خاص مضمون
مولانا اسرار الحق قاسمی
ٓؑ ’’اسلامی قوانین کی رو سے اگر مسلمان مرد بیک وقت چار شادیاں کرکے چار بیویاں رکھ سکتے ہیں تو مسلم خواتین کو بھی ایک ہی وقت میں چار شوہر رکھنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ مذہبی قائدین کو اس(ناانصافی) کا جائزہ لیناچاہئے اور مسلم معاشرہ میں خواتین کو بھی ایک ہی وقت میں چار شوہر رکھنے کی اجازت دینی چاہئے۔‘‘
آجکل ہمارے ملک میں جو حالات ہیں‘ اسلام اور مسلمانوں اور انکے عائلی قوانین پر جس طرح حملے ہو رہے ہیں ‘ انکی روشنی میں فوری طور پر یہی خیال آتا ہیکہ یہ بیہودہ‘ احمقانہ‘ غیر عملی‘قابل مذمت‘ قابل اعتراض اور شیطانی رائے کسی ناخواندہ اور اسلام ومسلم دشمن شخص کی ہوگی۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہی کہ اس رائے کا اظہار کیرالہ ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے کیا ہے۔ اورمزید صدمے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان جج صاحب کا نام نامی جسٹس بی کمال پاشا ہے جوظاہر ہے کہ کسی مسلمان شخص کا ہی نام ہو سکتا ہے۔
کیرالہ کے کوزی کوڈ میں خواتین وکلاء کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے زیر اہتمام حقوق نسواں کے موضوع پر منعقد ایک سمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے جسٹس پاشا نے مزید کہا کہ مسلم پرسنل لاء بری طرح خواتین کے خلاف ہے ۔خواتین کو مردوں کے مساوی اختیارات نہیں دئے گئے ہیں۔ جائیداد اور دیگر ایشوز میں انکی حق تلفی کی گئی ہے۔ انہوں نے علما ء پر الزام عائد کیا کہ وہ مردوں کی برتری قائم رکھنے کے لئے ان تمام قوانین کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جن سے خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی مسلم پرسنل لا ء میں مداخلت کرنے سے ہچکچاتی ہے۔لہٰذا خواتین کو خود آگے آکر اس ناانصافی کو ختم کرنے کی لڑائی لڑنی ہوگی۔
جسٹس پاشا نے تعلیم یافتہ اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایسی باتیں کیوں کیں؟ اسلام نے ایک ہی وقت میں مردوں کوچار بیویاں رکھنے کی اجازت تو دی ہے لیکن عورتوں کو چار شوہر رکھنے سے منع کیا ہے۔اسکے پیچھے کیا اسباب ہیں‘ میں نہیں سمجھتا کہ جسٹس صاحب اس سے واقف نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ باتیں کی ہیں تو اسکے پیچھے انکے کیا مقاصد رہے ہوں گے‘ کیا وہ خود کو حد سے زیادہ سیکولر ثابت کرنا چاہ رہے تھے‘مسلمانوں اور اسلام پر لعن طعن کرکے غیر مسلموں کی نظروں میں سرخرو ہونا چاہ رہے تھے ‘ یا کوئی اور اونچا مرتبہ اور مقام حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے‘ وہی بہتر جانتے ہوں گے‘ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ اسلام جیسے دین فطرت کو ‘جس نے عورتوں کو انکے ہر روپ میں بے انتہا وقار‘ مرتبہ اور مقام بخشا ہے‘ اسے بدنام کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی۔
اسلام وہ دین ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پیدائش سے لیکر موت تک ‘ اپنی ذات سے لیکر خاندان اور سماج تک اورعبادت سے لیکر سیاست تک ایک ایک امر کی وضاحت کی گئی ہے اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے جس کے متعلق واضح ہدایات موجود نہیں ہیں۔اسلام کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہب میں مرد یا عورت ایک شادی کریں یا ایک سے زیادہ کریں تو کتنی شادیاں کریں ‘ اسکی وضاحت تو دور اس سلسلے میں کوئی اشارہ بھی نہیں دیا گیا ہے۔ کسی مذہب یا کسیِ شخصیت پر انگشت نمائی مقصود نہیں لیکن اس بات کے تذکرے موجود ہیں کسی ایک راجا کے کئی کئی بیویاں تھیں یا کسی ایک خاتون کے کئی شوہر۔ اسلام نے مردوں کوایک وقت میں ایک ہی شادی کی اجازت دی ہے لیکن ساتھ ہی ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی بھی مشروط اجازت دی ہے۔ اگر استطاعت ہو اور سبھی بیویوں کے ساتھ ہر اعتبار سے یکساں سلوک روا رکھنے میں کسی کوتاہی کا امکان نہ ہو تبھی ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ اگر عورتوں کو بھی ایک وقت میں کئی شوہر رکھنے کی اجازت ہو تو اسکے جو نتائج ہوں گے انہیں ہر ذی شعور شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ عورتوں کو صنف نازک کہا گیا ہے۔ انکی جسمانی نزاکت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ کئی مردوں کی جنسی آسودگی کی ذمہ داری نبھا سکیں۔ دوسرے یہ کہ نکاح کے سبب ایک سے زائد مرد ایک ہی وقت میں اپنی بیوی سے رشتہ قائم کرنے کے خواہشمند ہو سکتے ہیں جو ممکن نہیں البتہ اس وجہ سے لڑائی جھگڑا ہی نہیں بلکہ قتل و غارتگری تک بات پہنچ سکتی ہے۔ پھر کئی مردوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اولاد کس کی مانی جائے گی‘ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔
دراصل اسلام کی حقانیت‘ ہمہ گیریت اور آفاقیت کی وجہ سے دیگر مذاہب کے لوگوں میں کافی حسد پایا جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کوئی ایسا نظام پیش کیا جائے کہ جس سے اسلامی اصول زیر ہو جائیں ۔ اسکے لئے انہوں نے اپنے مذہب اور معاشرہ میں خواتین کو نام نہاد طور پر آزادی دی اور انہیں محفوظ گھروں سے نکال کرغیر محفوظ بازاروں اور دفتروں کی رونق بنا دیا۔ اس سے گھروں کا بھی نظام بگڑا ‘ نئی نسلوں کی پرورش پر بھی اثر پڑا اور بازاروں اور دفتروں میں بھی ماحول خراب ہوا۔اس میں نقصان سراسر خواتین کا ہی ہوتا ہے۔ اور ایک خاتون کو ہونے والا نقصان پورے معاشرہ کو نقصان پہنچاتا ہے۔
اسلام سے بغض کی وجہ یہ بھی ہیکہ اسے بدنام کرنے اور اسکی تعلیمات کو دہشت گردی سے جوڑنے کی تمامتر کوششوں کے باوجود آج مغرب میں سب سے تیزی سے پھلنے پھولنے والا مذہب کوئی اور نہیں بلکہ اسلام ہی ہے۔ اسلام قبول کرنے والے مغرب کے اکثر لوگ جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں زیادہ تر تعلیم یافتہ لوگ ہیں جنہوں نے مکمل آگاہی حاصل کرنے اور اسکی حقانیت سے روبرو ہونے کے بعد ہی اور دیگر مذاہب عالم سے تقابل کے بعد ہی اسلام کے گوشہء عافیت میں پناہ لی ہے۔
یہ الزام بھی بے بنیاد ہے کہ مسلمان مرد ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔ ہندوستانی سماج کا ہی ذکر کریں تو ماضی قریب کے کئی جائزوں اور رپورٹوں سے یہ منکشف ہو چکا ہے کہ ہندوؤں میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی شرح مسلمانوں کے مقابلے زیادہ رہی ہے اس حقیقت کے باوجودکہ ہندو دھرم اسکی اجازت نہیں دیتا۔ بہتر ہوتا اگر جسٹس پاشا اعداد و شمار اور اسلام کے تھوڑے سے مطالعہ کے بعد کوئی رائے قائم کرتے۔ابھی انہوں نے جو رائے پیش کی ہے وہ صرف ان لوگوں کو ایک ہتھیار فراہم رتی ہے جن کی واحد فکر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ہوتی ہے۔ مسلمانوں جیسے نام کے ایک تعلیمیافتہ اور جسٹس جیسے باوقار عہدے پر مامور ایک شخص نے ہندوستان میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی وکالت کی ہے‘اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں کے لئے اس سے اچھی خبر بھلا کیا ہو سکتی ہے۔
(مضمون نگار ممبرپارلیمنٹ اورآل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)