورہ بالا بیان خود بہت سارے شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔ایسے میں ہندو تفاخر کی پرورش کرنے والی موجودہ سرکار کسی بھی ایسی ایجنسی کے وجود کو کیسے برداشت کرسکتی ہے جو ہندو ددہشت گردی کی جڑوں کو طشت از بام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ 12سال کے بعد بھی عشرت جہاں کا بھوت اجیت ڈوبھال ،امیت شاہ اور نریندر مودی کے سرسے اتر نہیں پارہا ہے اور کبھی ہیڈلی کے ذریعہ توکبھی اپنے پسندیدہ سابقہ ب افسر شاہوں کے ذریعہ نئے نئے زوایوں سے پرانی بحثیں چھیڑ کر ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کا مورل ٹاؤن کرنے کی سازش خود حکومت وقت کررہی ہے۔عشرت جہاں تو 15جون 2004کو مالک حقیقی سے جا ملی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی روح ملک کے ہزاروں بے گناہ مسلم نوجوانوں کے لئے آج بھی کسی نہ کسی صورت رو بہ عمل ہے جس طرح مکہ مسجد اور مالیگاؤں وغیرہ کے بے قصور رہا ہوئے ہیں اسی طرح موجودہ بحث کے ذریعہ کھڑے کئے گئے سوالات بہت سے ستم رسیدہ جیل گزیں مظلوموں کی نجات کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )