بیت المقدس سے ہمارا رشتہ

مولانا ندیم الواجدی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی شدت پسندی اور اسلام دشمنی کے لیے مشہور ہیں، صدر منتخب ہونے کے بعد انھوں نے اپنی یہ دشمنی چھپا کر نہیں رکھی، کئی اسلامی ملکوں پر وہ اپنے ملک کے دروازے بند کرچکے ہیں، اگرچہ امریکی عدالتوں نے ان کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے، اور اب ان کا یہ فیصلہ کہ وہ اپنے ملک کا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم میں منتقل کرنے جارہے ہیں ان کی اسلام دشمنی کا کُھلا ثبوت ہے، یہ اعلان وہ جون ۷۱۰۲ء میں کرنے جارہے تھے لیکن سعودی عرب سے بڑھتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر انھوں نے عارضی طور پر اپنے قدم پیچھے ہٹالئے تھے، اب ۶/ دسمبر ۷۱۰۲ء کو انھوں نے اپنا یہ قطعی فیصلہ سنا دیا ہے، قدرتی طور پر اس اعلان سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں اضطراب اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، اگر مسلم ملکوں نے سخت اقدامات نہیں کئے تو وہ دن دور نہیں جب بیت المقدس کے مشرقی اور مغربی حصوں کو ملا کر اس کو راجدھانی بنانے کا وہ خواب پورا ہوجائے گا جو اسرائیل اپنے قیام کے روز اول سے دیکھتا آرہا ہے، ٹرمپ نے اس اعلان کے لئے دسمبر کا مہینہ اس لئے چنا ہے کہ آج سے ٹھیک سو سال پہلے دسمبر ۷۱۹۱ء میں برطانیہ نے ایک ماہ کی جنگ کے بعد عثمانیوں سے یہ شہر چھین لیا تھا، ۸۴۹۱ء میں جب برطانیہ کا انخلا عمل میں آیا تو ایک سازش کے تحت یہودیوں کو شہر کے مغربی حصے پر بسا دیا گیا، ۷۶۹۱ء میں اسرائیل نے بین الاقوامی طاقتوں کے بل بوتے پر بیت المقدس کے مشرقی حصے پر بھی قبضہ کرلیا جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے اور جس سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ہے، اس وقت سے آج تک اسرائیل بیت المقدس کے دونوں حصوں پر قابض چلا آرہا ہے، مسلم ملکوں میں اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے تسلط سے اس شہر کو آزاد کراسکیں، دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب مسلمانوں میں عمر بن الخطابؓ اور صلاح الدین ایوبیؒ جیسے بہادر پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں جنھوں نے عیسائیوں کو شکست دے کر اس شہر مقدس پر قبضہ کیا تھا۔ ۰۸۹۱ء میں اسرائیل نے یہ اعلان کرکے اپنے عزائم ظاہر کردئے تھے کہ وہ اس شہر کو اپنا دارا لحکومت بنانے جارہا ہے، اسی وقت اسرائیلی حکومت کے تمام دفاتر، پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، صدر اور وزیر اعظم کی رہائش گاہیں تل ابیب سے اس شہر میں منتقل کردی گئیں، اور آج تک وہیں موجود ہیں، بین الاقوامی برادری نے اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا، یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی ملک کا سفارت خانہ یہاں منتقل نہیں ہوسکا، امریکہ نے بائیس سال قبل ۵۹۹۱ء میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یہاں منتقل کردے گا، مگر آج تک اس کے سابقد صدور اس فیصلے پر عمل کرنے کی ہمت نہ کرسکے، اب اچانک ٹرمپ نے اس فیصلے پر عمل کرنے کا اعلان کرکے نہ صرف مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے بل کہ مسلم ملکوں کو چیلنج بھی دے دیا ہے کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ اس فیصلے کی مخالفت کرکے دکھلائیں۔ 

بیت المقدس پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے نے مسلمانوں کو سالہا سال سے بے چین ومضطرب کر رکھا ہے، اور فی الحال ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی کہ مسلمان اپنے اس شہر کو اسرائیل کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرالیں گے، اگرچہ اسرائیل پر اقوام متحدہ کی طرف سے بہت سی پابندیاں عائد ہیں مگر وہ کسی بھی بین الاقوامی دباؤ کو قبول نہیں کرتا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ امریکہ سمیت تمام بڑی طاقتیں اس کے ساتھ ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود اس شہر مقدس میں نئی نئی کالونیاں تعمیر کررہا ہے اور دور دراز کے علاقوں سے یہودیوں کو لا کر یہاں بسایا جارہا ہے تاکہ ان کی تعداد قدیم فلسطینی باشندوں کی تعداد کے مقابلے میں زیادہ ہوجائے، اسرائیل منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ مسجد اقصی کو صفحہئ ہستی سے مٹا دیا جائے جو مسلمانوں کا قبلہئ اول بھی ہے اور جس کو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قدر سے یہ نسبت بھی حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات یہاں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد میں تحیۃ المسجد ادا فرمائی اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی جو پہلے سے وہاں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے منتظر تھے، یہیں سے آپ براق پر سوار ہوکر آسمان پر تشریف لے گئے، یہود چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا یہ مرکز روئے زمین سے نیست ونابود کردیا جائے، اس منصوبے کو بروئے عمل لانے کے لئے یہودی ۷۶۹۱ء سے لگاتار سازشیں کرنے میں مصروف ہیں، کبھی آثار قدیمہ کی تحقیق وجستجو کے نام پر مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے کھدائی کی جاتی ہے اور کبھی اس کے صحن میں، مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ کسی طرح مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کمزور پڑجائیں اور یہ عظیم مسجد خود بہ خود زمیں بوس ہوجائے۔ 

 عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ دونوں ایک ہی عمارت کے دو نام ہیں،یہ غلط فہمی ان تصویروں کے ذریعے پھیلی ہے جن میں سنہرا قبتہ الصخرۃ نظر آتا ہے اور جس کے برابر میں لکھا رہتا ہے بیت المقدس، حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس ایک قدیم شہر کا نام ہے جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے، اور جس کے صحن میں دل کش قبۃ الصخرہ موجودہے، اس کے علاوہ بھی وہاں مسجد یں اور قبّے ہیں، انبیاء کرام کی قبریں ہیں، اوردوسری یادگاریں ہیں، یہ دنیا کا واحد شہر ہے جسے دنیا کے تین بڑے مذاہب کے لوگ اپنی اپنی عقیدت کا مرکز بنائے ہوئے ہیں، مسلمان اس شہر سے اس لیے عقیدت ومحبت رکھتے ہیں کہ یہاں ان کا قبلہئ اوّل اور حرم ثالث مسجد اقصیٰ موجود ہے، اس مسجد کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ معراج کی رات سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس مسجد میں تشریف لائے، یہاں انبیاء کرام کی امامت فرمائی اور یہیں سے معراج کے سفر پر تشریف لے گئے، عیسائی اس شہر سے اس لیے عقیدت رکھتے ہیں کہ یہاں سے تقریباً پندرہ کلو میٹر دور واقع تاریخی شہر بیت اللحم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، ہر وقت دنیا بھر سے عیسائیوں کے قافلے یہاں آتے جاتے رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس شہر میں کھجور کا وہ درخت آج تک موجودہے جس کی کھجوریں حضرت مریم علیہا السلام نے وضع حمل سے پہلے یا بعد میں کھائیں تھیں، اس درخت کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے، یہودی اس شہر کوا س لیے مقدس سمجھتے ہیں کہ یہ شہر حضرت سلیمان علیہ السلام کا دارالخلافہ رہا ہے، اور بہ قول ان کے یہاں ان کا تعمیر کردہ ہیکل موجود تھا جس کو گراکر مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ تعمیر کی ہے۔بیت المقدس کی فضیلت اور عظمت کے لئے صرف اس قدر عرض کردینا کافی ہے کہ قرآن کریم میں اس ارض مقدس کا ذکر کم از کم چھ مرتبہ آیا ہے اور جہاں بھی آیا ہے قرآن کریم نے اس کا ذکر ”برکت اور تقدس“ کے ساتھ کیا ہے، پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد انتہائی تقدس اور فضیلت کا حامل ہے، تمام مفسرین اس پر متفق ہین کہ یہاں برکت سے مراد ظاہری اور باطنی ہر طرح کی برکات ہیں، ایک طرف تو یہ سینکڑوں انبیاء ورُسل کا مسکن اور مدفن رہا ہے دوسری طرف اللہ کی عطا کردہ مادّی نعمتوں سے بھی بہرہ ور ہے۔ 

بیت المقدس ہزار وں سال قدیم شہر ہے، بہت سے عرب قبائل یہاں آکر آباد ہوئے، جیسے معموری، آرامی، کنعانی، قدیم زمانے میں اس شہر کو یبوس بھی کہا جاتا تھا، جو کنعان کے قدیم قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام ہے، ارض فلسطین کو ارض کنعان بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں کنعانی نسل کے بہت سے قبیلے بھی رہ چکے ہیں، کچھ عرصے کے بعد اسے یورسالیم کہا جانے لگا جو اب یروشلم ہوگیا ہے، اور یہودی اسے یروشلم ہی کہتے ہیں، جس وقت افریقی اوررومن نسل کے لوگ یہاں آباد ہوئے اس وقت اس شہر کا نام ایلیاء تھا، حضرت عمر ابن الخطابؓ کے عہد خلافت میں یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آیا تو اس کا نام تبدیل کرکے بیت المقدس رکھ دیا گیا جس کے معنی ہیں پاک گھر، مبارک ومقدس سرزمین (معجم البلدان: ۵/ ۱۶۶) یہ۶۱ھ کی بات ہے، لگ بھگ پانچ سو سال تک مسلسل یہ شہر مسلمانوں کے پاس رہا، عباسی حکمراں کمزور پڑے تو صلیبیوں نے ۲۹۴ھ میں ا س پر قبضہ کرلیا، لگ بھگ نوے سال تک یہ شہرغیر مسلموں کے پاس رہا، یہاں تک کہ ۳۸۵ھ میں مجاہد اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی ؒنے اسے دوبارہ فتح کرکے اسلامی شہروں کی فہرست میں شامل کرلیا، اس وقت سے ۸۴۹۱ء تک مسلمان ہی اس شہر پر حکمراں رہے، ارض فلسطین پر جس میں بیت المقدس واقع ہے پہلی عالمی جنگ تک ترکوں کا قبضہ رہا، ۷۱۹۱ء میں پہلی مرتبہ برطانوی افواج بیت المقدس میں داخل ہوئیں، اس زمانے میں ساری دنیا سے یہودی بہ کثرت نقل مکانی کرکے فلسطین میں آبسے تھے، برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے یہودیوں کے لیے مستقل ملک کی تجویز رکھی اور ۸۴۹۱ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا، فلسطین کے مغربی حصے پر جو پچیس فی صد علاقے کو محیط ہے یہودی قابض ہوگئے اور انھوں نے تل ابیب کو اپنا پایہئ تخت بنالیا، باقی مشرقی فلسطین میں عرب رہتے رہے، ۷۶۹۱ء میں مشرقی فلسطین کا بڑا حصہ بھی یہودیوں نے ہتھیالیا، پہلے بیت المقدس کا نظام اردن کے ہاتھ میں تھا، اب اس پر بھی یہودی قابض ہیں، یہودیوں کے پاس اس وقت ارض فلسطین کا بیس ہزار چارسو مربع کلو میٹر کا رقبہ ہے، اس علاقے کی کل آبادی ستر لاکھ ہے، جس میں مسلمانوں کا تناسب صرف بیس فی صد ہے، پہلے یہ تناسب پچاس فی صد سے زیادہ تھا، فلسطین کے حالات سے مجبور ہوکر مسلمانوں کی بڑی تعداد ہجرت کرکے آس پاس کے ملکوں میں منتقل ہوگئی ہے جہاں وہ نہایت کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جو لوگ فلسطین میں باقی ہیں وہ بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر زندگی بسر کررہے ہیں اگر چہ ۳۹۹۱ء میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو خود مختاری  دینے کے معاہدے پر دستخط کئے تھے، لیکن عملاً اب بھی وہاں اسرائیل ہی کا حکم چلتا ہے، بے قصور مسلمانوں پر اسرائیل کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ امریکی اعلان صرف سفارت خانہ منتقل کرنے کی سادہ سی کاروائی نہیں ہے بل کہ وہ مستقبل کے عزائم کا اظہار بھی ہے، اگر ہمارے مسلم ملک اسی طرح خانہ جنگی میں مبتلا رہے، اور اسی طرح اپنے مفادات کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہے تو وہ دن دور نہیں کہ بیت المقدس ہی نہیں بل کہ فلسطین کے دوسرے شہر بھی اسرائیل میں ضم ہوجائیں گے، اس کے ساتھ ہی بیت المقدس سے مسجد اقصیٰ اور دوسرے اسلامی آثار کا وجود بھی مٹ جائے گا، ہم آج تک ۷۶۹۱ء کی جنگ میں چھینے گئے علاقے اسرائیل سے واپس نہ لے سکے، مستقبل میں بیت المقدس، غزہ اور الخلیل جیسے شہر بھی اسرائیل نے نگل لئے تو ہم ان کو بھی واپس نہیں لے پائیں گے۔ 

nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں