قاسم سید
مداری جب اپنے کرتب دکھاتا ہے اور بندر کو ڈگڈگی پر نچاتا ہے۔ اس کے اشاروں پر بندر قلابازیاں کھاتا ہے اور شائقین کا دل بڑھاتا ہے اس دوران تماشائیوں سے کبھی کبھی تالیاں بجاکر حوصلہ افزائی کے لئے کہتا ہے اور تماشہ ختم ہونے پر بند ر کا محنتانہ طلب کرتا ہے اور تالی بجانے والے گھر کو چلے جاتے ہیں۔ اس میں ہر کردار کا ایک رول ہے مگر ہدایت کار مداری سے وہی سب کا رول کرتا ہے ۔ اس کی انگلیوں کی مہارت اور مخصوص اشارے پورے کھیل کا تانابانا بناتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور میں ایسے نظارے دیہاتوں کی گلیوں تک رہ گئے ہیں اور جہاں جہاں یہ روشنی پھیل رہی ہے ایسے کھیل روایت بن کر محفوظ ہوگئے ہیں مگر اس کا اسٹائل ہر دور میں اپنی موجودگی کا لوہا منوارہا ہے۔ یہ مداری اقتدار کے گلیاروں میں سرگرم رہے ہیں جو عوام کو اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں۔ جیسے کسی زمانہ میں کٹھ پتلیاں ہوتی تھیں۔ تماش بین‘مداری اور بندربدلتے رہتے ہیں۔ لیکن سیاسی اقتدار کےحصول کی جنگ مختلف شکلوں اور مظاہر کے ساتھ لڑی جاتی رہی ہے۔ اس کھیل میں ہر کریکٹر اہم ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت یا پہلی سب سے بڑی اقلیت کی شرکت کے بغیر یہ کھیل ناممکن سمجھاجاتا تھا اس کو بادشاہ گر کا خطاب دیاگیا تھا اور وہ اس پر بہت نازاں تھی اور اسی میں مگن تھی کہ گئی گذری حالت میں بھی وہ اپنی اہمیت اور مرکزیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہے ‘سیکولر پارٹیوں نے فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ مل کر اپنے تمام اختلافات کو پس پشت رکھ کر اس طاقت کو کمزور کرنا شروع کیا۔ اس کی بادشاہ گیری کی جڑوں میں عیاری ومکاری کا تیزاب ڈال کر گلایا جانے لگا۔ اس کے لیڈر مختلف سیکولر درختوں کی شاخوں پر بیٹھ کر ایمان بالکانگریس‘ایمان بالسماج وادی پارٹی ایمان بالراشٹریہ جنتادل وغیرہ کا نعرہ مستانہ لگاتے رہے۔ معلوم نہیں وہ اس کھیل کو سمجھ رہے تھے یا سادہ لوحی میں ان کے دام فریب میں پھنس رہے تھے‘ اللہ جانے لیکن نتیجہ لگاتار تباہی وبربادی کی صورت میں نمایاں ہوتارہا‘ اگر سیکولر اورفرقہ پرستوں کے درمیان کوئی لکیر ہے تو اب یہ تکلفات بھی ختم ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں کی ناز برداریاں اٹھانے والے کب کا قشقہ کھینچے‘دیر میں بیٹھے ترک اسلام کرکے فرقہ پرستوں کے حلقہ ارادت میں ڈنڈوت کئے بیٹھے ہیں ۔ سرکاری نوکریوں کا کیا رونا‘ معاشی پسماندگی کا کیا شکوہ‘ لگاتار قانون ساز اداروں میں کم ہوتی نمائندگی بھی دانشوران پاسبان ملت کی آنکھیں نہ کھول سکی۔ اس سے زیادہ شرمناک صورت حال کیاہوگی کہ اترپردیش جیسی ملک کی سب سے بڑی ریاست جہاں مسلم رائے دہندگان کی تعداد 20فیصد ہے‘ لوک سبھا میں ایک بھی مسلم نمائندہ بھیجنے میں ناکام رہی۔ ہندوستانی سیاست سے مسلمانوں کی بادشاہ گری کا بھرم پاش پاش ہوگیا۔ مسلم ووٹ بینک کی تھیوری محض پروپیگنڈا ثابت ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ اب کوئی بھی پارٹی مسلمانوں کا نام لینے سے بھی ڈرتی ہے۔ وہ تالیاں بجانے سے بھی گریز کرنے کو کہتی ہے خود کو مسلم خوشامد کے الزام سے جوڑنے سے ڈرنے لگی ہے۔ ووٹ بندوق کی نوک پر مانگا جاتا ہے‘ ان کے مسائل کا تذکرہ کرنے سے خوف آتا ہے۔ بی جے پی کی کامیاب حکمت عملی نے مسلمانوں کو قومی سیاست سے ہی نہیں صوبائی سیاست سے بھی بے دخل کردیا اور جب اس نے یہ ثابت کردیا کہ مسلمانوں کے بغیر بھی الیکشن جیتاجاسکتا ہے تو ان سیکولر پارٹیوں کی بھی آنکھیں کھل گئیں جو ان کے حق میں دکھاوے کے طور پر ہی سہی‘ صدائے احتجاج بلند کرتی تھیں۔ کانگریس سافٹ ہندوتوکا کھیل شروع سے ہی کھیلتی آئی ہے مگر سیکولرازم کی اوڑھنی ہمیشہ اس کے سر پر رہی۔ اس کے حکمت ساز ‘بی جے پی کی چالوں کے آگے ہتھیار ڈال کر ہندوتو کے گھال میل کے ساتھ گجرات کی لیبارٹری میں یہ تجربہ کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی ماتھے پر پڑے تلک کے ساتھ عوامی جلسوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ پارٹی قیادت نے صاف ہدایت دی ہے کہ مسلمانوں کوسامنے نہ لایاجائے۔ ان کے مسائل پر گفتگو نہ ہو مگر بیگانے کی شادی میں پھر بھی ’عبداللہ دیوانہ بناہوا ہے۔ راہل کی زور دار تقریروں‘مزیدار ٹوئٹس کی مقبولیت کے دم پر یہ امید بندھنے لگی ہے کہ بس مودی کی بساط لپٹنے کی بات پل بھر کی ہے۔ خوابوں کے جزیرے میں امیدوں کی ریت سے تابناک مستقبل کا محل بنانے میں مصروف ہوگیا ہے۔ جس عبداللہ کو حمایت کے دوبول بولنے سے بھی منع کردیاگیا ہے۔ اس کے حق میں آواز نکالنے پر بھی پابندی ہے بلکہ جلسے جلوسوں میں نمایاں موجودگی سے سخت گریز کیاجارہا ہے مگر اس ذلت ورسوائی اور قیدتنہائی اور گالیاں کھانے کے باوجود لب کی شیرینی پر فدا ہے اور محبوب کے ہرجائی پن کو اس کی ادائے دلربا سمجھ بیٹھا ہے۔
وہ کانگریس سے زیادہ پریقین ہے کہ گجرات میں تبدیلی ہونی ہے جبکہ خود کانگریس تین ینگ ترک کے سہارے جیت کی نیا پار لگنے کی امید باندھے بیٹھی ہے اور یہ عجیب تماشہ ہے کہ تین ینگ ترک جن کی عمریں بیس اور تیس سال کے درمیان ہیں۔ بی جے پی اور مودی کا ناک میں دم کردیا ہے کیونکہ ان کے پیچھے حامیوں کی طاقت ہے۔ ان کے مریدین جان چھڑکنے کو تیار ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے اور یہ اچانک نمودار ہوکر لیڈر نہیں بن گئے ۔الپیش ٹھاکور‘ہاردک پٹیل اور جگنیش میوانی نے قربانیاں دی ہیں‘ لاٹھیاں کھائی ہیں‘پولیس ٹارچر برداشت کیا۔ غداری اورملک سے بغاوت کی تہمتیں لگیں‘ جیل کی کال کوٹھریوں میں رہے۔ آزمائش کی بھٹیوں میں تپ کر سونا کندن بنا۔ ملک کی سب سے قدیم پارٹی کو گھٹنوں کے بل جھک کر ان کے آگے ناک رگڑنی پڑی اور حمایت کی بھیک مانگی تب بھی اپنی شرطوں پر ساتھ دینے کا صرف اشارہ کیا۔ کانگریس کا یوراج ان سے ملاقات کے لئے ڈورے ڈالنے اور انتظار کرنے پر مجبور ہے۔ یعنی جب لیڈر قربانی دیتا ہے تب عوام اس پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ ان نوجوان لڑکوں نے لمبی لمبی پدیاترائیں کیں۔ سوشل میڈیا پر متحرک ہے۔ عوام کے درد کے ساتھ جوڑا اور مضبوط بن کر ابھرے یعنی مودی جیسا لیڈراور امت شاہ جیسا انتخابی حکمت ساز بے چین ومضطرب ہیں‘ جب کہ کانگریس ان لڑکوں کے بھروسے گجرات میں تاریخ بدلنا چاہتی ہے۔ دنیا قدموں پر جھکتی ہے جھکانے والا چاہئے۔
گجرات کے انتخابات میں مسلمانوں کا کوئی رول سرے سے ہی نہیںہے۔ یہ ایسی فلم ہے جس میں ان کا مہمان رول بھی نہیں ہے۔ البتہ مہاراشٹر اور اترپردیش سے کچھ فرزندان توحید بی جے پی کا سپاسنامہ پڑھنے کے لئے ضرور آئے یا لائے گئے ہیں کیوں کہ اس سے پولرائزیشن نہیں ہوتا‘ گویا سیاسی پولرائزیشن کی دفعہ لگاکر مسلمانوں کو الیکشن کے دوران اسی طرح نظربند کردیاجاتا ہے جیسے ضلع انتظامیہ نامی اور ہسٹری شیٹر غنڈوں کو ضلع بدر کردیتی ہے مگر مسلمان اور مسلم جماعتیں پھر بھی خوش وخرم ہیں اور بی جے پی کی بساط الٹ جانےکے خواب دیکھ رہی ہیں۔ ان کی خصوصیت‘حالات سے بے خبری اور سادہ لوح فطرت پر بالجبر مسکرایا جاسکتا ہے کیونکہ سیاسی پسماندگی دور کرنے کا اب بھی ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں یاپھر ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔ ان کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے مترشح ہے کہ انہیں قومی یک جہتی ‘ایکتا اور بین مذاہب اتحاد کی سب سے زیادہ فکر ہے۔ یہی ان کا محور ہے۔ وقتاً فوقتاً ہونے والی کانفرنسیں‘ جلسے ‘جلوس اس کی گواہی دیگر مذاہب کے نمائندوں کو بلاکر سمجھ لیاجاتا ہے کہ امن ویکجہتی کی فضا قائم ہوگئی۔ بہرحال یہ ان کا نقطہ نظر ہے اور حکمت عملی آج تک کسی نے اس سوال کا جواب نہیں تلاش کیا کہ مختلف عنوانوں سے ہزاروں لوگوں کو جن میں عوام عقیدت مند اورمریدین زیادہ ہوتے ہیں اکٹھاکیاگیا۔۔ کیاکبھی مسلم امپاورمنٹ کے لئے بھی ہزاروں لوگوں کو آواز دی گئی ۔ صرف مذہبی جذبات کا استحصال کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیاجاتا رہا اور عبداللہ بیگانوں کی شادی میں دیوانہ ہوتارہا۔ سب سے زیادہ پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ دونوں طرف سے اس فکر مندی کا اظہار نہیں ہے جو مطلوب ہے۔ بے اعتمادی کی خلیج بڑھتی جارہی ہے اور نوجوان طبقہ مایوسی کے ساتھ بے چین بھی ہے‘ ہماری کوئی بھی تنظیم مذہبی ہویا سیاسی‘ نوجوانوں کے لئے کوئی ایجنڈ ہ بنانے میں ناکام ہے۔ ان کی امنگوں اور خواہشوں کا تاج محل ہندوتوگورو کی زہریلی ہوائوں میں سیاہ ہوتا جارہا ہے کسی کے پاس ہندوتوگورو کا جواب نہیں ہے۔ مسلم امپاورمنٹ کا کوئی منصوبہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوان طبقہ کے موضوعات اور ان پر تبصروں سے ان کی ذہنی حالت اور اندرونی کیفیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ ہمارے فضلا وعلما کا نوجوان طبقہ لا یعنی بحثوں میں الجھا دیاگیا ہے۔ وہ اپنے دلائل وبراہین سے ایک دوسرے کا سرپھوڑنے‘نیچادکھانے ‘مسلکی تنازعات کوہوا دینے اور اپنے مسلک کو دوسروں کے مسلک سے برتروافضل بتانے میں ساری صلاحیتیں جھونک رہا ہے۔ اس صورت حال سے لطف اندوز ہونے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ یہ سب بے سمتی‘فکری بے راہ روی اور کوئی ہدف طے نہ ہونے کی وجہ سے ہے ‘اس پر قابو پایاجاسکتا ہے اگر علما کا طبقہ اس کا حوصلہ شکنی کرے۔
قرآن میں صاف ارشاد ہے کہ اگر تم تنازعات میں پڑوگے تو تمہاری ہوا اکھڑجائے گی۔ قدم قدم پر تنازعات‘خلفشار اور وقتی مفادات کے لئے سب کچھ دائو پر لگانے کی عادت نے آتش فشاں کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور اس پر پانی ڈالنے والا کوئی بظاہر نظر نہیں آتا۔ ہمارے اجتماعی ادارے بھی سیاسی طالع آزمائوں کے پنجہ میں آتے جارہے ہیں۔ کھیت جوتنے ‘بیج ڈالنے اور اچھی فصل کے لئے مطلوبہ محنت کی جگہ اگر صرف بادل برسنے کی دعائیں مانگی جائیں تو انجام کیا ہوسکتا ہے؟ تیزی سے بدلتے عالمی وقومی حالات میں حکمت عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ پرانے طریقوں سے نئے زمانے کی جنگیں نہیں جیتی جاسکتیں اور ہر جنگ کے لئے نئے دائو آزمانے پڑتے ہیں۔ سیرت نبویؐ میں اس کی رہنمائی موجود ہے۔