معصوم مراد آبادی
کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے زخم بھرجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو زخم انسان کے جسم پر لگتے ہیں، انہیں وقت ضرور بھردیتا ہے لیکن جو زخم انسان کے وجود اور اس کی روح میں اترجاتے ہیں، انہیں وقت بھی نہیں بھرپاتا۔ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ ایسا ہی ایک زخم ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کے وجود میں پیوست ہوگیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل ہرا ہوتا جارہا ہے ۔ یوں تو جب بھی 6دسمبر کی تاریخ قریب آتی ہے تو وہ تمام زخم ابھرنے لگتے ہیں جو بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت سے وابستہ ہیں لیکن اس بار جب 6دسمبر آیا ہے تو ان زخموں میں ایک نئی ٹیس ابھرنے لگی ہے۔ اس بار بابری مسجد کی شہادت کو 25برس پورے ہوگئے ہیں۔ اس عرصے میں نہ تو ان زخموں کا مداوا ہوا ہے اور نہ ہی انہیں بھرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بلکہ ان زخموں کو کرید کر انہیں ناسور بنانے کی کوششیں ضرور کی جارہی ہیں۔ بابری مسجد کی تعمیر نو کے وعدے کو تو جانے دیجئے آج تک ان مجرموں کو کوئی سزا نہیں ملی ہے جنہوں نے دن کے اجالے میں پوری دنیا کے سامنے آزاد ہندوستان کی تاریخ کے سب سے بدترین جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ جن لوگوں نے بابری مسجد کو اپنے سجدوں سے منور کیاتھا، وہ آج بھی انصاف کی تلاش میں دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور جنہوں نے مسجد کے تقدس کو پامال کیا تھا، وہ آج اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے بابری مسجد کے مقام پر عظیم الشان رام مندر بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ قانون ، عدلیہ ،حکومت اور سیاست کے دیئے ہوئے لگاتار زخموں کی وجہ سے ایک ناسور میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ایک اخبار نویس کے طورپر جب میں پچھلے 25برسوں کا حساب جوڑنے بیٹھا ہوں تو میرے دل میں درد کی ایک ایسی کیفیت ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔میں نے اپنی 30سالہ صحافتی زندگی میںجتنی تحریریں ایودھیا تنازعہ پر لکھی ہیں اتنی شاید ہی کسی اور موضوع پر لکھی ہوں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میں نے اس تنازع کے نشیب وفراز کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے۔ بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد میں پہلا اردو صحافی تھا جو بھیس بدل کر بابری مسجد میں داخل ہوا چونکہ وہاں ایک حکم نامے کے تحت پانچ سو میٹر تک کسی مسلمان کا داخلہ ممنوع تھا۔ بابری مسجد میں تقریباً ایک گھنٹہ گزارکرمیں نے اندر جوکچھ دیکھا تھا، اسے یاد کرکے آج بھی میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب یکم فروری 1986کو فیض آباد کی ایک عدالت نے بابری مسجد کا تالا کھول کر وہاں رکھی ہوئی مورتیوں کی عام پوجا پاٹ کا حکم دیا تو ملک میں طوفان برپا ہوگیاتھا۔ ایک طرف جہاں شدت پسند ہندوگروپوں نے اسے اپنی بے مثال کامیابی سے تعبیر کیا تو وہیں مسلمانوں نے اس واقعہ کو اپنی پسپائی اور مذہبی حقوق میں کھلی مداخلت سمجھا۔ شرمناک بات یہ ہے کہ بابری مسجد کی بے حرمتی کے مناظر سرکاری ٹیلی ویژن دوردرشن پر دکھائے گئے جس سے لوگوں کا خون کھول اٹھا۔ جس منصوبہ بند سازش کے تحت بابری مسجد کو عام پوجا پاٹ کے لئے کھولا گیا تھا، اسی سازش نے آگے چل کر ایک بڑے سیاسی کھیل کا رخ اختیار کیا اور اسی کھیل کے نتیجے میں بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت کا المناک ترین واقعہ رونما ہوا۔
بلاشبہ بابری مسجد کی عمارت آج اپنی جگہ پر موجود نہیں ہے اور وہاں رام مندر کا ایک عارضی ڈھانچہ کھڑا ہوا ہے، جسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہاں تک کہ کسی عدالتی فیصلے کے بغیر وہاں عظیم الشان رام مندر بنانے کے اعلانات کئے جارہے ہیں۔ حکمراں جماعت بچولیوں کی مدد سے نام نہاد مسلمانوں کو بابری مسجد کی ملکیت سے دستبرداری کے لئے آمادہ کرنے کا ڈھونگ بھی رچارہی ہے۔ اس کے برعکس بابری مسجد کے دستوری اور قانونی حقوق کی بات کرنے والوں کا گلا گھونٹنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے جب گزشتہ ہفتے کرناٹک کے اوڈوپی شہر میں یہ کہاکہ’’ ایودھیا میں متنازع مقام پر صرف رام مندر ہی بنے گا اور وہاں کوئی دوسرا ڈھانچہ نہیں بننے دیاجائے گا‘‘ تو لوگوں کا یہ یقین اور پختہ ہوگیا کہ حکمراں جماعت ہر صورت میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانا چاہتی ہے۔ مودی سرکار کو ہر طرف سے کنٹرول کرنے والی آر ایس ایس کا سربراہ جب یہ کہتا ہے کہ’’ جلد ہی ایودھیا میں بھگوا جھنڈا لہرائے گا‘‘ تو صورت حال کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ حالانکہ موہن بھاگوت کا یہ بیان سپریم کورٹ اور دستور ہند کو کھلا چیلنج ہے کیونکہ بابری مسجد کی ملکیت کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور عدالت کی طرف سے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قبل وہاں رام مندر بنانے کی ضد کرنا دستور اور عدلیہ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہے اور قانون کی پاسداری کرنے والے لوگ عدالتی فیصلے کا انتظار کررہے ہیں جبکہ سنگھ پریوار کے لوگ عدلیہ کو دباؤ میں لینے کے لئے دھمکیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ موہن بھاگوت کے اس انتہائی قابل اعتراض بیان کے باوجود ان سے کسی نے کوئی باز پرس نہیں کی۔ بھاگوت کو بخوبی احساس تھا کہ وہ اس معاملے میں کتنا ہی سخت بیان کیوں نہ دیں کوئی ان کا کچھ بگاڑنے والا نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہا کہ’’ یہ کوئی لوگوں کو لبھانے والا نعرہ نہیں ہے بلکہ عقیدت کا معاملہ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔‘‘ موہن بھاگوت نے یہ بھی کہاکہ’’ برسوںکے سنگھرش اور بلیدان کے بعد اب رام مندر کی تعمیر ممکن ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔‘‘ انہوں نے کہاکہ’’ مندر کی تعمیر اسی عظیم الشان انداز میں کی جائے گی جس انداز میں وہ پہلے موجود تھا۔‘‘
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ 80کی دہائی میں ایک منصوبہ بند سازش کے تحت شروع کئے گئے رام جنم بھومی مکتی آندولن نے ملک کی سیکولر سیاست اور جمہوری قدروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس آندولن کے نتیجے میں ملک کی ترقی کا ایجنڈا فرقہ وارانہ ایجنڈے کی طرف مڑگیا ہے۔ ملک کی سیاست کا بیڑہ غرق کرنے والی طاقتیں ایک بار پھر اپنے پرانی ڈگر پر واپس آگئی ہیں۔ اسی لئے سنگھ پریوار کے لوگ آج بھی پوری بے شرمی کے ساتھ ایودھیا تنازع کا سیاسی استحصال کررہے ہیں۔ انہیں صاف نظر آرہا ہے کہ 2019 کے عام انتخابات میں عوامی غم وغصے کا سیلاب مودی سرکار کو بہا لے جائے گا ۔ لہٰذا وہ ایک بار پھر ایودھیا تنازع کا سہارا لے کر دوبارہ اقتدا رمیں آنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں اور اسی مقصد کے تحت وہاں عظیم الشان رام مندر تعمیر کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا شور اتنا شدید ہے کہ لوگ آج بابری مسجد کی تعمیر نو کا مطالبہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اسی خوف اور بزدلی کا مشترکہ نتیجہ ہے کہ آج فرقہ پرست عناصر ایودھیا میں کسی بھی مسجد کی تعمیر کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی شہر ہے جہاں آج بھی کئی تاریخی نوعیت کی مساجد اور انبیاء کی قبریں موجود ہیں اور یہ وہی ایودھیا ہے جو کسی زمانے میں مسلم تہذیب اور ثقافت کا مرکز رہ چکا ہے۔ آج اس ایودھیا کو مذہبی جنونیوں نے فرقہ پرستی کے آتش فشاں میں تبدیل کردیا ہے۔ ایودھیا کو رام کی جنم بھومی قرار دے کر ہندوؤں کا سب سے بڑا مرکز بنانے کی سیاسی کوششیں عروج پر ہیں۔
گزشتہ 25برس کے دوران بابری مسجد انہدام سازش کیس کے مجرموں نے قانون کے ساتھ شرمناک حد تک آنکھ مچولی کھیلی ہے۔یہ عناصر ایک طرف تو فخریہ طورپر یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے غلامی کی نشانی کو مٹادیا لیکن جب ملک کا عدالتی نظام انہیں اپنے جرم کی سزا بھگتنے کے لئے کہتا ہے تو وہ منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اتنے ہی بڑے سورما ہیں تو خود کو قانون کے حوالے کیوں نہیں کرتے ۔اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کے سب سے سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ابھی تک کوئی ٹھوس قانونی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔ 25برس کا عرصہ یہ طے کرنے میں ہی گزر گیا کہ ان کے خلاف کن الزامات کے تحت مقدمات چلائے جائیں۔ اس معاملے میں جسٹس لبراہن کمیشن کی چشم کشا رپورٹ کے باوجود بابری مسجد کے ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی کی رفتا راتنی سست ہے کہ شاید ہی ان ملزمان کی زندگی میں اس مقدمے کا کوئی فیصلہ ہوپائے۔ بابری مسجد انہدام سازش کیس کے کئی کلیدی ملزمان پہلے ہی فوت ہوچکے ہیں اور اب چند لوگ ہی زندہ بچے ہیں۔ اس مسئلے کا سب سے زیادہ سیاسی استحصال کرنے والے بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی آج سیاسی جلاوطنی کی زندگی ضرور گزاررہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ 5دسمبر سے بابری مسجد کے حق ملکیت سے متعلق سپریم کورٹ میں شروع ہونے والی سماعت کا کیانتیجہ برآمد ہوتا ہے۔