وہ ہند میں سرمایہٴ ملّت کا نگہبان

مولانا ندیم الواجدی
خبر ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی کے خلاف آسام کے تین شہروں میں ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے لوگ پورے صوبے میں ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں اور ان کے پتلے نذر آتش کررہے ہیں، در اصل مولانا نے چند روز قبل دہلی میں منعقد ہونے والے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ حکومت آسام کو میانمار بنانا چاہتی ہے، انھوں نے حکومت کو وارننگ دی تھی کہ اگر اس نے آسام کے ستر اسّی لاکھ مسلمانوں کو جن کو بنگلہ دیشی کہا جارہا ہے ملک سے باہر نکالنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے، پورے ملک میں آگ لگ جائے گی، لوگ مرجائیں گے لیکن ملک نہیں چھوڑیں گے، مولانا نے یہ جرأتمندانہ بیان آل آسام ایکشن کمیٹی کی طرف سے منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں دیا تھا جو خاص آسامی مسلمانوں کی شہریت کے مسئلے پر دہلی کے کانسی ٹیوشن کلب میں منعقد کی گئی تھی، اس بیان کا ردّ عمل انتہائی شدید ہوا ہے، کیوں کہ پہلی مرتبہ کسی نے حکومت کے خفیہ عزائم کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ کانفرنس منعقد کی تھی انھوں نے مولانا ارشد مدنی کے اس بیان سے اپنا پلّہ جھاڑ لیا ہے، ان میں سے ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مولانا کو اس کانفرنس میں مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا، وہ از خود تشریف لائے اور تقریر کرکے چلے گئے، لیکن یہ ایک احمقانہ بات ہے، مولانا نے اپنے انٹرویو میں واضح کردیا ہے وہ بغیر بلائے کہیں نہیں جاتے اور نہ انہیں اتنی فرصت ہے، ان کے پاس اس کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ موجود ہے، سب سے زیادہ حیرت انگیز بیان یونایٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر مولانا بدر الدین اجمل کا ہے جنہوں نے مولانا ارشد مدنی کے بیان کو نامناسب بتلایا ہے، خبر تو یہ بھی آئی تھی کہ انھوں نے مولانا کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اپنی ایک ویڈیو کلپ میں انھوں نے اس طرح کے کسی مطالبے کی تردید کی ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس طرح کے جذباتی بیانات کے حق میں نہیں ہیں، خاص طور پر ایسے موقع پر جب کہ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر غور ہے اور دسمبر میں فیصلہ آنے والا ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم یہ عرض کریں گے کہ ملّت اسلامیہ کی تاریخ حق گو، بے باک،جری اور باحوصلہ کرداروں سے بھری پڑی ہے، اس امت پر کوئی دور بھی ایسا نہیں گزرا کہ حق کی زبانیں چُپ ہوگئی ہوں، اور بہادر کرداروں نے منہ چھپا لیا ہو، اس طرح کے کرداروں کے ایمان افروز واقعات کتابوں میں آج بھی موجود ہیں، مجھے یاد آتا ہے کہ خلیفہ منصور نے حضرت امام ابوحنیفہؒ کو بلا کر عہدہئ قضا کی پیش کش کی تھی امام ابوحنیفہؒ یہ سمجھتے تھے کہ منصور نے لوگوں سے جبراً اپنی خلافت پر بیعت لی ہے، حقیقت میں محمد نفس زکیہ اور اس کا بھائی ابراہیم خلافت کے حق دار ہیں، اس دور کے بڑے بڑے علماء جن میں امام مالکؒ بھی شامل ہیں منصور کے خلاف فتوی دے چکے تھے، امام ابوحنیفہؒ نے عہدہئ قضا قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتے، منصور نے برہم ہوکر کہا کہ تم جھوٹے ہو، امام صاحب نے فرمایا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرا یہ دعوی ضرور سچّا ہے کہ میں عہدہئ قضا کا اہل نہیں ہوں کیوں کہ جھوٹا شخص اس منصب پر نہیں بٹھلایا جاسکتا، منصور نے ناراض ہوکر امام صاحب کو قید کرادیا، علامہ شبلی نعمانی ؒنے سیرۃ النعمان میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ بڑے حق گو اور جرأت مند انسان تھے، حق گوئی کی پاداش میں قید خانے میں ڈالے گئے، چار برس وہاں رہے، ان حالات میں بھی انھوں نے درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا، منصور امام صاحب کی اس مقبولیت سے ہر وقت خوف زدہ رہتا تھا، اس نے ان سے چھٹکارا پانے کی یہ تدبیر کی کہ قید خانے میں ہی میں زہر کو دے کر ان کو مرواڈالا، اسی طرح کا ایک خوب صورت کردار امام احمد ابن حنبلؒ کا بھی ہے جنھوں نے خلق قرآن کے مسئلے پر خلیفہ مامون رشید کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا، گرفتار کئے گئے، ان کو پابہ جولاں خلیفہ مامون کے پاس رقہ لے جایا جارہا تھا کہ مامون کے انتقال کی خبر آگئی، مامون کی جگہ خلیفہ معتصم باللہ نے لی، اس نے بھی اپنے پیش رو کا موقف اختیار کیا، اور امام احمد ابن حنبلؒ کے سامنے یہ دو باتیں رکھیں، قید خانہ یا اپنی غلطی کا اعتراف، امام صاحبؒ نے باطل پر حق کو ترجیح دی، تیس ماہ قید میں گزارے، دن بھر زنجیروں سے بندھے رہتے تھے، کوڑے بھی کھائے لیکن حق بات سے ایک لمحے کے لئے بھی اعراض نہیں کیا۔
ہندوستان کی تاریخ بھی ایسے جیالوں سے خالی نہیں رہی، حضرت مجدد الف ثانیؒ اس تاریخ کا ایک روشن کردار ہیں، جنھوں نے مغل بادشاہ اکبر کے من گھڑت دین کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، اپنے مشن کی تکمیل کے لئے انہیں آزمائش اور ابتلاء کے دور سے بھی گزرنا پڑا، گوالیار کے قلعے میں قید ہوئے، لیکن انھوں نے حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا نہ چھوڑا، حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ بھی ایسے ہی حق پرستوں کے قافلے میں شامل ہیں، انھوں نے ظالم انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دے کر حق پسندی اور حق گوئی کی ایک مثال قائم کی، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے مالٹا کی اسارت میں رہنا قبول کرلیا، لیکن انگریزوں کی غلامی قبول نہیں کی، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ نے مقدمہئ کراچی ۱۲۹۱ء میں مجسٹریٹ کے سامنے جو بیان دیا تھا وہ آج بھی ہماری تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا ہوا ہے، سولہ صفحات پر مشتمل اس بیان کی ایک ایک سطر افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر کی بہترین مثال ہے، مجھے کہنے دیجئے کہ مولانا ارشد مدنی ایسے ہی حق پرستوں اور ایسے ہی حق پسندوں کی معنوی اور حقیقی اولاد ہیں، جو ہمیشہ حق بات کہتے ہیں، کوئی لالچ یا خوف انہیں حق بات کہنے سے نہیں روکتا، وہ جو بات کہتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں، کہہ کر پیچھے نہیں ہٹتے اور نہ اس کی کوئی تاویل وتوجیہ کرتے ہیں، آزادی کے بعد کی تاریخ میں ایسے جیالے کم ہی ہوئے ہیں، اور اب تو ان کا وجود ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔
آسام ہمارے ملک کا وہ صوبہ ہے جہاں کے مسلمانوں کو ہر دور میں مصائب ومشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، آزادی کے بعد سے اب تک کئی بار وہاں بھیانک فسادات ہوچکے ہیں جن کے نتیجے میں مسلمانوں کو سخت جانی ومالی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، سب سے زیادہ سنگین مسئلہ آسام میں مسلمانوں کی شہریت کا ہے اور یہ اس وقت سے زیر بحث ہے جب بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کی صورت میں پاکستان کا حصہ تھا اس زمانے میں باربار پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر بھی یہ سوال اٹھتا رہا کہ آسام کے سرحدی اضلاع میں جو مسلمان رہ رہے ہیں ان کی بڑی تعداد مشرقی پاکستان سے آکر یہاں بس گئی ہے، کئی بار ان کو غیر ملکی شہری کہہ کر نکالنے کی کوشش کی گئی، ان کی املاک پر قبضہ کرنے کی سازشیں بھی کی گئیں لیکن ہر بار جمعیۃ علماء ہند نے مداخلت کی اور ان کو بے گھر ہونے سے بچایا، ۹۷۹۱ء میں جمعیۃ علماء کے قومی صدر مولانا اسعد مدنیؒ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ“غیر ملکی دراندازی کا بہانہ بنا کر آسام کے جائز قانونی شہریوں کو ووٹ کے آئینی حق سے محروم کردینے اور انہیں اپنے وطن عزیز سے نکال دینے کی جو خوفناک تحریک آسام جن سنگرام پریشد اور چھاتر پریشد کے ذریعے چلائی جارہی ہے اس کے درپردہ آر ایس ایس کی وہ ناپاک سازش کار فرما ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہاں سے غیر آسامی شہریوں، خاص طور پر مسلمانوں کو آبادیوں سے نکل واکر خواہ مخواہ انہیں غیر ملکی قرار دے کر پہلے انہیں کیمپ کی زندگی کزارنے پر مجبور کردیا جائے اور پھر انہیں آہستہ آہستہ اپنے وطن عزیز سے باہردھکیل دیا جائے“، آر ایس ایس کی سازشوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، اسی کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند بھی آسام کے مظلوم مسلمانوں کے حق کی لڑائی اپنی پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ لڑ رہی ہے، پہلے مولانا اسعد مدنیؒ اور اب ان کے بھائی مولانا ارشد مدنی لاکھوں آسامی مسلمانوں کے درد کا درماں اور ان کے زخموں کا مرہم بنے ہوئے ہیں، حکومتوں کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں، مولانا ارشد مدنیؒ کا یہ کہنا بالکل حق بہ جانب ہے کہ وہاں کی حکومت مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنا چاہتی ہے، اور ان کو ملک کی سرحدوں سے باہر نکال کر میانمار کی کہانی دہرانا چاہتی ہے، میانمار میں بھی تو برسوں سے یہی ہورہا ہے، حالیہ دنوں میں کچھ اور شدت پیدا ہوئی ہے، میانمار کی حکومت کے مظالم سے تنگ آکر لاکھوں لوگ سمندری راستوں سے بنگلہ دیش پہنچ کر پناہ گزیں ہوچکے ہیں، مولانا ارشد مدنی کی حق پسندی اور حق گوئی کو ہزاروں بار سلام کہ انھوں نے اپنے ایک بیان سے پوری دنیا کو آسام کے مظلوم مسلمانوں کی طرف متوجہ کردیا، رہی بات احتجاجی مظاہروں اور پتلے نذر آتش کرنے کی، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، جمہوریت میں سب کچھ چلتا ہے، ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے، مولانا ارشد مدنی کو بھی حق ہے کہ ان کی دور بیں نگاہیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں وہ اس سے قوم کو آگاہ کریں اور اس پر اپنی تشویش کا اظہار کریں، مقدمے قائم کرنے سے ان کی زبان پر تالے نہیں لگائے جاسکتے اور نہ ان کو مظلوم مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے سے باز رکھا جاسکتا ہے، وہ حق پسندوں اور حق کہنے والوں کے جس قافلے سے تعلق رکھتے ہیں اس نے کبھی حالات کا دباؤ قبول نہیں کیا، ہمیں امید ہی نہیں پورا یقین ہے کہ ان مظاہروں سے اور مقدموں سے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئے گی اور حق بولنے والی اُن کی زبان میں کبھی لرزش پیدا نہیں ہوگی۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں