خبر در خبر ( 528)
شمس تبریز قاسمی
8 نومبر 2016 کی شام میں دہلی کے ہولی فیملی ہسپتال میں ایک مریض کی عیادت کرنے گیا ہوا تھا، وہیں پر ہمارے ایک دوست محمد آفاق نے یہ کہاکہ شمس بھائی کل سے 500 اور 1000 کے نوٹ نہیں چلیں گے، حکومت نے پابندی عائد کردی ہے ، میں نے اس کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے ان کی تردید کرتے ہوئے کہا یہ کیا بیوقوفانہ مذاق کررہے ہیں، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کیا کہ حکومت اطلاع دیئے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھالے گی، پتہ نہیں کیسی خبرپر آپ یقین کرلیتے ہیں ، یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ ایک اور صاحب آکر یہی کہنے لگے کہ ٹی وی پر نوٹ بندی کی خبر آرہی ہے ، پھر میں نے گوگل کیا اور یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 8 نومبر 2016 کی رات آٹھ بجے پہلے سے کسی طے شدہ پروگرام کے بغیر ٹی وی پر آکر یہ اعلان کیاکہ آج رات بارہ بجے سے 500 اور 1000 کے نوٹ غیر قانونی ہوں گے ، اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکرے سے زیادہ نہیں ہوگی ، اگلے دو دنوں تک تمام بینک بند رہیں گے ، 11 نومبر سے 500 اور 2000 کا نیا نوٹ بینکوں سے ملے گا اور پرانے نوٹوں کو وہیں جمع کرنا پڑے گا۔
نوٹ بندی کی یہ خبر ہندوستانیوں کیلئے کسی قیامت سے کم نہیں تھی ، جس کے گوش سماعت سے یہ خبر ٹکرائی ہے اس پر بیہوشی طاری ہوگئی ، کسی کو اول مرحلہ میں یقین نہیں آیا تو کسی نے اسے پاگل پن اور ہندوستان کی تاریخ سب سے گھٹیا ، برا اور منحوس فیصلہ قرار دیا ۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کہتے ہیں کہ جب نوٹ بندی کی اطلاع میں نے فون کرکے سابق وزیر اعظم اور ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کو دی تو دو منٹ تک وہ بالکل خاموش رہے ، پھر لرکھڑاتی زبان سے گویا ہوئے کہ یہ کیا کردیا ان لوگوں نے، ماہر معاشیات نے نوٹ بندی کے سلسلے میں یہ پیشن گوئی کردی کہ اس نوٹ بندی سے ہندوستانی معیشت کو شدید نقصان پہونچے گا اور ملک کی جی ڈی پی میں دو فیصد تک گرواٹ آسکتی ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی یہ بات سچ ثابت ہوئی اور آج ملک کی مجموعی پیداوار میں دو فیصد کی گرواٹ آچکی ہے ۔ جی ڈی پی کی شرح اب 8 کے بجائے 6 ہوگئی ہے۔ دنیا بھر کے ماہر معاشیات نے بھی اسے غلط قدم اور ہندوستانی معیشت کیلئے مضر بتایا، سپریم کورٹ نے بھی اس پر شدید تنقید کی۔
وزیر اعظم نے نوٹ بندی کے فوائد بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا پہلا مقصد بلیک منی کا خاتمہ ہے ، اس کے علاوہ جعلی نوٹوں پر قابو پانا ، دہشت گردی کا خاتمہ، نکسلواد کی کمر توڑنا جیسے مقاصد نوٹ بندی کے فیصلے سے پورے ہوں گے ۔ آج ایک سال مکمل ہونے کے بعد تمام رپوٹس، سروے اور تجزیے نے حکومت کے ان دعووں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے اور اتنے بڑے اقدام کو پاگل پن سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
جس وقت نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت آر بی آئی کی رپوٹ کے مطابق مارکیٹ میں 16.41 ٹریلین کی مالیت (260 بلین ڈالر) کے نوٹ گردش کررہے تھے ، جس میں تقریباً 86 فیصد سے زائد نوٹس 500 اور 1000 کے تھے جس کی مالیت 15.5 ٹریلین ہوتی ہے ۔حکومت کا اندازہ تھا کہ نوٹ بندی کے سبب کم و بیش تین ٹریلین کی مالیت کے نوٹ بینکوں میں جمع نہیں ہوں گے اور اس طرح بلیک منی کا پردہ فاش ہوگا لیکن اکتوبر 2017 میں آربی آئی سے جاری ہونے والی سالانہ رپوٹ نے حکومت کے سارے منصوبہ پر پانی پھیر دیا ہے اور تمام رقم بینکوں میں جمع ہوکر سفید ہوچکی ہے۔ آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 98.96 فیصد 500 اور 1000 کے پرانے نوٹ بینکوں میں واپس آچکے ہیں جس کی مالیت 14.97 ٹریلین (220 ڈالر ) ہوتی ہے ۔
نوٹ بندی کا اصل مقصد بلیک منی پر قابو پانا تھا جس میں ذرہ برابر بھی کوئی کامیابی نہیں مل سکی ، دہشت گردی کے واقعات میں بھی کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوا ہے، رپوٹ کے مطابق یوپی اے کے دس سالہ دور اقتدار میں جتنے جوان سرحد پر شہید ہوئے ہیں اس سے زیادہ مودی سرکار کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں جوان شہید ہوچکے ہیں ، نوٹ بندی کے سال میں بھی جوانوں کی شہادت کا سلسلہ کم نہیں ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے آج نوٹ بندی کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے جو اشتہار جاری کیا ہے اس میں جوانوں کی شہادت اور سرحد پر ہونے والی دراندازی میں کمی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے البتہ یہ دعوی ضرور کیا گیا ہے کہ پتھر بازوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ، تعجب کے بات یہ ہے کہ نوٹ بندی کے فوراً بعد کشمیر میں ایک درانداز کے پاس سے 2000 کے نئے نوٹ بر آمد ہوئے تھے ۔نکسل واد پر بھی نوٹ بندی کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے، خود حکومت کا دعوی ہے کہ صرف 20 کمی واقع ہوئی ہے جبکہ نکسلیوں کی کمر ٹوٹ جانی چاہیئے ۔
نوٹ بندی کا ایک مقصد نقلی نوٹ پر قابو پانا تھا لیکن حکومت اس مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ آر بی آئی کی رپوٹ کے مطابق 16-2015 میں500 کے 1646 کروڑ اصلی نوٹ اور 100 کے 1642 کروڑ اصلی نوٹ بازار میںگردش کررہے تھے ،اسی سال میں100 کے 35 فیصد، 500 کے 415نوٹ اور بقیہ 1000 کے نقلی نوٹ پکڑے گئے۔ آر بی آئی کی حالیہ رپوٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں مالی سال 2017 میں نقلی نوٹوں کی پہچان 20.4 فیصد سے زیادہ ہوئی ہے اور نقلی نوٹوں کی کل قیمت 42 کروڑ روپے کے برابر پہونچ گئی ہے جس سے پتہ چل رہاہے کہ پرانے نوٹوں کے مقابلے میں نئے نوٹ نقلی بن کر مارکیٹ میں زیادہ گردش کررہے ہیں اور نقلی نوٹوں پر قابو پانے کا یہ طریقہ کسی طرح درست ثابت نہیں ہوا۔
نوٹ بندی کیوں کی گئی تھی، کس مقصد کے تحت کی گئی تھی اب تک ہندوستانی عوام کو اس کا صحیح اندازہ نہیں لگ سکاہے ،جو مقاصد بتائے گئے تھے ان میں ذرہ برابر بھی کوئی کامیابی نہیں ملی ، عوام کو جگہ جگہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ، سو سے زیاد ہ لوگوں جانیں بینکوں کی قطار میں چلی گئیں ، کتنی لڑکیوں کی شادی رک گئیں ، کئی نے اس نوٹ بندی کے سبب شادی میں رکاوٹ آنے سے خود کشی کرلی۔ ایک مقصد ہندوستان کو کیش لیس سوسائٹی میں تبدیل کرنا بتایا گیا تھا لیکن اس میں بھی کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے اور معاملہ جوں کا توں برقرار ہے ۔ خود 2014 میں بی جے پی کی ترجمان میناکشی لیکھی نے نوٹ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے فیصلوں کی وجہ سے دیہاتوں اور دور دراز کے علاقوں میں رہنے والوں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حکومت کا دعوی ہے کہ نوٹ بندی کی اطلاع وزیر اعظم ،وزیر خزانہ ، آر بی آئی گورنر اور چند اہم افسران کے علاوہ کسی کو نہیں تھی لیکن دینک جاگرن، دی ہندو وغیرہ میں اس سلسلے کی کچھ خبر 8 نومبر 2016 سے پہلے شائع ہوچکی تھی ،بنگال میں ایک بی جے پی لیڈر نے نوٹ بندی کے اعلان سے ایک روز قبل بڑی رقم بینک میں جمع کی تھی ، پنجا ب میں بھی ایک بی جے پی لیڈر کے پاس 2000 کے نوٹ بر آمد ہوئے تھے ، یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے نوٹ بندی کی اطلاع امبانی ، اڈانی سمیت کئی بڑے تاجر طبقہ کو دے دی گئی تھی۔
اسی تحریر میں ہم نوٹ بندی کے تعلق سے ایک سروے بھی پیش کررہے ہیں جس میں عوامی رائے جاننے کی کوشش کی گئی تھی۔
سماجی تنظیم ”انہد “کی قیادت میں ملک کی 21 ریاستوں میں 3647 لوگوں کے سروے کے دوران نوٹ بندی سے متعلق 96 سوال پوچھے گئے تھے۔ معروف سماجی کارکن جان دیال، گوہر راجہ، سبودھ موہنتی اور شبنم ہاشمی نے آج یہاں یہ رپورٹ جاری کیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ صرف 26.6 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ نوٹ بندی سے کالے دھن کا خاتمہ ہوا ہے جبکہ 55.4 فیصد لوگ مانتے ہیں کہ کالا دھن گرفت سے باہر رہا اور اس پر کوئی شکنجہ نہیں لگایا جا سکا ، جبکہ 17.5 فیصد لوگوں نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی طرح صرف 26.3 فیصد لوگوں نے مانا کہ نوٹ بندی سے دہشت گردی ختم ہوئی،جبکہ 25.3 فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 33.2 فیصد نے مانا کہ اس سے دراندازی کم ہوئی ہے ، جبکہ 45.4 نے مانا کہ سرحد وں میں دراندازی کم نہیں ہوئی جبکہ 22 فیصد لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ رپورٹ کے مطابق 48.6 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ کیش لیس معیشت کا معاشرہ بنانے کا جھانسہ دینے کے لئے نوٹ بندی کی گئی جبکہ 34.2 فیصد لوگوں نے کہا کہ کیش لیس معیشت اچھی بات ہے اور حکومت نے اس سمت میں قدم اٹھایا ہے جبکہ صرف 17 فیصد لوگوں نے مانا کہ اقتصادیات کو غیر نقدی بنانے کے لئے ہی نوٹ بندی کی گئی تھی۔ سروے میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ صرف 6.7 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی سے عام لوگوں کو فائدہ ہوا جبکہ 60 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے کارپوریٹ سیکٹر ہی کو فائدہ ہوا جبکہ 26.7 فیصد کی نظر میں نوٹ بند ی سے سر کار کو فائدہ ہوا۔ سروے میں 65 فیصد لوگوں نے سمجھا کہ نوٹ بندی کے دوران امیر لوگ کبھی بھی لائن میں نہیں لگے جبکہ نوٹ بند ی سے 50 فیصد لوگوں کا بھروسہ حکومت سے ختم ہو گیا ہے۔ سروے کو مکمل کرنے میں وعدہ نہ توڑو، یوا ، مزدور کسان وکاس سنستھان، آشریہ ، آسرا منچ ، نئی سوچ، شناخت، رچنا ، ادھیکار ابھیان جیسی کئی تنظیموں نے تعاون کیا ہے۔ رپورٹ میں ان 90 لوگوں کی فہرست بھی دی گئی جو نوٹ بند ی کے دوران جاں بحق ہو گئے تھے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)