تین طلاق کا جِن

مولانا ندیم الواجدی
تین طلاق کا جِن پھر بوتل سے باہر آگیا ہے، خبر ہے کہ حکومت اس پر قانون بنانے جارہی ہے، جس کو پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں پیش کیا جاسکتا ہے، وزارت قانون نے مجوزہ قانون کو ”مسلم ویمن پروٹیکشن آف رائٹس آن میریج“ کا نام دیا ہے، اس میں تین طلاق کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے اور جو شخص اس کا ارتکاب کرے گا اس کو تین سال قید کی سزا دی جائے گی، اس کے ساتھ ہی تین طلاق دینے والے پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا، ذرائع کے مطابق قانون ساز کمیٹی نے مسوّدہئ قانون کو حتمی شکل دے لی ہے، اور اب اس کا ڈرافٹ ریاستوں کو بھیج دیا گیا ہے تاکہ وہ اس پر کوئی مشورہ دینا چاہیں تو دے سکیں، یہ توقع بھی ظاہر کی جارہی ہے کہ راجیو گاندھی کے دور حکومت میں شاہ بانو کیس کے بعد پارلیمنٹ نے جو ترمیمی بل منظور کیا تھا اسے بھی کالعدم کیا جاسکتا ہے، قارئین کے ذہن میں ہوگا کہ اسّی (۰۸)کی دہائی میں شاہ بانو بنام محمد احمد خاں کیس کو بڑی شہرت ملی تھی، در اصل شاہ بانو کو ان کے شوہر محمد احمدخاں نے طلاق دے دی تھی، شاہ بانو نے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کو ان کے سابقہ شوہر سے گزارہ الاؤنس دلوایا جائے، عدالت نے ۳۲/ اپریل ۵۸۹۱ء کو تعزیرات ہند کی دفعہ ۵۲۱ کے تحت ان کے حق میں فیصلہ دیا تھا جو سراسر خلاف شریعت تھا، کیوں کہ طلاق کے بعد میاں بیوی کے درمیان کوئی شرعی رشتہ باقی نہیں رہتا اس لیے مطلقہ عورت ایام عدت کے بعد اپنے سابقہ شوہر سے نان نفقے کا مطالبہ نہیں کرسکتی، اس فیصلے کے بعد مسلمانوں میں زبردست ناراضگی پیدا ہوئی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بینر تلے ملک بھر کے مسلم قائدین سر جوڑ کر بیٹھے، مسلمانوں کی زبردست مزاحمت سے مجبور ہوکر وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے ایک ترمیمی بل پیش کیا اور اس کے ذریعے عدالتی فیصلہ کالعدم قرار دے دیاگیا، اس ترمیمی بل کانام تحفظ حقوق طلاق ایکٹ ۶۸۹۱ء ہے، اس قانون کے مطابق جب کوئی مطلقہ مسلمان خاتون عدت کے بعد اپنے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی تو عدالت مطلقہ خاتون کے رشتے داروں کو حکم دے گی کہ وہ اس کے اخراجات برداشت کریں جو اسلامی قانون کے مطابق اس کے اثاثوں کے وارث ہیں، لیکن اگر ایسے رشتہ دار نہیں ہیں یا وہ اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تو اس صورت میں عدالت ریاستی وقف بورڈ کو نفقہ دینے کی ہدایت دے گی، یاد رہے مطلقہ عورت اپنے شوہر سے صرف عدت کے دنوں کے اخراجات لینے کی مستحق ہے۔
یہ کانگریس کے دور حکومت کی بات ہے، جس میں کچھ رواداری تھی، اور جسے حصول اقتدار کے لئے اقلیتوں کے ووٹ بھی درکار تھے، آج صورت حال بدل چکی ہے، موجودہ حکومت میں رواداری نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اور نہ اسے اقلیتوں کے ووٹوں کی ضرورت ہے، وہ سمجھ چکی ہے کہ اقلیتوں کی مخالفت کرکے، ان کو اذیت دے کر، ان کو نقصان پہنچا کر ان کے جذبات سے کھیل کر ہندو ووٹ بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کئے جاسکتے ہیں،وہ اس کا تجربہ کربھی چکی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے، اس لیے وہ کانگریس کے دور حکومت میں کئے گئے ان فیصلوں کو ختم کرسکتی ہے جو مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، وہ مسلمانوں کے خلاف کچھ نئے قانون بھی بنا سکتی ہے، عوام، عدالت، پارلیمنٹ کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے، تین طلاق دینے پر سزا کا قانون یا تحفظِ حقوقِ طلاق کی منسوخی کے قانون کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک تین طلاق کو قابل سزا جرم قرار دینے کا معاملہ ہے اس پر حکومت کے ساتھ ساتھ ہمارے علماء اور ماہرین شریعت کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، سوال یہ نہیں ہے کہ سزا کیا ہو بل کہ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے شخص کو سزا دی جاسکتی ہے جس نے اپنی بیوی کو بہ یک وقت تین طلاق دیدی ہوں، حضرت عمرؓ نے ایسے شخص کو کوڑوں کی سزا دی تھی، اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ بہ ہر حال ایسا شخص کسی نہ کسی درجے میں سزا کا مستحق ہے، موجودہ حالات میں وہ سزا کتنی ہو اور اس کا نفاذ کیسے ہو یہ سوچنا اور اس پر کوئی فیصلہ کرنا بہ ہر حال علماء کی ذمہ داری ہے، اگر اس طرح کی سزاؤں کی کوئی گنجائش نکلتی ہے اور ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی حکومتیں اور عدالتیں ان کا نفاذ کرسکتی ہوں تو ہمیں اس کا اعلان کرنا چاہئے اور اسے مجوزہ قانون کی شکل دے کر حکومت کے سامنے پیش کردینا چاہئے، ہوسکتا ہے حکومت اس پر غور کرلے، مسلم ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے اسے پارلیمنٹ میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک حکومت کے مجوزہ قانون کی بات ہے ابھی اس کی تمام تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن جو کچھ اخبارات میں شائع ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون کا مسودہ تو تیار کرلیا گیا ہے لیکن اس میں جو نقائص ہیں ان پر دھیان نہیں دیا گیا ہے، مثال کے طور پر یہ بات کہ ایک طرف عدالت تین طلاق کو کالعدم قرار دے چکی ہے، دوسری طرف وہ اسے قابل سزا جرم بھی سمجھ رہی ہے، سوال یہ ہے کہ جب تین طلاق واقع ہی نہیں ہوں گی تو جرم کیسا، اور اس پر سزا کا کیا مطلب، فرض کیجئے کسی شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدیں، عدالت کا کہنا ہے کہ یہ تین طلاقیں واقع ہی نہیں ہوئیں، گویا جس عورت کو طلاق دی گئی ہے وہ بہ دستور اس کی بیوی ہے، اس صورت میں تین سال کی سزائے قید کیوں دی جارہی ہے؟ حکومت کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے کہ اس نے عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے یا نہیں، اگر برقرار رکھا ہے تو یہ سزا ایسے جرم پر سنائی جارہی ہے جو ابھی واقع ہی نہیں ہوا، اور اگر برقرار نہیں رکھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، یہی شریعت بھی کہتی ہے، اس صورت میں حکومت کو صاف صاف اعلان کردینا چاہئے کہ تین طلاقیں واقع ہوں گی اور اس کی بیوی اس سے جدا ہوجائے گی مگر اس کا یہ عمل قابل سزا ہوگا، اس اعلان کے بعد ہوسکتا ہے کہ مسلمان اور حکومت کے درمیان مجوزہ قانون کے حوالے سے اتفاق رائے کی کوئی صورت نکل آئے، لیکن عدالتی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سزا سنانے کا قانون بہت سی پیچیدگیوں کا حامل ہے، سب سے بڑی پیچیدگی تو یہی ہے کہ تین طلاق دینے والا تین سال کے لئے جیل چلا جائے گا اور وہ جرمانہ بھی ادا کرے گا، اس کا براہ راست نقصان اس عورت کو ہوگا جو قانون کی نظر میں اس کی بیوی ہے، تین سال کے لئے وہ کیا کرے گی، اس کے اخراجات کون برداشت کرے گا، اس کے بچوں کی کفالت کس کے ذمے ہوگی، قانون بناتے وقت ان سوالات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔
فرض کیجئے حکومت تین طلاق کو تسلیم کرتی ہے، یعنی اس کو واقع مانتی ہے،اس صورت میں شوہر کا تین سال کے لئے جیل جانا خود مطلقہ کے لئے اس لئے نقصان دہ ہے کہ عدت طلاق کے دوران عورت اپنے اخراجات کے لئے کس کے سامنے ہاتھ پھیلائے گی، نابالغ بچوں کی کفالت کون کرے گا، مجوزہ قانون میں اس پہلو پربھی غورکرناچاہئے تھا۔ بعض اوقات طلاق عورت کی ضرورت اور مجبوری بن جاتی ہے، سزا کی صورت میں کوئی مرد طلاق نہیں دے گا، اور عورت زندگی بھر ناپسندیدہ شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوگی، خلع گلو خلاصی کی ایک صورت ہے، مگر ضروری نہیں ہے کہ عورت خلع حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو، اس صورت میں عورت کے سامنے گھٹ گھٹ کر مرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا، مجوّزہ قانون میں ایسی مجبور عورتوں کے لئے گلو خلاصی کی کیا صورت تجویز کی گئی ہے۔
تین طلاق کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں بھی یہ قانون پیچیدگی سے خالی نہیں ہے، ایک تو یہ کہ حکومت اور قانون کی نظر میں یہ عورت اس کی بیوی رہے گی، اور بیوی ہونے کی حیثیت سے وہ جملہ حقوق کی مستحق بھی ہوگی، لیکن شریعت کی نظر میں وہ بیوی نہیں ہوگی، جو میاں بیوی شریعت پر کار بند ہوں گے ہوسکتا ہے وہ باہمی مفاہمت سے اپنے درمیان دوری بنائے رکھیں، لیکن جو شریعت کے پابند نہیں ہیں وہ کھلے طور پر مسلسل گناہ میں مبتلا رہیں گے اور ان کی سماجی حیثیت بھی مجروح ہوگی، فرض کیجئے ان میں سے ایک پابند شریعت ہے اور دوسرا نہیں ہے تو پابند شریعت کے لئے یہ قانونی اور غیر شرعی تعلق مسلسل عذاب جان بنا رہے گا، شریعت پر عمل کرنے والے میاں بیوی ہوسکتا ہے ایک دوسرے سے دور رہنے میں کامیاب رہیں لیکن اس صورت میں بھی عورت دوسری شادی نہیں کرسکتی کیوں کہ قانون کی رو سے وہ ابھی تک کسی کی بیوی ہے اگرچہ شریعت کی نظر میں وہ آزاد ہے اور شادی کرسکتی ہے، مرد البتہ دوسرا نکاح کرسکتا ہے مگر وہ بھی اس صورت میں کہ دوسری شادی کی از روئے قانون اجازت ہو، سنا جارہا ہے کہ حکومت کا اگلا قدم تعدد ازواج کے خلاف ہوگا اس صورت میں مرد کے سامنے بھی تمام راستے بند ہوں گے، غرض یہ ہے کہ اس قانون میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں، بڑے الجھنیں ہیں، ان کو مسلم تنظیموں کے مشورے سے ہی دور کیا جاسکتا ہے، میرے خیال میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کو مسلمانوں کے معتبر مذہبی قائدین بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے مشورہ کرنا چاہئے، بہ صورت دیگر یہ بل مسلمانوں کے لئے بڑی مشکلات پیدا کرے گا، اور وہ اس کی مزاحمت کرنے پر مجبور ہوں گے، شاید حکومت کا منشاء بھی یہی ہے کہ مسلمان مزاحمت کے لئے سڑکوں پر آئیں، ان کی تعلیم وترقی کا سلسلہ رُک جائے، دوسری طرف مسلمانوں کو حکومت کے خلاف صف آراء دیکھ کر ہندو ووٹ سمٹ کر حکومت کے حق میں کھڑے ہوجائیں، اس طرح کے قانون سازی کے ذریعے حکومت مسلم خواتین کی مشکلات دور نہیں کرنا چاہتی بل کہ تمام مسلمانوں کو جن میں خواتین بھی شامل ہیں نئی مشکلات میں مبتلا کرنا چاہتی ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں