کالی کٹ کا پہلا سفر (قسط چہارم)

شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ)
نیشنل وویمن فرنٹ نے چوطرفہ سیاسی دباﺅ، بارہ گھنٹہ قبل مقام تبدیل ہوجانے اور اپنوں وغیروں کی مخالفت کے باوجود سمینار کو کسی طرح کا نقصان پہونچنے نہیں دیا ، تمام مہمانوں کا پرپتاک استقبال کیا ، ہر ایک کو مکمل اعزاز و احترام بخشا، 23 ستمبر کا سمینار اپنے وقت پر شروع ہوا ، سیکوریٹی کے سخت انتظامات کے درمیان حامد انصاری صاحب تشریف لائے ، سمینار ہال بھی تقریباً پُر ہوگیا ، 300 سے زائد خواتین نے افتتاحی سیشن میں حصہ لیا ،تمام شرکاء کیلئے فوری طور پر لنچ کا اہتمام کیا گیا ، کیرالا کی ثقافت کو زندہ کرتے ہوئے نالندہ آڈیٹوریم کے کیمپس میں واقع ایک ہال میں تمام لوگوں کو کیلا کے پتے پر لنچ کھلایا گیا ، تمام مہمانوں نے بہت شوق سے یہ کھانا کھایا ۔ مجھے بھی پہلے مرتبہ کیلا کے پتے پر کھانے کا اتفاق ہواتھا ، پہلے پتہ بچھایا گیا ، پھر چاول اور کئی طر ح کی سبزیاں رکھی گئی۔ میرے ٹیبل پر این ڈبلیو ایف کی صدر زینبا بھی آکر بیٹھ گئیں ، ساتھ میں آئی اوایس کے پروگرام انچارج اقبال حسین صاحب بیٹھے تھے ، انہیں بھی پہلی مرتبہ اس طرح کا منظر دیکھنے کو ملا تھا اس لئے بطور یادگار انہوں نے کہا شمس ایک فوٹو لیجئے اپنی بیگم کو دکھانا ہے۔ پینے کیلئے جو پانی ملا وہ گرم تھا تفتیش کے بعد پتہ چلاکہ یہاں ٹیوب سے جو پانی نکلتا ہے اسے گرم کرکے ہی پیا جاتا ہے ورنہ مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، ریسٹورینٹ اور دیگر سبھی مقام پر بھی گرم پانی ہی دیا جاتاہے ، اگر آپ ٹھنڈا پانی پینا چاہیں گے تو مینول واٹر کی بوتل الگ سے خریدنی پڑے گی ۔
دوسرے روز یعنی 24؍ستمبر کا پروگرام ہوٹل اسپین میں منعقد ہوا ، تھری اسٹار ہوٹل تھا ، کانفرنس ہال بہت مناسب اور دیدہ زیب تھا، یہ ہال بھی خواتین سے کھچا کھچ بھر گیا ، یہاں ڈنر کا اہتمام پہلے دن سے مختلف دہلی کے انداز میں کیا گیا ، بہت لذیذ بریانی کھلائی گئی ، کیرالاکے علاوہ صوبوں سے جو شریک تھے انہوں نے جی بھر کے کھایا۔

محمد شفیع اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر ہادیہ


سمینار کے دوران پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے وابستہ بہت سے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی ، ان میں مہاراشٹرا ، بہار ، راجستھان سمیت کئی صوبوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ انہیں میں کیرالا کے شہری محمد باسط علوی بھی شامل ہیں جو ملیالم کے ٹی وی پروگرام کے تقریری مقابلہ میں کئی مرتبہ اول پوزیشن سے کامیاب ہوچکے ہیں ، محمد باسط شفیع جہاں کے دوست ہیں اور ہادیہ سے بھی ان کی ملاقات رہی ہے، ہادیہ کے بارے میں انہوں نے بتایاکہ اس کا باپ کیرالا کی آر ایس ایس یونٹ کا سربراہ ہے ، ہادیہ کے قبول اسلام کے بعد سنگھ کی پوری مشنری میں کھلبی مچی ہوئی ہے، ہادیہ کو اسلام سے منحرف کرنے کیلئے سپریم کورٹ تک کا استعمال کیا جارہا ہے لیکن امید نہیں یقین ہے کہ ہادیہ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئے گی اور وہ اسلام پر ثابت قدم رہے گی ، میں نے جب پوچھا کہ شفیع جہاں کا اس قضیے میں کیا کردار ہے اور اس وقت کیا چاہتاہے تو انہوں نے بتایاکہ شفیع بھی مضبوطی کے ساتھ اپنے وعدے پر قائم ہے ، وہ ہادیہ کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا ہے ، شفیع کے والد نے بھی ہندودھرم کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا، اس لئے اس کا ایمان اور زیادہ مضبوط ہے ۔
بہر کیف ہادیہ کا معاملہ اس وقت بہت پیچدہ ہے ، کالی کٹ سے تقریباً پچاس کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاﺅں میں اس کا گھر ہے۔ چنئی میں دوران تعلیم ہادیہ اسلام سے متأثر ہوکر مسلمان ہوگئی تھیں۔ گھر والوں کے بائیکاٹ کے بعد اس نے شفیع جہاں سے شادی کی ، گھر والوں اور آر ایس ایس نے ہائی کورٹ میں اس کے خلاف اپیل دائر کردی جہاں سے ہادیہ کو انصاف نہیں مل سکا ، اب معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ، اس دوران این آئی اے انکوائری کررہی ہے ، ہادیہ اپنے گھر میں نظر بند ہے ، اسے نہ تو باہر نکلنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے فون پر بات کرنے دیا جارہا ہے ۔ ہادیہ نے ہمیشہ یہی کہاہے کہ وہ از خود اسلام میں آئی ہیں کسی نے مجبور نہیں کیا ہے ، انہوں نے سپریم کورٹ میں حاضری کی اجازت مانگی ہیں کہ وہاں جاکر براہ راست گواہی دیں گی کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے ، لیکن سنگھ پریوار کا الزام ہے کہ ہادیہ کا مذہب پی ایف آئی نے تبدیل کرایا ہے، اس مسئلہ کے بعد پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو اور زیادہ نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ ہورہا ہے۔ لیکن پی ایف آئی والوں کی جرأت و ہمت اور حوصلے کو سلام ۔ وہ لوگ مشکلات کا سامنا کرکے کام کررہے ہیں، 24 صوبوں میں اس کی نمائندگی ہو رہی ہے ، جنوبی ہندوستان میں بہت مضبوط تنظیم بن گئی ہے اور مسلسل کامیابی کی جانب رواں دواں ہے ۔ یہ تنظیم اور اس کے نمائند ے نام و نمود سے ہمیشہ دور نظر آتے ہیں، مختلف ونگ بناکر حکمت عملی سے کام کررہے ہیں ۔
کالی کٹ سے قریب میں ہی ہے منجھیری ہے جہاں مرکز الہدایہ نام سے ایک مرکز قائم ہے، نومسلموں کو دو ماہ کیلئے وہاں رہائش دی جاتی ہے۔ اندرونی سطح پر کیرالا میں مسلمان دعوت و تبلیغ کے کام پر بہت محنت سے کررہے ہیں، اسلام قبول کرنے والے کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کی پوری مدد کرتے ہیں ، رہائش ، طعام سمیت ضروریات کی تمام چیزیں فراہم کراتے ہیں ۔

مرکزالہدایت


سمینار میں کئی انٹرنیشنل مہمانوں سے ملاقات بھی ہوئی، ان کی زبانی ان کے ملک کے بارے میں جاننے کا اتفاق ہوا؟ بطور خاص محترمہ سید النساء سیدہ سے میری طویل ملاقات رہی ، افریقہ کے بارے میں انہوں نے بہت کچھ بتایا ، پرمغز مقالہ بھی پیش کیا۔ محترمہ افریکن وویمن فیتھ نیٹ ورک کی سربراہ ہیں اور ان کی ساتویں نسل ہندوستان سے ہی ہجرت کرکے افریقہ گئی تھی۔
حقوق نسواں پر ہونے والے سمینار میں شرکت ، خواتین کی تحریر پڑھنے اور ان کی باتوں کو سننے کے بعد مجھے لگتاہے کہ ناشکری کی صفت صرف بیوی میں نہیں پائی جاتی ہے بلکہ مجموعی طور پر عورتوں کی یہ صفت ہے ، اتنے سارے حقوق ، مواقع، ملازمت ملنے کے بعد بھی ہمیشہ یہی شکایت ہوتی ہے کہ خواتین کے ساتھ سماج میں دوہرا معیار برتا جاتا ہے جبکہ موجودہ معاشرہ میں کسی کام کیلئے خاتون ہونا کافی ہے ، صلاحیت اور لیاقت درکار نہیں ہے۔ میڈیا، آفس، استقبالیہ اور دیگر کئی شعبوں میں مردوں کی بحالی عورتوں کی مقابلے میں کم ہو گئی ہے ، میٹر و ٹرین سے لیکر پارلیمنٹ تک خواتین کو ریزرویشن ملا ہو اہے ، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اب ایک سمینار حقوق مردوں کیلئے بھی ہونا چاہیئے کیو ں کہ مردوں کے حقوق اب کم ہوگئے ہیں ، مثال کے طور دہلی میٹرو میں ایک کوچ عورتوں کیلئے خاص ہے ، مردوں کا وہاں جانا جرم ہے ، ا س کے علاوہ بقیہ کوچ مرد و عورت دونوں کیلئے برابر ہے، اب آپ بتائیں کسے زیادہ حقوق ملے ہوئے ہیں، اسی طرح کا معاملہ تقریباً تمام شعبوں میں ہے ۔ گھریلو سماج میں بھی عورتوں کو ہی زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے ، اگر ان پر کسی طرح کی زیادتی ہے تو عورتوں یعنی ساس وغیرہ کی جانب سے ہی ہوتی ہے سسر اور شوہر کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے ۔ عورتوں نے احتجاج کرکے اپنے لئے ایک دن بھی مخصوص کرالیا ہے ۔
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کا یہ سمینار ہمیشہ کی طرح مکمل طور پر کامیاب رہا، خواتین اور اسکالرس نے اس کاوش اور انداز کو سراہتے ہوئے مختلف مقامات پر اس طرح کے سمینار کے انعقاد کی وکالت کی ، برسبیل تذکرہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو کے بارے میں بھی کچھ چیزیں بتانا ضروری ہے ۔ آئی او ایس ایک قدیم اور معتبر مسلم ادارہ ہے جس کا قیام 1988 میں عمل میں آیا تھا ، اس کے بانی اور چیرمین عالمی سطح پر شہرت یافتہ دانشور ڈاکٹر منظور عالم ہیں، تعلیم یافتہ اور دانشوارن حضرات کی ایک بڑی تعداد اس سے وابستہ ہے ، اس ادارے کا بنیادی کام ذہن سازی، فکر اور رائے عامہ پیدا کرناہے ہے ، کسی موضوع پر تحقیق ، ریسرچ اور علمی مواد پیش کرنا اس کا بنیادی مقصد ہے ، اسی لئے اس کو ہندوستانی مسلمانوں کا تھنک ٹینک بھی کہا جاتا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں