فلم پدماوتی اور سلطان علاؤ الدین خلجی

مولانا ندیم الواجدی
حال ہی میں ملک کے ایک مشہور فلم ساز سنجے بھینسالی نے چتور گڑھ کی رانی پدماوتی اور سلطان علاؤ الدین خلجی کے فرضی معاشقے پر مبنی ایک فلم ”پدماوتی“ بنائی ہے، ابھی یہ فلم ریلیز بھی نہیں ہوئی تھی بل کہ اس کے چند ٹریلر ہی منظر عام پر آئے تھے کہ ملک بھر میں ہنگامہ شروع ہوگیا، کئی راجپوت تنظیمیں کھڑی ہوگئیں اور فلم کے خلاف احتجاج کرنے لگیں، ان تنظیموں کا دعوی ہے کہ فلم میں ایک راجپوت شاہی گھرانے کی توہین کی گئی ہے، ملک کی کئی ریاستوں نے اس فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی ہے، اگرچہ مغربی بنگال کی وزیر اعلا ممتا بنرجی نے اس طرح کی پابندیوں کو اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی جماعت کی سازش ہے جسے متحد ہوکر ناکام بنانا چاہئے، فلم انڈسٹری اس کے خلاف آواز اٹھائے، ممتا بنرجی نے فلم ساز سنجے بھینسالی سے کہا ہے کہ وہ اس فلم کی نمائش مغربی بنگال میں کرسکتے ہیں، اس تنازعے کے پیش نظر فلم کی نمائش کی تاریخ جو پہلے یکم دسمبر تھی آگے بڑھا دی گئی ہے، فلم سینسر بورڈ دوبارہ اس کا جائزہ لے رہا ہے، کچھ لوگ سپریم کورٹ تک بھی جا پہنچے ہیں، مگر عدالت عالیہ نے سینسر بورڈ کی کار روائی سے پہلے اس پیٹیشن پر غور کرنے سے انکار کردیا ہے، بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرانیم سوامی دور کی کوڑی لائے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس فلم میں دبئی کا پیسہ لگا ہوا ہے، غنیمت ہے انھوں نے سعودی عرب یا پاکستان کا نام نہیں لیا، ان کا کہنا ہے کہ دبئی کے لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے اور یہ دکھلایا جائے کہ ہندو عورتیں ان سے رشتے بنانے کے لئے تیار رہتی تھیں، فلم بنانے والے سنجے بھینسالی، اور فلم میں رانی کا کردار ادا کرنے والی دپیکاپاڈوکن اور سلطان خلجی کردار نبھانے والے شاہد کپور کو دھمکیاں دی جارہی ہیں، اور ان کی ناک کاٹنے والوں کو انعامات کی پیش کش کی جارہی ہے، غرضیکہ ایک تفریحی فلم کو انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا ہے، مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ ملک میں فرقہ پرستی کے جذبات کو جو پہلے ہی بھڑکے ہوئے ہیں مزید ہوا دی جائے، گجرات میں الیکشن ہونے والے ہیں، بی جے پی اس طرح کے حرکتوں سے الیکشن میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، وہ اپنی یہ شبیہ بنانا چاہتی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے کہ تنہا وہی ایک ایسی سیاسی پارٹی ہے جسے ہندؤں کے جذبات کا خیال ہے اور وہ ہر سطح پر ان کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتی ہے باقی تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی منہ بھرائی کے علاوہ کچھ نہیں کرتیں۔
سب سے پہلے تو ہم یہ عرض کردیں کہ ”پدماوتی“ بنانے والے سنجے بھینسالی کی یہ فلم کوئی نئی فلم نہیں ہے جس میں تاریخی کرداروں کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا ہو، اس سے پہلے انھوں نے ” باجی راؤ مستانی “ فلم بنائی تھی، اس میں دکھلایا گیا تھا کہ ایک مسلم شہزادی مستانی ایک ہندو راجہ باجی راؤ پر فریفتہ تھی، اس فلم پر بھی تنازعہ کھڑا کیا جاسکتا تھا، لیکن مسلمانوں نے خاموشی ہی بہتر سمجھی، اس سے پہلے بالی ووڈ کے فلم ساز کچھ اس طرح کی فلمیں بنا کر پیش کرچکے ہیں جن میں مسلم بادشاہوں کے حقیقی کرداروں کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ان کی طرف فرضی کہانیاں منسوب کرکے یہ بتلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان کے یہ بادشاہ صرف عشق و محبت، ساغر و مینا اور ساز و آہنگ کے رسیا تھے اور رات دن انہی مشغلوں میں پڑے رہتے تھے، مشہور فلم ساز اور ہدایت کار کے آصف نے ۰۶۹۱؁ء میں مغل اعظم بنائی، جس میں شہزادہ سلیم اور دربار شاہی کی ایک رقاصہ اور مغنیہ انار کلی کے معاشقے کی منظر کشی کی گئی ہے، حالاں کہ یہ ایک فرضی داستان ہے مگر ہمارے ملک کے بیشتر لوگ خاص طور پر وہ لوگ جنھوں نے اس فلم کو دیکھا ہے اس کہانی کو حقیقی کہانی سمجھتے ہیں، بعد میں خاص ” انار کلی “ کے نام سے فلم بھی بنائی گئی، حالاں کہ تاریخ میں انار کلی نامی کسی عورت کا ذکر تک نہیں ملتا، ” جودھا اکبر “ کے نام سے بھی ایک فلم منظر عام پر آچکی ہے، جس میں جودھا نامی ایک ہندو خاتون کو اکبر کی بیوی بتلایا گیا ہے، حالاں کہ جودھا نام کی کوئی خاتون اکبر کی بیوی تھی ہی نہیں، شاہ جہاں کو بھی ایک فلم ” تاج محل “ میں ایک دیوانہ عاشق کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو ہر وقت اپنے محل کے باغات میں عشقیہ غزلیں گاتا پھرتا ہے۔ حالاں کہ ان کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ ایک نیک دل، عابد و زاہد بادشاہ تھے، نمازوں کے پابند تھے اور ہمیشہ باوضو رہتے تھے، یہ صحیح ہے کہ انہیں اپنی بیگم سے جنہیں ممتاز محل کا خطاب دیا گیا تھا بے پناہ محبت تھی، اس کے مرنے پر شاہ جہاں نے ایک یادگار مقبرہ بھی تعمیر کرایا جو محبت کی لازوال یادگار بن گیا، اس کے علاوہ فلم میں جو کچھ مناظر پیش کئے گئے ہیں وہ محض زیبِ داستان کے لئے ہیں، ایسی ہی ایک فلم رضیہ سلطان بھی ہے جس میں سلطان التمش کی بیٹی رضیہ سلطان کو اپنے محافظ جمال الدین یاقوت حبشی امیر آخور کے عشق میں گرفتار دکھلایا گیا ہے، حالاں کہ رضیہ سلطان کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ یاقوت حبشی رضیہ سلطان کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھتا تھا، اور رات رات بھر اس کی خواب گاہ کے باہر پہرا دیا کرتا تھا یہاں تک کہ سفر وحضر میں بھی اس کے ساتھ رہتا، فلم سازوں نے ایک پابند شریعت اور با حجاب خاتون کو بھی آبرو باختہ بناکر پیش کر ڈالا۔ اور اب یہ فلم آئی ہے، اس میں سلطان علاؤ الدین خلجی کے کردار کو دانستہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، اس کو ظالم و جابر حکمراں کے روپ میں پیش کیا گیا ہے اس کے ساتھ ہی اسے پدماوتی کے حسن وجمال سے متأثر ہوکر اس کے عشق ومحبت میں گرفتار بھی دکھلایا گیا ہے، مسلمان ہمیشہ کی طرح اس فلم پر بھی خاموش ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے واویلا مچانے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے، فلم ساز ہوں یا سیاست داں سب مسلم دور حکومت کی تاریخ مسخ کرنا چاہتے ہیں، سیاست داں اپنے طریقے سے اور فلم ساز اپنے خاص انداز میں مسلم دور حکومت کی تاریخ اچھی کو طرح مسخ کررہے ہیں اور عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں، یہ فلم ساز اتنے جری ہیں کہ وہ فرضی کردار تخلیق کرکے بھی کہانی کا تانا بانا بُن دیتے ہیں، بسا اوقات فرضی کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان پر حقیقی کرداروں کا گمان ہوتا ہے، جیسا کہ اس فلم میں ہوا ہے۔
تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ پدماوتی کے نام سے کوئی رانی چتور گڑھ میں تھی ہی نہیں، یہ محض فرضی اور افسانوی کردار ہے جسے تاریخی اور حقیقی بناکر پیش کیا گیاہے، فلمی دنیا سے وابستہ لوگ بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں، بالی ووڈ فلم انڈسٹری سے وابستہ مشہور شاعر جاوید اختر کہتے ہیں کہ ”تاریخ میں رانی پدماوتی کا کہیں وجود نہیں ملتا، انھوں نے نئی نسل کو مشورہ دیا ہے کہ اگر انہیں تاریخ سے واقعی دل چسپی ہے تو وہ فلموں کے بجائے سنجیدہ کتابیں پڑھیں، فلموں کو تاریخ مت سمجھیں، فلم کو تفریح کے نقطہئ نظر سے دیکھیں“، سلطان علاؤ الدین خلجی کا عہد حکومت ۵۹۲۱؁ء تا ۶۱۳۱؁ء ہے، اس کے ٹھیک دو سو چھبیس سال بعد ۰۴۵۱ء میں مشہور شاعر ملک محمد جائسی نے ایک رزمیہ داستان لکھی، جس میں راجپوت راجا رتن سین اور رانی پدمنی (پدماوتی) کی محبت کا قصہ بڑے چٹخارے لے لے کر بیان کیا گیاہے، شاعر نے اپنے رزمیہ کو پُر اثر بنانے کے لئے سلطان علاؤ الدین خلجی کو بھی اس میں شامل کرلیا، اور یہ دکھلایا کہ رانی پدمنی اتنی خوب صورت اور حسین و جمیل خاتون تھیں کہ ہندو راجوں مہاراجوں کے ساتھ ساتھ مسلم سلاطین بھی اس کے حسن پر فریفتہ تھے، خلجی نے محض اسے حاصل کرنے کے لئے چتور گڑھ کے قلعے پر حملہ کیا، مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ پورا قصہ محض فرضی ہے اس زمانے میں کوئی رانی اس نام سے چتور گڑھ میں موجود ہی نہیں تھی، گویا ان واقعات کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے، اس کے باوجود راجپوت گھرانوں میں ان واقعات کو تقدس کا درجہ حاصل ہے، مضحکہ خیز صورت حال یہ ہے کہ ایک صاحب نے دعوی کیا ہے کہ وہ رانی پدماوتی کی سینتسویں پشت میں سے ہیں۔
ملک محمد جائسی نے اپنے رزمیئے میں بتلایا ہے کہ علاؤ الدین خلجی اپنے ایک برہمن درباری کی زبانی رانی پدماوتی کے حسن وجمال کا حال سن کر اسے حاصل کرنے کے لئے بے قرار وبے تاب ہوجاتا ہے، اور چتور گڑھ کے قلعے کا محاصرہ کرلیتا ہے، مگر آٹھ برس تک بھی قلعہ فتح نہیں ہوتا، چتور گڑھ کے باشندے محاصرے کی تاب نہ لاکر سلطان سے صلح کرلیتے ہیں، انہیں قلعے میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے، شراب وکباب کی محفلیں سجتی ہیں، سلطان راجہ رتن سین کے اخلاق اور مہمان نوازی سے بہت متأثر ہوتا ہے، ابتدا میں وہ رانی پدماوتی کو بہن کہتا ہے لیکن اس کے حسن کی ایک جھلک پاکر پھر بے تاب ہوجاتا ہے، قلعے سے واپس آکر وہ راجہ کو اپنے خیمے میں بلاتا ہے اور اسے گرفتار کرلیتا ہے، ادھر رانی اپنے راجہ کے فراق میں ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتی ہے اس کے دماغ میں راجہ کو خلجی کی قید سے چھڑانے کے لئے یہ ترکیب آتی ہے کہ وہ خود کو سلطان کے سامنے پیش کردے، سلطان رانی کی پیش کش کو سن کر خوشی سے نہال ہوجاتا ہے، رانی نہایت کروفر کے ساتھ خلجی کے محل میں پہنچتی ہے اور اپنے ساتھ آنے والوں کی مدد سے راجہ کو خلجی کی قید سے چھڑا لیتی ہے، خلجی اس ناکامی سے طیش میں آکر چتور گڑھ پر فیصلہ کن حملہ کرتا ہے، اور قلعہ فتح کرلیتا ہے رانی پدماوتی خلجی کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بہتر یہ سمجھتی ہے کہ قلعے کی دیگر خواتین کے ساتھ مل کر آگ کے الاؤ میں کود جائے اور خود کو ختم کرلے۔ یقینا یہ فلم شاعر کی شاعرانہ داستان پر بنی ہوگی، ابھی ریلیز نہیں ہوئی، ہوسکتا ہے فلم ساز نے بھی کچھ مرچ مصالحہ لگایا ہو، اگر فلم کی کہانی یہی ہے تو اس میں ہنگامہ برپا کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے، بدنامی کے سارے تیر تو خلجی کی طرف چلے ہیں، وہ عشق کا رسیا ہے، ایک غیر عورت کو حاصل کرنے کے لئے ایک قلعے پر حملہ کرتا ہے، آٹھ سال تک قلعے کا محاصرہ کرتا ہے، اس کے شوہر کو گرفتار کرلیتا ہے، وہ عورت حسن تدبیر سے کام لے کر اپنے شوہر کو سلطان کے قید سے آزاد کرالتی ہے، آخر میں خلیجی کی خواب گاہ کی زینت بننے کے بجائے خود کو آگ کے حوالے کردیتی ہے، بتلایئے اس کہانی میں کس کی عزت پر حملے کئے گئے ہیں، کسے بدنام اور رسوا کیا گیا ہے، رانی کے کردار کو تو بے داغ دکھلایا گیا ہے، اس کے باوجود ملک میں ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔فلم ساز کو اس کی پرواہ نہیں کہ اس کی کہانی سے ہندوستان کے ایک عدل پرور، منصف مزاج، عالی ظرف، وسیع نظر بادشاہ کی عزت خاک میں مل رہی ہے، اس دور کی سب سے معتبر تاریخ ”تاریخ فیروز شاہی“ میں ضیاء الدین برنی نے اس واقعے کا ذکر ہی نہیں کیا، حالاں کہ وہ انتہائی متعصب اور تنگ نظر مؤرخ تھا، اس نے علاؤ الدین خلجی کے سلسلے میں ایسے ایسے واقعات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لکھے ہیں جن سے اس پر کوئی الزام عائد ہوتا ہو مگر اس واقعے کا کوئی ذکر اس کی تاریخ میں نہیں ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس واقعے کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے، یہ محض افسانہ ہے جسے اس کی موت کے دو سو ڈھائی سو برس بعد تراشا گیا ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com