رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبح سے شام تک کے معمولات

افادات: علامہ شبلی نعمانی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ صبح نماز فجر پڑھ کر ( جانماز پر) آلتی پالتی مارکربیٹھ جاتے ،یہا ں تک کہ آفتاب اچھی طرح نکل آتا(اوریہی وقت دربار نبوت کاہوتا،لوگ پاس آآکر بیٹھتے ،اورآپ ان کو مواعظ ونصائح تلقین فرماتے۔)
(اکثر صحابہ ؓ سے پوچھتے کہ کسی نے کوئی خواب دیھاہے،کسی نے دیکھاہوتاتوعرض کرتے،آپ اس کی تعبیر بیان فرماتے،کبھی خوداپنا خواب بیان فرماتے اس کے بعد ہر قسم کی گفتگوہوتی ،لوگ جاہلیت کے قصے بیان کرتے ،شعرپڑھتے،ہنسی خوشی کی باتیں کرتے،آنحضرت ﷺ صرف مسکرادیتے،اکثر اسی وقت مالِ غنیمت اوروظائف وخراج وغیرہ کی تقسیم فرماتے۔
بعض روایتوں میں ہے کہ جب دن کچھ چڑھ جاتاتو چاشت کی کبھی چار،کبھی آٹھ رکعت نماز ادافرماتے،گھرجاکرگھر کے دھندے میں مشغول ر ہتے،پھٹے کپڑوں کوسیتے،جوتا ٹوٹ جاتاتو اپنے ہاتھ سے گانٹھ لیتے،دودھ دوہتے۔
نمازعصر پڑھ کر ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے پاس جاتے اورذراذرادیر ٹھہرتے ،پھرجس کی باری ہوتی،وہیں رات بسرفرماتے،تمام ازواج مطہرات وہیں جمع ہوجاتیں،عشاءتک صحبت رہتی،پھرعشاکے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے اورواپس آکر سورہتے،ازواج رخصت ہوجاتیں،نماز عشاء کے بعد بات چیت کرنی ناپسند فرماتے۔
عام معمول تھاکہ آپ اول وقت نماز عشاءپڑھ کر آرام فرماتے تھے،سوتے وقت التزاما قرآن مجید کی کوئی سورہ ( بنی اسرائیل ،زمر،حدید،حشر،صف،تغابن)پڑھ کر سوتے،شمائل ترمذی میں ہے کہ آرام فرماتے وقت یہ الفاظ فرماتے:
اللھم باسمک اموت احییٰ خدایاتیرانام لے کر مرتاہوں اورزندہ رہتاہوں۔
جاگتے تو فرماتے:
الحمدللہ الذی احیانا بعد مااماتنا والیہ النشور ،اس خداکاشکر جس ن ے موت کے بعد زندہ کیا اوراسی کی طرف حشر ہوگا۔
آدھی رات یا پہر رات رہے جاگ ا ٹھتے ،مسواک ہمیشہ سرہانے رہتی تھی،اٹھ کر پہلے مسواک فرماتے،پھروضو کرتے اورعبادت میں مشغول ہوتے،آپ کی سجد ہ گاہ آپکے سرہانے ہوتی تھی۔
ہمیشہ داہنی کروٹ اوردایاں ہاتھ رخسارکے نیچے رکھ کر سوتے،لیکن جب کبھی سفرمیں پچھلے پہر منزل پر اترکرآرام فرماتے تو معمول تھاکہ دایاں ہاتھ اونچا کرکے چہرہ اس پر ٹیک کرسوتے کہ گہری نیند آجائے،نیند میں کسی قدرخراٹے کی آواز آتی تھی۔
بچھونے میں کوئی التزام نہ تھا،کبھی معمول بستر پر کبھی کھال پر،کبھی چٹائی پر اورکبھی زمین پر آرام فرماتے۔
لباس
لباس کے متعلق کسی قسم کا التزام نہ تھا،عام لباس چادر اور تہمد تھی،پاجامہ کبھی استعمال نہیں فرمایا،لیکن امام احمد اور اصحاب سنن اربعہ نے روایت کی ہے کہ آپ نے منی کے بازار میں پاجامہ خریدا تھا ،حافظ ابن قیم نے لکھا ہے کہ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ استعمال بھی فرمایا ہوگا ،موزوں کی عادت نہ تھی،لیکن نجاشی نے جو سیاہ موزے بھیجے تھے،آپ نے استعمال فرماے،یہ ظاہر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چرمی تھے،عمامہ کا شملہ کبھی دوش مبارک پر کبھی دونوںشانوںکے بیچ میں رہتا تھا،کبھی تحت الحنک کے طور پر لپیٹ لیتے تھے،عمامہ اکثر سیاہ رنگ کا ہوتا تھا،عمامہ کے نیچے لپٹی ہوئی ٹوپی ہوتی تھی،اونچی ٹوپی کبھی استعمال نہیں فرمائی،(عمامہ کے نیچے ٹوپی کا التزام تھا،فرماتے تھے کہ ہم میں اور مشرکین میں یہی امتیاز ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں)کبھی آپ کو دیکھتا ،کبھی چاند کو دیکھتا تھا ،تو آپ مجھے چاند سے زیادہ خوبرو معلوم ہوتے تھے ،حضرت برائؓ کہتے ہیں ،میںنے کسی جوڑے والے کو سرخ لباس میں آپ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔
آپ پسینہ میں ایک قسم کی خوشبو تھی،چہرئہ مبارک پر پسینہ کے قطرے موتی کی طرح ڈھلکتے تھے،جسم مبارک کی جلد نہایت نرم تھی،حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ آپ کا رنگ نہایت کھلتا تھا،آپ کا پسینہ موتی معلوم ہوتا تھا،میں نے دیبا اور حریر بھی آپ کی جلد سے زیادہ نرم نہیں دیکھے،اور مشک و عنبر میں بھی آپ کے بدن سے زیادہ خوشبو نہ تھی۔
(بشکریہ امارت شرعیہ پٹنہ)