ڈاکٹر مظفرحسین غزالی
بچے اپنے بڑوں کی نقل کرتے،یا پھر اپنے آس پاس جو دیکھتے وہی سیکھتے ہیں۔ تو کیا نصیحت کرنے کے بجائے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ سماج اپنے عمل سے ایسا ماحول تیار کرے جس میں بچے اپنے آپ کو اور اپنے مستقبل کو محفوظ محسوس کریں۔ فی الحال ایسا نہیں ہے، یونیسیف کے مطابق ترقی کے باوجود 180 ملین بچے اپنے والدین کے مقابلے میں زیادہ دشواریوں کا سامنا کررہے ہیں۔ عالمی یوم اطفال پر کیا گیا تجزیہ بتاتا ہے کہ دنیا بھر میں رہنے والے 1 سے 12سال کے بچوں کی حالت کہیں زیادہ بدتر ہے۔یہ 180 ملین بچے 37 ممالک میں رہتے ہیں۔ جہاں غریبی، تشدد، صحت کی خراب صورتحال، معیاری تعلیم تک رسائی نہ ہونا، نارواسلوک اور قدرتی آفات بچوں کی پریشانیوںکوبڑھانے کا بڑا سبب ہیں۔ دنیا کے 95 فیصد بچے دہشت گردی کو لے کر فکر مند ہیں۔ یہ بات یونیسیف کے ذریعہ کرائے گئے بھارت سمیت 13 ممالک کے سروے سے سامنے آئی ہے۔
بھارت میں یہ سروے ایک ہزار بچوں کے درمیان ہوا، جس میں شامل بچوں نے تشدد اور تعلیم کو لے کر پریشانی ظاہر کی۔ 9 سے 12 سال کے 48 فیصد بچوں نے کہا کہ دہشت گردی کا اثر ان پر بھی پڑ سکتا ہے۔ قدرت یا نیچر (جس میں فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی شامل ہے) سے 75 فیصد بچے متاثر ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات سے 56 فیصد جبکہ صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کا اثر 54 فیصد بچوں پر ہوتا ہے۔ عالمی امن کا تو دنیا کے رہنما خوب درس دیتے ہیں لیکن عملی طور پر چاروں طرف تشدد اور دہشت کا خونی کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرتا ہو، جب دنیا میں کوئی دہشت گردانہ واقعہ نہ ہوتا ہو۔ اس فہرست میں اب شاید بھارت کا نام بھی جڑ جائے، کشمیر میں حالات سنگین ہیں، نارتھ ایسٹ میں تشویشناک، نکسل واد سے متاثر علاقوں کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ ملک کے ذمہ دار اس سب سے آنکھیں موند ے ہوئے ہیں۔ ان حالات سے نبٹنے کےلئے سنجیدہ کوششیں نہیں ہو رہیں۔ سیاسی رہنماو ¿ں کے نزدیک الیکشن سب سے اوپر ہے۔ ان سب خبروں کا بچوں کے معصوم اور کومل ذہن پر گہرامنفی اثر پڑرہا ہے، یہ ابھی ہم نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ اب جب بچوں نے ان سب باتوں کو لے کر اپنا ڈر ظاہر کر دیا ہے تو بڑوں کو اب ایک بہتر دنیا بنانے کی کوشش شروع کر دینی چاہئے۔
سروے کے خاص نتائج کچھ اس طرح ہیں :
• 14 ملکوں کے آدھے بچوں نے اس بات سے محرومی ظاہر کی کہ جب دنیا بھر کے بچوں کو متاثر کرنے والے معاملات پر فیصلہ لیا جاتا ہے تو یہ نہیں سوچا جاتا کہ ہمیں کیسا محسوس ہوتا ہے۔
• جنوبی افریقہ اور یونائٹڈ کنگڈم میں بچے 73فیصد اور 71فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ بے دخل محسوس کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی آوازیں بالکل نہیں سنی جاتیں اور ان کی رائے کسی بھی طرح کا بدلا و ¿ نہیں لا پاتی۔
• بھارت کے بچے رپورٹ کرتے ہیں کہ 52 فیصد بچوں کے ساتھ وہ سب سے طاقتور محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی آوازیں سنی جاتی ہیں اور ان کے دیش کی مدد کر سکتی ہے اور ان کی رائے ملک کے مستقبل کو متاثر کر سکتی ہے۔
• سبھی 14 دیشوں نے دہشت گردی، خراب تعلیم اور غریبی کو پہچانتے ہوئے سب سے بڑے مسئلے کی شکل میں کہا ہے کہ وہ دنیا کے لیڈروں سے کارروائی کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
• سبھی 14 ممالک میں بچوں کے خلاف تشدد کی 67 فیصد رپورٹنگ سب سے بڑا تشویشناک موضوع تھی۔ برازیل، نائجیریا اور میکسیکو میں بچوں کو تشدد سے پڑنے والے اثرات کی سب سے زیادہ فکر ہے۔ جن میں 82 فیصد، 77 فیصد اور 74 فیصد شامل ہے، جو اس مسئلے کو سب سے زیادہ موجب فکر بناتا ہے۔ جاپان میں بچوں کے کم سے کم فکر مند ہونے کا امکان ہے۔ یہاں سروے میں ایک چوتھائی (23 فیصد) سے بھی کم کو فکر مند ہوتا دکھایاگیا ہے۔
• سبھی 14 ممالک کے بچوں کو دہشت گردی کے بارے میں تشویش ہے، جن میں سے 65 فیصد بچوں نے ان مسائل پر فکر مندی ظاہر کی۔ ترکی اور مصر کے بچے انفرادی طور پر دہشت گردی سے متاثر ہونے کے بارے میں 81 فیصد اور 75 فیصد نے فکر ظاہر کی۔اس کے برعکس صرف 30 فیصد کے ساتھ سب سے کم بچوں نے یہ امکان ظاہرکیاہے کہ دہشت گردی سیدھے انہیں متاثر کرے گی۔ برازیل اور نائجیریا کے بچے دنیا میں اس سے متاثر بچوں میں 10 اور 8 سے زیادہ خراب غیر معیاری تعلیم یا پہنچ کی کمی کے بارے میں فکر مند ہیں۔
• سبھی 14 ملکوں کے 10 میں سے 4 بچوں کو دنیا بھر کے پناہ گزیں اور مسافر بچوں کے ساتھ نامناسب رویہ کے بارے میں فکر ہے۔میکسیکو، برازیل اور ترکی کے بچوں میں دنیا بھر کے پناہ گزیں اور مسافر بچوں کو لے کر فکر پائی جاتی ہے، جس میں قریب 3 سے 5 میکسیکن بچوں نے ڈر ظاہر کیا ہے، برازیل اور ترکی میں آدھے سے زیادہ بچوں کی طرح، میکسیکو میں 55 فیصد بچے اس بات کو لے کر فکر مند ہیں کہ وہ انفرادی طور پر اس سے متاثر ہوں گے۔
• 14 ملکوں میں لگ بھگ آدھے بچے (45 فیصد) اچھے فیصلے لینے کے لئے اپنے بڑوں اور دنیا کے لیڈروں پر بھروسہ نہیں کرتے۔ برازیل میں بچوں کا سب سے زیادہ تناسب (81فیصد) ہے جو نیتاؤں پر بھروسہ نہیں کر تے ہیں، اس کے بعد جنوبی افریقہ میں یہ 69 فیصد ہے۔ بھارت میں بچوں کو ان کے اپنے نیتاؤں میں زیادہ بھروسہ ہے، یہاں صرف 30 فیصد نیتاؤں میں یقین نہیں رکھتے۔
• براک اوباما، کرسٹیانو رونالڈو، جسٹن بیبر اور ٹیلر سیوفٹ اپنے یوم پیدائش کی پارٹی میں مدعو کرنے کےلئے بچوں میں سب سے مقبول نام ہیں، یونائٹڈ نیشن امریکہ کے سابق صدر 14 ممالک میں سے 9 میں اوپر کے پانچ میں شامل ہیں۔ 14 دیشوں میں سے 7 کو ٹیلی ویژن دیکھنے کا شوق ہے۔
• بچوں کا عالمی رہنماؤں پر اعتماد ہے۔ 70 فیصد بچے ان سے سارے عالم کے بچوں کے بارے میں اچھے فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں۔
• صرف 39 فیصد کا خیال ہے کہ مذہبی رہنما ان کی رائے کو پسند کرتے ہیں جبکہ 13-18 سال عمر کی 67 فیصد لڑکیوں کو یہ احساس ہے کہ مذہبی رہنما ان کی رائے کو نہیں سنتے۔
وقت آگیا ہے جب دنیا کے رہنماو ¿ں کو بچوں کی باتیں سننا چاہئے کیونکہ بچوں کو احساس ہے کہ اگر رہنما ان کی باتوں کو سنیں تو یہ دنیا بہتر جگہ ہوگی۔ بھارت کے بچوں کو اپنے رہنماو ¿ں پر زیادہ اعتماد ہے کاش رہنما بھی ان کی بات سنیں اور انہیں اور زیادہ بہتر زندگی دینے کی کوشش کریں۔