نیشنل ہیرالڈ کیس معاملہ : مالی بدعنوانی یا سیاسی انتقام ؟

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
Shams-Tabrez-Qasmi-Pase-Aayenaہندوستان کے اولین وزیر اعظم پنڈٹ جواہر لال نہرو کا شروع کیا گیا اخبار نیشنل ہرالڈ ان دنوں اپنا وجود ختم کرکے بدعنوانی کا کا مقدمہ لڑرہاہے ، سبرامونیم سوامی کے ذریعہ دائر کی گئی ایف آئی آر پر بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سیاست عروج پر پہونچ گئی ہے ، کانگریس بدلے کی سیاست بتلارہی ہے تو بی جے پی اسے عدالتی کاروائی کہ رہی ہے ، کانگریس کے الزامات کو عدالت کے خلاف حملہ سے تعبیر کررہی ہے ۔عدالت میں پیشی کے لئے سمن جاری ہونے کے معاملے پر راہل گاندھی یہ کہ رہے ہیں کہ مودی حکومت سیاسی انتقام لینے کے لئے عدالت کا غلط استعمال کررہی ہے ، کانگریس صدر سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ ’’ میں اندرا گاندھی کی بہوہوں ، میں کسی سے نہیں ڈرتی ‘‘۔ دراصل یہ سب باتیں سونیا گاندھی نے اس وقت کہیں جب ان کے وکیل کی درخواست کو ہائی کورٹ نے مسترد کردیا ، گاندھی کے وکیل نے ایک عرضی دائر کرکے یہ اپیل کی تھی کہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہونے سے چھٹکارادیا جائے ساتھ ہی ان کے نام بھیجے گئے سمن کو بھی خارج کردیا جائے ۔ ہائی کورٹ کے ردعمل کے بعد جہاں ’’ماں بیٹے‘‘ نے سخت بیان دیا وہیں پارلیمنٹ سے لیکر سڑک تک ہنگامہ مچ گیا ، کانگریسی رہنماؤں اسے ملک کی جمہوریت کے لئے خطرہ قراردے دیا ، پارلیمنٹ کی کاروائی تک تھپ کردی گئی ، لوک سبھااور راجیہ سبھا میں کانگریسی ممبران پارلیمنٹ کے ہنگامے کو بی جے پی نے اس سے جوڑتے یہ کہ دیا کہ کانگریس عدالت کو نہیں مانتی ہے ، سونیا گاندھی کو عدالت میں حاضر ہونے سے چھٹکارا نہ دیئے جانے پر یہ پارلیمنٹ کی کاروائی نہیں چلنے دے رہے ہیں ، حالاں کہ کانگریسی لیڈارن کا یہ کہنا تھاکہ ہمارے ہنگامے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں یہی چرچا ہے کہ کانگریس کا یہ ردعمل عدالتی فیصلے کے پس منظر میں ہے ، میڈیا میں میں یہی بات موضوع بحث ہے کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی خود کو عدالت سے بالاتر سمجھتی ہیں ،جمہوریت میں انہیں یقین نہیں ہے ،عدالت میں حاضری دینے کو وہ اپنی توہین سمجھتی ہیں تاہم19 دسمبر ،2015کو پٹیالہ ہاؤس میں عدالتی حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے کانگریس صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہل گاندھی سمیت دیگر ملزمین کو حاضر ہوناپڑا، جہاں سے انہیں غیر مشروط ضمانت مل گئی ہے ۔آئیے پہلے ہم آپ کوبتاتے ہیں کہ کیا ہے نیشنل ہیرالڈ کا معاملہ اور کب سے اس واقعہ کی شروعات ہوتی ہے۔
1938 میں پنڈٹ جواہر لال نہرونے’’ نیشنل ہیرالڈ‘‘ کے نام سے ایک اخبار شروع کیا تھا ، اخبار چلانے کی ذمہ داری ایسوسیٹ جرنل لمٹیڈ نام کی ایک کمپنی کو دی گئی اور وہ خود تاحیات اس کے چیف ایڈیٹر رہے۔ اے جے ایل تقریبا5 ہزارمجا ہدین آزای کے مشترکہ تعاون سے وجود میں آئی تھی ، اس کمپنی کو آگے بڑھانے اور فروغ ردینے میں مجاہدین آزادی کی ایک بڑی تعداد پیش پیش تھی ۔تن تنہاکوئی شخص اس کمپنی کا مالک نہیں تھا ، 29 ستمبر 2010 کو جب کمپنی نے اپنی سالانہ رپوٹ پیش کی تو اس وقت کے کل شیئر ہولڈرز 1057 تھے۔ نیشنل ہیرالڈ اخبار کا اپنا ایک مقام تھا ، اس کی شہرت تھی ، صحافت کی دنیا میں اس اخبار نے بے مثال ترقی کی، ہندوستان کی آزاد میں اس اخبار کانمایاں رول رہا ، یہی وجہ ہے کہ 1941 میں برٹش حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی، لیکن ایک سال بعد پھر اس کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوگیا ، آگے چل کر اس کمپنی کے تحت دواور اخبار وجود میں آئے ایک اردو کا ’’قومی آواز‘‘ اور دوسرا ہندی زبان میں’’ نوجیون‘‘ ۔ نیشنل ہیرالڈ کا اردو ایڈیشن’’ قومی آواز‘‘ اردوصحافت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ، اس اخبار نے اردو صحافت کو نیا موڑدیا ،اس نے کئی نامور اور معروف صحافی پیدا کئے ، قومی آواز کا اپنا ایک معیار ہوتاتھا ، یہاکسی چیز کا چھپنا بہت معنی رکھتا تھا ۔آزادی سے قبل شروع ہونا والایہ اخبار خسارہ کا شکار ہوکر نہ چاہنے کے باوجود 2008 میں بند ہوگیا ۔
اخبار بند ہونے کے بعد26 فروری ،2011 کو دوبارہ اسے شروع کرنے کے لئے کانگریس نے اپنے پارٹی فنڈسے ایسوسیٹ جرنل لمیٹڈ کمپنی کو 90 کڑور روپے کا مفت لون دیا۔دوسری طرف23 نومبر 2010 میں پانچ لاکھ کڑورروپے کی پونجی سے ینگ انڈیا نام سے ایک پرائیوٹ کمپنی قائم ہوچکی تھی ،دسمبر 2010 میں راہل گاندھی جس کے ڈائریکٹر منتخب ہوئے،23 جنوری ،2011 میں سونیا گاندھی بورڈ ڈائریکٹرس کی فہرست میں شامل ہوئیں ۔ اے جے ایل کو لون دینا ، ینگ انڈیا کا قیام اور اخبار کی دوبارہ شروعات کا یہ منصوبہ کانگریس کے لئے ایک نئی مصیبت میں تبدیل ہوگیا اور ان پر یہ الزامات عائد ہوگئے کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے یہ سب کچھ نیشنل ہیرالڈ کی جائید اد کوہڑپنے کے لئے کیا ہے اور پھر معاملہ عدالت تک جاپہونچا ۔
یکم نومبر 2012بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے عدالت میں عرضی داخل کرکے یہ الزام عائد کیا کہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے کانگریس پارٹی سے لون دینے کے نام پر نیشنل ہیرالڈ کی دو ہزار کروڑ روپے کی جائیداد ضبط کر لی ہے،کانگریس نے پہلے نیشنل ہیرالڈ کی کمپنی ایسوسی ایٹ جرنلس لمیٹڈ کو 26فروری 2011کو 90کروڑ روپے کا قرض دیا،اس کے بعد پانچ لاکھ روپے سے ینگ انڈیا کمپنی بنائی، جس میں سونیا اور راہل کی 38-38فیصد حصہ داری ہے،بقیہ 24 فیصد میں کانگریس لیڈر موتی لال وورا اور آسکر فرنانڈیز کی حصہ داری ہے،اس کے بعد کے 10-10روپے کے نو کروڑ اسٹاک ینگ انڈیا کو دے دیے گئے اور اس کے بدلے میںینگ انڈیا کو کانگریس کا قرض اداکرناتھا،نو کڑور اسٹاک کے ساتھ ینگ انڈیا کو ایسوسی ایٹ جرنل لمیٹڈ کے 99فیصد حصص حاصل ہو گئے،اس کے بعد کانگریس پارٹی نے 90کروڑ کا قرض بھی معاف کر دیا،یعنی ینگ انڈیا کوخسارہ کی شکار کمپنی اے جے ایل کی ملکیت مل گئی۔
سبرامینم سوامی نے اس پس منظر میں بہت سے سولات بھی قائم کئے ہیں جیسے کہ سونیا راہل کی کمپنی ینگ انڈیا نے دہلی میں سات منزلہ ہیرالڈ ہاؤس کرایہ پر کس طرح اور کیوں دیا؟ اس کی دو منزلیں پاسپورٹ سروس سینٹر کرایہ پر دی گئیں جس کا افتتاح اس وقت کے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کیا تھا،یعنی ینگ انڈیا کرایہ کے طور پر بھی بہت پیسہ کما رہی ہے۔راہل نے ایسوسی ایٹڈ جرنل میں اسٹاک ہونے کی معلومات 2009 میں الیکشن کمیشن کو دیے حلف نامے میں چھپائی تھی اور بعد میں 2لاکھ 62 ہزار 411شیئر پرینکا گاندھی کو ٹرانسفر کر دیاگیا،راہل کے پاس اب بھی 47ہزار 513شیئر ہیں۔20 فروری 2011 کو بورڈ کی تجویز کے بعد ایسوسی ایٹ جرنل پرائیویٹ لمیٹڈ کو اسٹاک ٹرانسفر کے ذریعے ینگ انڈیا کو کس طرح ٹرانسفر کیا گیا جبکہ ینگ انڈیا کوئی اخبار یا جرنل نکالنے والی کمپنی نہیں ہے۔کانگریس کی طرف سے ایسوسی ایٹ جرنل پرائیویٹ لمیٹڈ کو بغیر سود 90 کروڑ روپے سے زیادہ قرض کس طرح دیا گیا جبکہ یہ غیر قانونی ہے کیونکہ کوئی سیاسی پارٹی کسی بھی تجارتی کام کے لئے قرض نہیں دے سکتی۔انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ دفعہ 29 اے ،عوامی نمائندگی دفعہ 1951 ،انکم ٹیکس 1961 کی دفعہ 13 اے ،کی روشنی میں کانگریس کا اے جے ایل کو لون دینا غیر قانونی ہے ، ساتھ ہی انہوں نے اس پورے معاملے کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کی مانگ کی ہے۔جبکہ دو نومبر کو کانگریس نے یہ وضاحت کی تھی عوام کا پیسہ کسی مفاد اور اقتصادی فائدہ کے لئے نہیں بلکہ اخبار کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے دیا گیا ۔جب ایسوسی جرنل کا ٹرانسفر ہوا تو اس کے زیادہ تر شییرزہولڈر مر چکے تھے ایسے میں ان کے اسٹاک کس کے پاس گئے اور کہاں ہیں؟کس طرح ایک پیشہ ور کمپنی (ینگ انڈیا) کی میٹنگ سونیا گاندھی کی سرکاری رہائش 10 جن پتھ پر ہوئی؟۔
اس معاملے میں تمام ثبوتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعدپٹیالہ ہاؤس عدالت نے الزامات کو قبول کرتے ہوئے کہاکہ یہ بات حقیقت لگتی ہے کہ ینگ انڈیا کمپنی نے اے جے ایل کی 2000 کڑور کی جائیدا کو پبلک منی سے پرسنل استعمال کے لئے ٹرانسفر کیا ہے ۔سونیا گاندھی، راہل گاندھی، سیم پترودا، موتی لال ووہرا اور سمن دوبے سمیت 6 لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے۔ نچلی عدالت نے 26جون 2014کو سبرامنیم سوامی کی شکایت پر سمن جاری کیا،اس کے بعد سونیا اور راہل کے وکیل نے عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہونے میں چھوٹ اور سمن منسوخ کرنے کو لے کر درخواست دائر کی تھی جسے 8 دسمبر 2015 کو دہلی ہائی کورٹ نے ٹھکرا دیا ،جج نے 27صفحے کے فیصلے میں کہا ہے کہ پورے معاملے پر اس منظم نقطہ نظر پر غور کرنے کے بعد، عدالت کو اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی تامل نہیں کہ ینگ انڈیا لمیٹڈ کے ذریعے ایسوسی جرنرلس لمیٹڈپر کنٹرول حاصل کرنے میں درخواست گزاروں کی طرف سے اپنایا گیا طریقہ کار، جبکہ کانگریس پارٹی،اے جے ایل اور وائی آئی کے اہم لوگ یکساں ہیں اور ان کے ارادے مجرمانہ نوعیت کے ہیں ۔جج نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ متعلقہ شکایت کے ملزم کے طور پر درخواست گزاروں کو طلب کرنے کے لئے کوئی معاملہ نہیں بنتا،سچ جاننے کے لئے درخواست گزاروں کے مشتبہ طرز عمل پر الزام کے مرحلے میں مناسب طریقے سے تحقیقات کی ضرورت ہے اور اس وجہ سے ان مجرمانہ کارروائیوں کو اس ابتدائی مرحلے میں مسترد نہیں کیا جا سکتا،جج نے یہ بھی رائے ظاہر کی ہے کہ درخواست گزاروں (سونیا، راہل اور دیگر) پر لگے الزامات کے نتیجے میں ایک قومی سیاسی پارٹی سے منسلک دھوکہ دہی کا احساس ہوتا ہے اور اس وجہ سے درخواست گزاروں پر لگے سنگین الزامات پر مناسب طریقے سے غور کئے جانے کی ضرورت ہے ۔
19 دسمبر،2015 کو پٹیالیہ ہاؤس کورٹ میں کانگریس صدر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی حاضر ہوئے ،ان کے علاوہ دیگر ملزمین بھی تھے ، کانگریس کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل تھے تو ادھر سبرامنیم سوامی مقدمہ کی پیروی کررہے تھے ، عدالت نے نیشنل ہیرالڈ معاملے میں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی سمیت دیگر تین ملزمین کو غیر مشروط ضمانت دے دی ہے، ساتھ ہی پاسپورٹ اور ویزا جمع کرنے سمیت سبرامونیم سوامی کی تمام درخواستیں عدالت سے مستردکردی گئیں۔
نیشنل ہیرالڈ کیس میں پٹیالہ ہاؤس عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کانگریس ہیڈکوارٹر میں صحافیوں سے کہا کہ میں آج عدالت میں صاف دل سے پیش ہوئی، جیسا کہ قانون پر عمل کرنے والے کسی بھی شخص کو کرنا چاہئے،ملک کا قانون بغیر کسی خوف اور تعصب کے لئے تمام پر لاگو ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے ذرا بھی شک نہیں کی سچائی سامنے آئے گی،ہم سیاسی مخالفین کے حملوں سے واقف ہیں،یہ سلسلہ نسلوں سے چلا آ رہا ہے یہ اور بات ہے کہ یہ لوگ ہمیں کبھی بھی اپنے راستے سے ہٹا نہیں پائے،مرکزی حکومت مخالفین کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہی ہے اور اس کے لئے سرکاری ایجنسی کا مکمل استعمال کر رہی ہے،ہم ڈرنے والے نہیں ہیں،ان کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی،کانگریس کے اصولوں اور غریبوں کے مفادات کے لئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ وہیں راہل گاندھی نے کہا کہ میں قانون کا احترام کرتا ہوں،مودی جی جھوٹے الزام لگواتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ اپوزیشن جھک جائے گا،ملک کے تمام شہریوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم نہیں جھکے ہیں،ہم غریبوں کے لئے لڑتے رہیں گے اور اپوزیشن کا کام کرتے رہیں گے،ایک انچ بھی پیچھے نہیں جائیں گے۔ معاملے کی اگلی سماعت 20 فروری 2016 کو کو دوپہر دو بجے ہوگی۔
نیشل ہیر الڈ کیس کے اس پورے معاملے میں سیاسی بدعنوانی کا بول بالا ہے اور بی جے پی کانگریس مفت بھارت منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پوری طاقت جھونک چکی ہے ،کانگریس اسے سیاسی سازش اور انتقامی کاروائی کا حصہ بتارہی ہے تو وہیں بی جے پی اسے بدعنوانی کا نام دے کر عالمی سطح پر کانگریس کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش میں ہے ، سچائی کیا ہے اور کس کی جیت ہوتی ہے اس کا فیصلہ ملک کی عدالت ہی کرے گی۔ اس دوران سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ زوال پذیر کانگریس اس کیس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے ،جس طرح 1977 میں شاہ کمیشن انکوائری کے معاملے میں اندرا گاندھی کی گرفتاری نے کانگریس کے مردہ جسم میں روح پھونک دیاتھا ، اس گرفتاری کے بعد اقتدار سے بے دخل کانگریس کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت ملی اور کانگریس کی حکومت میں واپسی ہوئی لیکن یہ 2015-16 ہے ، اندھی تقلید اور بے جاحمایت کا دور ختم ہوچکا ہے ،نئی نسل کسی لیڈر کے جیل جانے اور ان کے گھڑیالی آنسوبہانے سے انہیں اقتدار تک پہونچاد ے یہ مشکل ہے ۔stqasmi@gmail.com
(مضمون نگار معروف کالم نویس اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )

SHARE