نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
حکومت کی متعدد اقسام میں جمہوریت اس وقت سبھی پر فائق ہے ،دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے ، یہ طرز حکومت انسانی دماغ کی پیداوار ہے اور اس میں بظاہر اقتدار اور حکومت کی باگ دوڑ عوام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ، ان کے پاس کسی کو تخت پر بیٹھانے تو کسی سے چھیننے کا مکمل اختیار ہوتا ہے ، متعینہ مدت پر انتخاب کا ہونا عوام کو مزید طاقتور بناتا ہے اوراس طرح ان کے ہاتھوں میں ہی اسٹیٹ اور ملک کا مستقبل ہوتاہے ،ہندوستان میں بھی یہ جمہوری نظام رائج ہے ، اس کا شمار دنیا کے دوسرے سب سے بڑے جمہوری ملک میں ہوتاہے ، ہر پانچ سالوں پر یہاں پارلیمنٹ اور اسمبلی کا انتخاب ہوتاہے ،یہ انتخاب عوام کو موقع فراہم کرتاہے صحیح رہنما کو منتخب کرنے کا ،محنتی ،ایماندار اور وفادار لیڈروں کوچننے کا ،ماضی میں ہوئی غلطیوں کو سدھارنے کا۔ جمہوریت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اگر کبھی کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے ،کسی کے وعدوں پر اعتبار کرکے اسے لیڈر منتخب کرلیاجاتاہے لیکن وہ اپنے وعدے پر کھڑا نہیں اترتا ہے ، عوامی فلاح وبہبو دکیلئے کا م نہیں کرتاہے تو پھر پانچ سالوں کے بعد عوام کو اپنی غلطیاں سدھارنے اور ایسے نا اہل حکمرانوں کو سبق سکھانے کا مکمل موقع ہوتاہے ۔
اسی تناظر میں گجرا ت اسمبلی انتخابات کو دیکھنے کی ضرورت ہے ،یہ الیکشن بے انتہاءاہمیت کا حامل ہے ،اس میں صرف چند پارٹیوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے اور انہیں اقتدار سونپنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس الیکشن کے ذریعہ ملک کا مستقبل طے ہوناہے ،2019 کے عام انتخابات کے بارے میں عوامی رحجان کا بھی اندازہ لگے گا اور سب سے زیادہ عوامی بیداری کا اندازہ لگے گا کیا عوام الناس میں بیداری آئی ہے ،اچھے او ر برے حکمرانوں کے درمیان تمیز کرنے کا سلیقہ انہیں آگیا ہے ، غلط اور نا اہل حکمرانوں کو سبق سکھانے کیلئے وہ تیار ہیں ،جنہوں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے ،وعدوں کی تکمیل نہیں کی ہے ،عوام کی راحت رسانی کیلئے کچھ نہیں کیا ہے ان سے یہ اقتدار چھیننے کیلئے تیار ہیں یا نہیں ؟۔کیوں کہ 2014کے عام انتخابات ہندوستانی عوام کو دھوکہ مل چکاہے ،جن امیدوں کے سہارے اور جن وعدوں پر اعتبار کرکے انہوں نے بی جے پی کو اقتدار کی باگ دور سونپی تھی اس میں ناکامی ہی ناکامی ملی ، وعد ے اب تک تکمیل کے منتظر ہیں،وزیر اعظم نے صرف نئی نئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے غریبوں کا اب تک خاطر خواہ فائدہ نہیں پہونچ سکاہے ،نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے غریبوں کے ساتھ ملک کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہونچادیا ہے ، ریٹنگ ایجنسیوں کے مطابق ہندوستان اس وقت شدید بحران کا شکار ہے ،مشکل دور سے گزررہاہے اوراس کی معیشت کو سدھر نے میں بہت وقت لگ سکتاہے ۔بیدار قومیں ان مواقع کا فائدہ اٹھاتی ہیں ،ایسے نااہل حکمرانوں کو وہ ہمیشہ سبق سکھاتی ہیں ،اپنے عمل سے تاثرپیش کرتی ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں،ہمیں یوں بارہادھوکہ نہیں دیا جاسکتاہے ،ہمارے ووٹوں کی بنیاد پر کوئی بھی ناکام اور بے ایمان شخص ایک سے دوسری مرتبہ کرسی اقتدار پر جلوہ افروز نہیں ہوسکتاہے ،حالیہ انتخابات میں گجرات کی عوام کو اسی زندہ دلی اور اپنی بیدارمغزی کا واضح ثبوت پیش کرناہے ۔
ووٹ جمہوری ملک میں عوام کا بنیاد حق ہوتاہے ،اس کا استعمال انتہائی امانت داری ،بیباکی اور زندہ دلی کے ساتھ ہونا ضروری ہے ،حق رائے دہی کا استعمال سوچ سمجھ کرنا ملک کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے ،حصول ووٹ کیلئے کبھی اقتدار کا بیجا استعمال کیا جاتاہے ،عوام کو خوف دلایاجاتاہے ،متعدد طرح کی دھمکیاں دی جاتی ہے لیکن یہی وقت ہوتاہے یکسوئی سے سوچنے کا ،درست فیصلہ کرنے کا اور بااہل لوگوں کو اقتدار تک پہونچانے کا کیوں کہ اگر ایک مرتبہ کوئی بے ایمان اور نااہل مسند اقتدار پر فائز ہوتاہے تو اس کا خمیازہ کبھی نہ کبھی بھگتنا پڑتاہے ،برسوں اس کی نحوست برقرار رہتی ہے ،خاص طور پر سب سے زیادہ نقصان غریبوں اورمیڈل کلاس طبقہ کا ہوتاہے ، یہی لوگ مظالم اور غلط پالیسیوں کے شکار ہوتے ہیں۔
غریبوںاقلیتوں اور کمزور طبقات کے تحفظ کیلئے آئین اور دستور کا محکم ہونا ضروری ہوتاہے ،جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں غریب خوشخال اور مضبوط ہوتے ہیں،اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں،جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی ہے ،جہاں آئین برائے نام ہوتے ہیں وہاں اس طرح کے کمزور طبقات کا استحصال کیا جاتاہے ، اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں ،ان آلام ومصائب کا سامنا کرنا پڑتاہے ،اس آئین کی بالادستی اور قانونی کی حکمرانی بحال کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں عوام پر ہوتی ہے ،ایک ووٹ کبھی کسی ظالم کو مسلط کردیتا ہے ، ناہل شخص کے ہاتھ میں ملک کی باگ دور پہونچا دیتا ہے تو کبھی مخلص ،وفاد ار او را یماندار شخص کا انتخاب ہوتاہے جو غریبوں کیلئے مسیحا ثابت ہوتاہے ، ریاست اور ملک کی ترقی کی فکر کرتاہے ،تاریخ میں اس کی خدمات زریں حروف سے لکھے جاتے ہیں ،غریبوں میں اسے مقبولیت ملتی ہے اور ہر ایک کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔
گجرات اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کو بھی ووٹ ڈالنے اور حق رائے ددہی کے استعمال سے قبل ایک مثبت فیصلہ لینے اور وسیع تناظر میں سوچنے کی ضرورت ہے ، ہندوستان جیسے جمہوری ملک میںخوف اور نفسیاتی دباﺅسے مکمل طور پر باہر نکلنے روشن مستقبل کی تعمیر کیلئے بیحد ضروری ہے ،کسی بھی پارٹی کو اقتدار تک پہونچانے اور اسے ووٹ کرنے سے قبل اس کے یہاں اپنی اہمیت وضرورت ثابت کرنا وقت کا تقاضا ہے ،یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ وہی گجرات ہے جہاں 2002 میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ،سرکاری اعدا د وشمار کے مطابق 3 ہزار سے زائد مسلمان موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے جبکہ آزاد ذرائع کی تحقیق کے مطابق دس ہزار مسلمان مارے گئے ،گھروں کو نذر آتش کردیا گیا ، خواتین کی عصمت در ی کی گئی ،اشیاءاور جائیداد کا بے تحاشا نقصان ہوا ،تین دنوں تک باضابطہ بلوائیوں اور فسادیوں کو مسلمانوں کے خلاف حملہ کرنے کی چھوٹ دے دی گئی تھی ، پندرہ سالوں کاعر صہ گزرجانے کا باوجود بھی مسلمانوں کاوہ زخم ابھی مندمل نہیں ہواہے ،نقصانات کی تلافی بھی ابھی باقی ہے ،انصاف کی امیدیں بھی دم توڑنے لگی ہیں، اس گجرات کے مسلمانوں کو حکمت سے عملی کام لیناہے ،خوف اور نفسیاتی دباﺅ کے دائرے سے باہر نکلنا ہے ،ایسی پارٹی کا انتخاب کرنا ہے جو دوبارہ وہاں قتل عام نہ کرائے ،2002 کی تاریخ نہ دہرائے ، مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح ارزاں سمجھ کر نہ بہائے۔ ساتھ ہی فلاح وبہبود کا بھی کام کرائے۔
مسلمان آزاد ہیں کسی بھی پارٹی کے ساتھ جانے کیلئے ،کسی کو بھی ووٹ دینے کیلئے کسی کوبھی اقتدار تک پہونچانے کیلئے لیکن اقتدارمیںان کی حصہ داری ہونی چاہیئے ،منتخب حکومت میں انہیں نمائندگی کا موقع ملنا چاہیئے ،صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کئے جانے کا یہ سلسلہ اب ختم ہوناچاہیئے، 2014 کے عام انتخابات میں مسلمان حاشیئے پر نظر آئے ،حکمراں جماعت میں انہیں کوئی اہمیت ملی اور نہ ہی اپوزیشن خیمہ میں ان کی کوئی اہمیت تسلیم کی گئی، یوپی اسمبلی انتخابات میں بھی مسلمانوں کو کنارے لگادیا،اتر پردیش جیسی ریاست میں مسلمانوں کا کہیں نام ونشان نہیں ہے ،18 فیصد مسلم آبادی والی ریاست میں مسلمان منظرنامہ سے مکمل طور پر غائب ہیں ،اقتدار میں ان کی کوئی شراکت نہیں اور ایسے لگتاہے کہ مسلمان صرف ووٹ بینک بن کر رہ گئے ہیں ۔ گجرات الیکشن کے تناظر میں اس جانب بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ، اپنی حصہ داری اور نمائندگی لینے کی جانب توجہ ہونا ضروری ہے۔ بھلے ہی کسی وجہ سے مسلمانوں کا زیادہ نام نہ لیا جائے ،کسی پالیسی یا مجبوری کے پیش نظر ان سے زیادہ قربت اور تعلق کا اظہا رنہ کیا جائے ،سرعام ان کیلئے کوئی وعدہ نہ کیا جائے لیکن اقتدار میں انہیں حصہ ملنا چاہیے ، مسلم مفاد ات کیلئے کام ہونا چاہیے ، مسلمانوں کو منتخب سرکار سے فائدہ پہونچنا چاہیئے ۔انتخابات کے دوران اس بات کا خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ووٹ اور حق رائے دہی کی حیثیت شہادت کی ہے ،مسلمانوں کو یہ کام عبادت سمجھ کر کرنا چاہئے ، مسلم عوام کے درمیان بیداری پایا جانا اور سیاسی سطح پر اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے فکر مند ہونا وقت کا تقاضا ہے ۔
(مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں