ملت اسلامیہ کے دو عظیم معمار مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور سرسیداحمد خاںؒ

مولانا ندیم الواجدی
۱۷؍ اکتوبر کو سر سید ڈے منایا جاتا ہے، یہ روایت سالہا سال سے چلی آرہی ہے، پوری دنیا میں جہاں جہاں علیگرین حضرات ہیں، اس دن کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، سر سید کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر روشنی ڈالی جاتی ہے، ان کو یاد کیا جاتا ہے، بلاشبہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے عہد زوال کے ایک عظیم انسان تھے، جنہوں نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی اور ایک زوال آمادہ قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی، اپنوں اور غیروں نے ہزار مخالفتیں کیں لیکن کوئی بھی مخالفت ان کے پائے ثبات کو جنبش نہ دے سکی، بلاشبہ علی گڑھ کے فیض یافتگان کا حق ہے بلکہ یہ ان کا فرض ہے کہ اس عظیم معمار کی یادوں سے اپنے دل کے نہاں خانے روشن رکھیں اور اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے رہیں، اسی دور خزاں کی ایک اور عظیم شخصیت جس نے ۱۸۵۷؁ء کی جنگ سے برباد اور مایوس قوم کے لیے بے آب وگیاہ سرزمین ہند میں علم کے نخلستان لگائے وہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی ہے، جس وقت سرسیدؒ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے ٹھیک اسی وقت مغربی یوپی کے ایک چھوٹے سے قصبے نانوتہ میں یہ شخصیت عالم وجود میں قدم رکھ رہی تھی، سر سید کی تاریخ پیدائش ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۱۷؁ ء ہے، جب کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ۱۸۳۲؁ء میں اس بزم ہست و بود کی رونق بخشی، یہ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں کا تعلق مغربی یوپی کے مردم خیز علاقے سے ہے، اور اس سے بھی زیادہ عجیب اتفاق یہ ہے کہ دونوں کی تعلیم کا سر چشمہ ایک ہی ہے، دونوں نے حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے مدرسے سے فیض اٹھایا جو مسلمانوں کے علمی دور عروج کی آخری یادگار کے طور پر دہلی میں باقی رہ گیا تھا، اور تشنگانِ علوم اسی کی طرف رجوع کرتے تھے۔
سر سید کی تعلیم قدیم طرز کے اسلامی منہج پر ہوئی، انہوں نے وہی کتابیں پڑھیں جو عام طور پر مدارس عربیہ میں پڑھائی جاتی رہی ہیں، ان کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ سر سید نے جن بزرگوں سے فیض حاصل کیا ان میں امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے پوتے شاہ مخصوص اللہ، شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے جانشین شاہ محمد اسحاق دہلوی ؒ اور استاذ الکل حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے نام لئے جاتے ہیں (موج کوثر شیخ محمد اکرام ص:۸۰ بہ حوالہ تراجم علمائے حدیث ہند، ص: ۱۱۳، ۱۲۰) آخر الذکر ان بے مثال علماء میں سے ہیں جن کے سامنے انیسویں صدی کے اکثر مشاہیر نے زانوئے تلمذ طے کیا ہے، جیسے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوریؒ، منشی ذکاء اللہ صاحبؒ، ڈپٹی نذیر احمد دہلوی ؒ، مولانا یعقوب علی نانوتویؒ، مولانا محمد احسن نانوتویؒ، مولانا محمد مظہر صاحبؒ بانی مظاہر علوم سہارن پور، اسی فہرست میں یہ دو نام بھی شامل ہیں سر سید احمد خاں اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، اگرچہ دور حاضر کے بعض محققین نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ سر سید احمد خاں نے مولانا مملوک علی نانوتویؒ سے تعلیم حاصل کی ہے، تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ سرسید کے ذہن وفکر پر ابتداء ًمدرسہ شاہ ولی اللہ کی گہری چھاپ رہی ہے، یہ بات الگ ہے کہ بعد میں بعض مخصوص حالات ورجحانات کی بنا پر یہ اثر زائل ہوگیا،ان کی ننھیال کوحضرت شاہ عبد العزیز اور ان کے خاندان سے عقیدت مندانہ تعلق تھا، ان کا نام احمد بھی حضرت شاہ عبد العزیزؒ کا رکھا ہوا ہے، بسم اللہ بھی حضرت شاہ صاحب نے کرائی، سرسید اپنے والد کے ساتھ بہ کثرت حضرت شاہ صاحبؒ کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے، خود لکھتے ہیں‘‘میں ہر روز آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھاآپ اپنی شفقت اور محبت سے مجھے اپنے پاس مصلّے پر بٹھالیتے اور نہایت شفقت فرماتے، میں نے اپنے داد کو تونہیں دیکھا آپ ہی کو دادا حضرت کہا کرتا تھا، (آثار الصنادید بہ حوالہ موج کوثر ص: ۷۹) اِدھر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بہ غرض حصول علم حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے ساتھ دہلی چلے گئے، اور لگ بھگ سات سال تک دہلی میں فروکش رہ کر اپنے مشفق ومربی ومحسن استاذ سے علوم وفنون کی تکمیل کرتے رہے، یہاں تک کہ ۱۲۶۷ ھ میں حضرت مولانا مملوک علی وفات پا گئے، اس وقت حضرت شاہ اسحاق دہلویؒ بھی وفات پا چکے تھے، البتہ ان کے ایک تلمیذ رشید حضرت شاہ عبد الغنی مجددی حیات تھے، اور علم حدیث میں ان کا زبردست شہرہ تھا، اپنے استاذ کی وفات کے بعد حضرت مولانا نانوتویؒ نے تحصیل علوم حدیث کے لیے اپنے وقت کے اسی محدث جلیل کے سامنے زانوئے ادب طے کیا، گویا اپنے وقت کی ان دو عظیم شخصیتوں نے ایک ہی استاذ حضرت مولانا مملوک علی سے فیض اٹھایا، ایک ہی درسگاہ مدرسہ شاہ عبد العزیز کے طالب علم بنے، فرق اتنا ہے کہ سر سیدؒ نے حضرت شاہ اسحاق دہلویؒ سے براہِ راست استفادہ کیا، اور حضرت مولانا نانوتویؒ نے ان کے شاگرد حضرت شاہ عبد الغنی مجدد دہلویؒ سے فیض اٹھایا۔
تعلیم کے بعد ان دونوں شخصیتوں کے راستے جدا جدا ہوگئے، سر سیدانگریزی حکومت کے ملازم ہوکر دہلی کی منصفی پر مامور ہوئے، حضرت نانوتویؒ نے سترہ سال کی عمر میں علوم نقلیہ وعقلیہ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ذریعہ معاش کے طور پر مطبع احمدی دہلی میں تصحیح کتب کا مشغلہ اختیار کیا، اسی دوران انہوں نے بخاری شریف کے آخری چھ پاروں کے حواشی بھی تحریر کئے، یہ ۱۸۵۲ء؁ کا زمانہ ہے، اس وقت حضرت ناناتویؒ کی عمر زیادہ سے زیادہ اکیس برس تھی، اور سر سید پینتس برس کے ہوچکے تھے، دونوں کا قیام دہلی میں تھا، دونوں حضرات کُھلی آنکھوں شاہ جہاں آباد کی بربادی کا مشاہدہ کررہے تھے، دونوں کے دل اس بربادی سے غم زدہ تھے، دونوں مسلمانوں کی تباہ حالی پر آنسو بہانے پر مجبور تھے، دونوں ہی اپنی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے مگر اچانک ۷۵۸۱؁ء کی بغاوت شروع ہوگئی ۔
دہلی میں قیام کے دوران حضرت نانوتویؒ اپنے وطن نانوتہ تشریف لاتے رہتے تھے، ایک مرتبہ وطن آئے ہوئے تھے کہ انھیں میرٹھ میں فوجی بغاوت کی اطلاع ملی، اس بغاوت کا سبب چربی لگے ہوئے کارتوس تھے، ہندو فوجی اس لئے ناراض تھے کہ عیسائی حکومت انھیں گائے کی چربی لگے ہوئے کارتوس دے رہی ہے، مسلمان فوجی اس لئے برہم تھے کہ ان کو جو کارتوس فراہم کئے جارہے ہیں وہ خنزیر کی چربی سے آلودہ ہیں، ہندو اور مسلمان دونوں یہ سوچ رہے تھے کہ اس طرح عیسائی حکومت دونوں قوموں کا مذہب اور عقیدہ خراب کررہی ہے، یہ افواہ کیا پھیلی ، فوجی بیرکوں میں بغاوت پھیل گئی، ہندو اور مسلمان فوجیوں نے اپنے افسران کے خلاف بندوقیں اٹھالیں اور چھاؤنی کے ایک ایک افسر کو چن چن کر قتل کرڈالا، یہ مئی ۱۸۵۷ء کا واقعہ ہے، فوجیوں کی بغاوت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر جگہ بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے، مغربی یوپی کے اکثر شہر اس کی لپیٹ میں آگئے، تھانہ بھون جہاں حضرت نانوتویؒ کے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مقیم تھے انگریزوں کے خلاف جہاد کا مرکز بن گیا۔
علماء کی ایک بڑی جماعت جس میں حضرت نانوتویؒ پیش پیش تھے مسلمان مجاہد ین کی قیادت کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی، اسی دوران سقوط دہلی کی اطلاع ملی، مجبوراً ان مجاہدین کو بھی ہتھیار ڈالنے پڑے، شاملی کے جہاد کی وجہ سے تھانہ بھون انگریزوں کے عتاب کا نشانہ بنا، انھوں نے اس قصبے کو تباہ وبرباد کرڈالا۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی :۴؍ ۲۸۱) وہ علماء بھی انگریزوں کے عتاب کا نشانہ بنے جو اس جہاد میں شریک تھے چنانچہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اورحضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے اور مخبرین کے لئے گراں قدر انعامات کا اعلان کیاگیا۔ استخلاص وطن کے لیے جدو جہد اور قربانی کی راہ میں علمائے دیوبند نے جو سختیاں برداشت کیں ا وراذیتیں جھیلیں اس مختصر تحریر میں ان کا احاطہ مشکل ہے حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کی شکست نے مسلمانوں کو اس درجہ مایوس اورکم زور کردیاتھا کہ وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہوکر تن بہ تقدیر بیٹھ گئے تھے (علماء حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے :۱؍ ۴۹) اگر علمائے دیوبند بھی تن بہ تقدیر ہوکر بیٹھے رہتے تو بہت ممکن تھا کہ یہاں صرف نام کے مسلمان رہ جاتے اور اسلام رخصت ہوجاتا۔
۱۸۵۷ء کی شکست کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو زبردست نقصان پہنچایا، دہلی، آگرہ، لاہور، ملتان، لکھنؤ خیرآباد، بنگال، مدراس اوربہار وغیرہ کے ہزاروں مدارس ہندوستان کے سلاطین اور امراء کی وقف کردہ جائدادوں سے چل رہے تھے، مسلمانوں کی تعلیم کا دار ومدار ہی جائددادوں پر تھا، ۱۸۸۳ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے ان تمام اوقاف کو بہ حقِّ سرکار ضبط کرلیا، ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے بہ قول ’’مسلمانوں کے تعلیمی ادارے ۱۸؍ سال کی لوٹ کھسوٹ کے بعد یک قلم مٹ گئے۔ (ہمارے ہندوستانی مسلمان ص: ۲۰۰)
دوسری جگہ وہ صاف لفظوں میں اوقاف کی تباہی کا اعتراف کرتاہے مسلمانوں کے اس الزام کا جواب نہیں دیاجاسکتا کہ ہم نے ان کے تعلیمی اوقاف کا ناجائز استعمال کیا، اس حقیقت کو چھپانے سے کیا فائدہ ؟ اگر ہم اس جائداد کو جو صرف اسی مصرف کے لئے ہمارے قبضے میں دی گئی تھی ٹھیک ٹھیک استعمال کرتے تو بنگال میں آج بھی ان کے پاس اعلا اور شان دار ادارے موجود ہوتے (حوالہ سابق ص: ۲۰۷)اس زمانے کی تعلیمی حالت کا ا ندازہ گاندھی جی کی اس تقریر سے بھی لگایا جاسکتاہے جس میں انھوں نے کہا تھا ’’ برٹش گورنمنٹ سے قبل ملک میں ۳۰؍ ہزار ادارے تھے جن میں دو لاکھ طلبہ تعلیم پاتے تھے، آج حکومت دفتری بہ مشکل چھ ہزار مدرسوں کا حوالہ دے سکتی ہے (اخبار مسافر آگرہ ۳؍ دسمبر ۱۹۲۰ء ) ایک طرف مسلمانوں کی مذہبی تعلیم پر کاری ضرب لگائی گئی اورمدارس کے سلسلے کو مٹاکر رکھ دیا گیا، دوسری طرف ملک میں ایسی تعلیم رائج کی گئی جو اپنے نتائج کے اعتبار سے اسلام اورمسلمانوں کے لئے سخت نقصان دہ تھی، سرکاری تعلیم گاہیں در اصل وہ کارخانے تھے جہاں سے مسلمان بچے الحاد اورلادینیت کے سانچوں میں ڈھل ڈھل کر نکلتے تھے لارڈولیم بنٹنک ( ۱۸۲۸ء؍ ۱۸۳۰ء) کے عہد حکومت میں جب وسیع پیمانے پر سرکاری مدارس قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو شروع میں انگریز وں کا خیال تھا کہ یہ تعلیم مشرقی زبانوں میں ہونی چاہیئے، لیکن انگریزوں کے انتہا پسند طبقوں نے جن میں پادری بھی شامل تھے اس کی مخالفت کی اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم قرار دینے پر زور دیا ان کا یہ مطالبہ منظور کیاگیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ ہندوستان کے مسلمان اور ہندو عیسائیت سے قریب تر ہونے لگے، فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی نے یہ بات تسلیم کرتے ہوئے اپنے خطبات میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’ ہندوستان میں یورپین علوم کا جس قدر چرچا بڑھتا جاتاہے اسی قدر وہ ہماری تہذیب وتمدن اور ہمارے اصول مذہبی سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں۔ (ترجمہ خطبات گارساں دتاسی از ڈاکٹر حمیداللہ ص: ۳۷۸)
انڈیا کی سپریم کونسل کے ایک اہم رکن سرچار لس نے جو گورنر کے اہم منصب پر فائز تھے ایک مرتبہ کہا کہ: ’’ میں یہ ا مید قائم کئے ہوئے تھا کہ جس طرح ہمارے لوگ کُل کے کُل ایک ساتھ عیسائی ہوگئے تھے اسی طرح یہاں ( ہندوستان میں) بھی ایک ساتھ عیسائی ہوجائیں گے‘‘ (مسلمانوں کا روشن مستقبل ص: ۱۴۳) برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر مسٹر مینگلس نے ۱۸۵۷ء میں دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ ہر شخص کو اپنی تمام ترقوت ہندوسان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہیے‘‘۔ (حکومت خود اختیاری ص: ۱۳۶)
انگریز سمجھتے تھے کہ جب تک مسلمان قرآن کریم پڑھتے رہیں گے اورجب تک وہ شریعت کے اس سرچشمے سے سیراب ہوتے رہیںگے اس وقت تک انگریز ملک پر پوری طرح غالب نہیں آسکتے، چنانچہ برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم گیڈ اسٹون نے مجمع عام میں قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر کہا کہ:
’’ جب تک یہ کتاب دنیا میں باقی ہے دنیا متمدن اور مہذب نہیں ہوسکتی‘‘ ۔ (شیخ الاسلام کا خطبۂ صدارت ص: ۱۵ پچاس سالہ اجلاس عام آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ)
انگریز یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ مسلمان قرآن کریم پر مکمل یقین رکھتے ہیں اورجب تک وہ اس کتاب سے وابستہ رہیںگے کسی انگریز حکومت کے وفادار نہیںہوسکتے، چنانچہ ہنری طامس کہتا ہے کہ:
’’ مسلمان کسی ایسی گورنمنٹ کے جس کا مذہب دوسرا ہو اچھی رعایا نہیں ہوسکتے اس لئے کہ قرآنی احکام کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں ہے۔ ‘‘ (حکومت خود اختیاری ص: ۵۵)
لارڈ میکالے نے اپنے عزائم مخفی نہیں رکھے اورصاف صاف لفظوں میں یہ اعلان کیا کہ:
’’ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان پیدا کرنا ہے جو رنگ ونسل کے اعتبارسے ہندوستانی ہوں اور دل ودماغ کے اعتبار سے فرنگی ‘‘۔ (بحوالہ ٔ مدینۂ بجنور ۲۸؍ فروری ۱۹۲۷ء)
ایک طرف علماء کو پھانسی کی سزا دی جارہی تھی اورایک ایک وقت میں کئی کئی سو علماء کو تختۂ دار پر چڑھایا جارہا تھا، انھیں پابند سلاسل کیا جارہا تھا یا جلاوطنی پر مجبور کیا جارہاتھا، دوسری طرف عیسائی مشنریز ملک کے طول وعرض میں اپنا جال پھیلارہی تھیں اور کوشش کی جارہی تھی کہ ہندوستان پر عیسائیت کا جھنڈا بلند کردیا جائے اور یہ امر یقینی بنادیا جائے کہ اس ملک کا ہر شہری عیسائی ہو، اس کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے گئے، مسلمانوں کو عیسائی بننے کی صورت میں ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا گیا،جو لوگ سالہا سال کی جنگ اوربدامنی کے نتیجے میں غریبی کی سطح سے نیچے جاچکے تھے انھیں ڈیڑھ آنہ یومیہ یا ڈیڑھ سیر اناج دے کر عیسائی بننے پر مجبور کیاگیا،بہ قول سرسید ’’غریب آدمی کے لئے یہ اتنی بڑی دولت تھی کہ وہ اس کے عوض بہ خوشی اپنی گردن کٹوانے پر تیار ہوجاتا تھا‘‘ (اسباب بغاوت ہند ص: ۴۰) جولوگ ملازمتوں اورمال ودولت کے جھانسے میں نہیں آتے تھے ان کے لیے یہ انتظام کیاگیا کہ عیسائی پادریوں اور مبلغوں کو اسلام کے خلاف زہر اگلنے اوراپنی جارحانہ تقریروں سے مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی، برطانیہ کی پارلیمنٹ نے طے کیا کہ ہندوستان میں اعلامناصب پر ایسے پادریوں یا عالموں کو مقرر کیاجائے جو مناظروں سے دلچسپی رکھتے ہوں اوراپنے فرائض منصبی کے علاوہ عیسائیت کی تبلیغ بھی کرسکیں، چنانچہ گورنری اوردوسرے عہدوں پر ایسے لوگ مقرر کئے گئے جنھوں نے اسلام کے خلاف دل آزار کتابیں لکھیں اوراپنی نگرانی وسرپرستی میں اسلام اورعیسائیت کے خلاف مناظرے کرائے عیسائی مبلغوں کو اس حد تک چھوٹ دی گئی کہ وہ بازاروں میں، مسجدوں کے دروازوں پر، اور ایسی جگہوں پر جہاں عام مسلمان اٹھتے بیٹھتے ہوں عیسائیت کی تبلیغ کریں اور اسلام کے خلاف زہر پھیلائیں۔
بلا شبہ عیسائی مبلغین نے اپنی جدوجہد میں ہندوستانی مسلمانوں کے نامساعد حالات، جہالت، غربت، اور اقتدار سے محرومی وغیرہ کی بناپر عیسائیت کی تبلیغ میں کامیابی حاصل کی، چنانچہ مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی لکھتاہے ’’ انگریزی مشن جو ہندوستان میں کام کررہے ہیں انھیں خوب کام یابی مل رہی ہے، ہرروز اینگلوانڈین کلب کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے، ( خطبات گارساں دتاسی ترجمہ ڈاکٹر حمیداللہ : ۱؍ ۳۰۳) ایک جگہ لکھتاہے: ’’ ہندوستان میں تبلیغ عیسائیت کو جو کامیابی حاصل ہورہی ہے اس میں شبہے کی گنجائش نہیں ہے، اس سے ہر عیسائی کو خوش ہونا چاہئے۔ ‘‘ (حوالۂ سابق :۱؍ ۳۷۸)
اس سخت اور جاں گسل صورت حال میں حضرت مولانا نانوتویؒ اوران کے رفقائے کرام کے سامنے ایک اہم سوال آیا اوریہ سوال ان کی فکری بصیرت کا ا متحان تھا سوال یہ تھا کہ جو مذہب ایک ہزار برس تک اس ملک کے ہر شعبۂ زندگی پر چھایا رہا جس ملک کی زلف سنوارنے میں ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے عمر بھر جدو جہد کی جس ملک نے صدیوں اسلام اور اسلامی علوم کی خدمت انجام دی، ان میں اضافے کئے لا تعداد دانش گاہیں قائم کیں،دینی درسگاہیں بنائیں، کیا یہ ملک مسلمانوں کے لیے اجنبی ہوجائے؟ اس سوال نے حضرت نانوتویؒ اوران کے رفقاء کے ذہن وفکر کو متاثر کیا، ۵۷ء کی شکست نے یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا تھا کہ ہم اپنی آزادی فنا کرچکے ہیں او رایک ایسی قوم کو ہم پر مسلط کردیا گیا ہے، جو ہماری سیاست پر ہی اثر انداز نہیں ہوگی بلکہ ہمارے مذہب پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوںگے، ہماری تعلیم بھی متاثر ہوگی، ہمارے سوچنے کے ڈھنگ میں بھی تبدیلی آئے گی، عام ذہنوں میں یہ احساس جاگزیں ہوچکا تھا کہ ہم ایک شکست یافتہ قوم ہیں، تنزل نصیب ہیں ہمیں اب مفتوح کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے، فاتح کی حیثیت سے نہیں، اس احساس نے وقت کا اہم سوال پیدا کیا، کیا ہم اپنے آپ کو اس قوم کے حوالے کردیں، اپنی تہذیب ثقافت اور تعلیم کو اس اجنبی قوم کی تہذیب، ثقافت اورتعلیم میں تحلیل کردیں ضرورت تھی کہ کوئی مرد خدا کھڑا ہو اوراپنی فکر ی بصیرت سے اس سوال کا جواب ڈھونڈے اوراس مسئلے کا حل سوچے، اوراسلام اورمسلمانوں کے تحفظ کے لئے سامنے آئے۔
یہ ایک پیچیدہ اور الجھا ہوا سوال تھا، شکست خوردہ قوم سر اٹھانے کے قابل بھی نہ تھی چہ جائے کہ وہ کچھ سوچ سکے، یا کوئی اقدام کرسکے، ۵۷ء کی بربادی پر چند ہی سال گزرے تھے اور اس کے لرزہ خیز مناظر دیکھنے والے بہ قید حیات تھے۔
اس مسئلے کے دو حل سوچے گئے ، ایک علی گڑھ میں جو زمانی اعتبار سے مؤخر ہے مگر ہم اس کو پہلے ذکر کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا دیوبند میں ، علی گڑھ میں جو حل سوچا گیا اس کا ماحصل یہ تھا کہ ہم پر ایک قوم تسلط حاصل کرچکی ہے، دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے حاکم کے علوم اور اس کی زبان سیکھیں تاکہ اجنبیت کی یہ خلیج پٹ سکے، اسی طرز فکر نے اس دانش گاہ کی بنیاد رکھوائی جسے ابتدا میں مدرسۃ العلوم کہا جاتا تھا اور آج مسلم یونیورسٹی علی گڑ ھ کہا جاتاہے ، سر سید مرحوم نے ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس منعقدہ ۱۸۸۶ء علی گڑھ میں فرمایا تھا:
’’ اس وقت ہمیں ضرورت ہے کہ جس قدر ہوسکے ایک کثیر تعداد میں ایسے نوجوانوں کو پیدا کریں جوان علوم میں جو زمانے کی حاجتوں کے لئے ضروری ہیں سر بر آور دہ ہوں۔‘‘ (روداد ایجوکیشنل کانفرنس ۱۸۸۶ء علی گڑھ)
سرسید مرحوم برٹش گورنمنٹ کے ملازم تھے اور اس حکومت کے لئے اپنے دل میں نرم گوشتہ رکھتے تھے، بلک کسی حد تک ان کی تہذیب سے متأثر بلکہ مداح بھی تھے جیسا کہ گارساں دتاسی نے اپنے ایک لکچر میں لکھا ’’ہندوستانی مسلمانوں میں ایک جماعت ایسی ہے جو مسیحی مذہب کی خوبیوں کو ا پنے مذہب مین سمورہی ہے، اس جماعت کے اصل لیڈر سید احمد خاں ہیں جو غازی پور میں ہیں‘‘ (خطبات گارساں دتاسی ج: ۱؍ ۴۱۸) اس میں شک نہیں کہ سرسید اپنی قوم کے تئیں مخلص ، اوران کی اصلاح وبقا کے لئے پُر جوش تھے، مگر وہ مذہب کے بجائے شخص کا تحفظ کرنا چاہتے تھے، ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ مسلمان ایک مفتوح اور شکست خوردہ قوم ہے، اسے فاتح قوم کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چاہئے اوراپنی وفاداری سے اس کا دل جیتنا چاہیے، ان کا خیال تھا کہ مسلمان پرانے علوم ترک کریں، نئے علوم حاصل کریں، پرانی روایت چھوڑیں ، نئی تہذیب اختیار کریں پستی سے بلندی کی سطح تک پہنچنے کے لئے او رمعاشی تفوق حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جدید تعلیم حاصل کی جائے اور خود کو جدید تہذیب کے سانچے میں ڈھالا جائے، سرسید اس نقطۂ نگاہ کی تبلیغ میں اس قدر پر جوش تھے کہ انھوں نے اپنے خیالات کی تائید کے لئے قرآن وحدیث سے استدلال میں جرأت بے جا کا مظاہر شروع کردیا اس کا بہت کچھ اندازہ ان کے ان مضامین ومقالات سے ہوتاہے جوماہ نامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے صفحات پر بکھرے ہوئے ہیں۔
سرسید مرحوم نے انگریزوں کے تئیں اپنی خدمات سے حکومت وقت کا جو اعتماد حاصل کرلیا تھا اس سے انھیں اپنے کام میں بڑی مدد ملی، شخصی طورپر بھی وہ اعزاز واکرام سے نوازے گئے، یہاں تک کہ ’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر انھوں نے جس جرأت کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی ان کی توقیر کم نہ کرسکی بلکہ انگریزوں نے اس کتاب کو ایک مخلص کے خیالات سمجھ کر بڑی اہمیت دی، اوراس سے ان کی قدر ومنزلت میں بڑا اضافہ ہوا، یہ تھا سرسید ؒ کا نظریہ جو دارالعلوم کی تاسیس کے بعد ۱۸۷۷ء میں علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی تاسیس کا سبب بنا۔
دیوبند میں جو حل تجویز ہوا اس کا ما حصل یہ تھا کہ ہمیں حاکم وقت کی زبان اوراس کے علوم کے بجائے اپنے دینی علوم کی بقا اورتحفظ کے لئے کوشش کرنی چاہئے یہی فکر دارالعلوم کی بنیاد کا سبب بنا، دارالعلوم کے بانیوں کا مقصد اسلام کی حفاظت کے لئے مضبوط اور مستحکم قلعوں کی تعمیر کرنا تھا تاکہ اسلام کو ہر خطرے سے بچایا جاسکے اورجو چراغ ہزار برس تک اس ملک میں جلتا رہا وہ لادینیت کی تیز ہوائوں سے گل نہ ہونے پائے، قوم کے نونہال الحاد اور تشکیک کے کارخانوں میں جانے کے بجائے ان اداروں میں پلیں، بڑھیں اور پروان چڑھیں جہاں ان کو ان کے مذہب کے سانچے میں ڈھالا جاسکے، ان کا دل، ان کا دماغ، ان کا کردار سب کچھ اسلام کے مطابق بنایا جاسکے، حضرت نانوتویؒ اور ان کے رفقاء نے اپنی ایمانی بصیرت سے اندازہ کرلیا تھا کہ اگر ان حالات میں مسلمانوں کے دین اور ایمان کی حفاظت اورتعلیم وتربیت کا کوئی انتظام نہ ہوا تو اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ کہیں مسلمان عیسائیت کے فریب میں نہ آجائیں اورخدا نخواستہ ایمان کی دولت سے محروم نہ ہوجائیں، ان کی فراست ایمانی نے محسوس کرلیا تھا کہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ دین کا تحفظ ہے، خواہ اس کے لئے کتنے ہی افراد کیوں نہ کام آجائیں، اور خواہ اقتصادی اورمعاشی میدانوں میں ہم کتنے ہی پیچھے کیوں نہ ہوجائیں۔
مجموعی طورپر دیوبند تحریک نے اس وقت کے مایوس کن حالات میں امیدوں کے چراغ جلائے اور اس خوف ناک ماحول مین دینی جدو جہد کا آغاز کیا جس نے مسلمانوں کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور بہت سے لوگ حالات کے ساتھ مصالحت بلکہ حالات کے آگے سرجھکا نے پر زور دینے لگے تھے، دیوبند نے ان حالات کا رُخ موڑا اور ہندوستان کے مایوس و مجبور مسلمانوں کی رگوں میں زندگی کا خون دوڑایا، ان کے بے جان جسموں میں عزائم کی روح پھونکی، اور اس طرح اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں پر سخت پہرے بٹھادیئے، حجاز مقدس میں جب دارالعلوم کے قیام کی اطلاع حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو دی گئی تو ان کی زبان سے بے ساختہ یہ دعا نکلی ’’اے اللہ اس ادارے کو اسلام اور علم دین کی حفاظت کا ذریعہ بنا‘‘۔
nadimulwajidi@gmail.com