مولانا عبد الرشید طلحہ نعمانی
مستند و معتبر تاریخ اسلام کا زریں آغاز اگر کسی مقدس ہستی کے بابرکت تذکرہ سے ہوسکتا ہے تو بلاشبہ سرورکا ئنات ، فخر موجودات ، امام الانبیاء سرکار دو عالم ﷺ کی انقلاب آفریں اور عہد ساز شخصیت ہی بجا طور پر اس بات کی اولین حقدار ہے ۔جن کے دم سے انسانیت کے خزاں رسیدہ چمن میں بہار نو آئی، جس ماہتاب کی ایک ہی کرن نے ظلمت کدہ گیتی کو مطلع انوار بنادیا اورجس نے ۳۲ سالہ اس قلیل عرصہ میں حق وصداقت ،ر شد وہدایت اور تہذیب و ثقافت کی ایسی قندیلیں روشن کی کہ قیامت تک آنے والی ساری انسانیت انہیں سے رہنمائی وروشنی حاصل کرتی رہے گی ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے لے کر وفات تک کے تمام احوال نیز آپ ﷺ کی ذات مقدس وصفات عالیہ، عبادات ومعاملات، فضائل ومعجزات، احوال وارشادات وغیرہ کے جامع بیان کوسیرت کہتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی سیرت کی اہمیت کو جاننے سے پہلے انسانی دنیا کی نامور تاریخ ساز شخصیات کا ایک طائرانہ جائزہ لے لیاجائے تو آپ ﷺ کی سیرتِ پاک کی اہمیت اور اچھی طرح نکھرکر سامنے آسکتی ہے ۔
انسانی دنیا میں ویسے تو لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں انسان پیدا ہوئے اور گذرگئے ؛ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی گذرے ہیں ،جن کی زندگی کے آئینہ میں بعد کے لوگ اپنے آپ کو سنوارنے و بنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اُس علم و فن میں انہیں اپنے لیے ایک آئیڈیل و نمونہ تسلیم کرتے ہیں ، جن میں شاہانِ دنیا، فاتحینِ عالم، سپہ سالار، حکماء، اطباء، فلاسفر، شعراء، امراء، قانون ساز، سائنٹس اور انجینئرس وغیرہ سرفہرست ہیں؛ لیکن ان میں سے کسی کی عملی زندگی میں ان کے متعلقہ علم و فن کے علاوہ دنیا کی پیدائش کا مقصد، انسانی فلاح و بہبود کا محور، حسن معاشرت وحسنِ اخلاق وغیرہ کاادنی تصور بھی نہیں ملتا کہ جن کو لائقِ تقلید و قابل نمونہ بنایا جاسکے۔
ہاں! شاہانِ مملکت و فاتحینِ عالم نے اپنی بادشاہت وکامیابی کے خوب جلوے دکھائے ، پرشکوہ محلات و دربار سجائے اور اپنی بادشاہت و وجاہت کے دنیا پر خوب رعب و دبدبے جمائے ؛ لیکن انسانوں کو اوہام پرستی و خیالاتِ فاسدہ کی قید و بند سے نہ چھڑا سکے اور نہ ان کو روحانی بیماری و ناامیدی کے دلدل سے نکال کر روحانی صحت و امید کی صاف ستھری زمین پر لاکھڑا کرسکے ؛ اسی طرح فوج کے سپہ سالاروں نے، ملکوں ، خزانوں اور انسانی جسموں کو فتح کرنے کے خوب کارنامے انجام دیئے اور رہتی دنیا تک تاریخِ انسانی میں اپنا نام سنہری حرفوں سے رقم کروالیا ؛ لیکن روحانی سکون اور اخلاقی اقدار کو فتح کرنے کے کارنامے انجام نہ دے سکے ؛ اسی طرح کئی ایک اطباء، حکماء اور فلاسفر بھی اِس دنیا میں گذرے ہیں ؛ جنہوں نے اپنے فن و فلسفہ کی مددسے مرتے ہوئے کو بچالیا ، اپنی کمالِ عقل سے نظامِ عالم کے نقشے کوتبدیل کر دیا ، نیز عجائباتِ دنیاکے حیرت انگیز کارناموں ، نظیروں اور پیشین گوئیوں کو دنیا کے سامنے آشکارا کردیا اور علمِ اخلاق کے وہ فلسفیانہ اسرار و رموز دنیائے انسانیت کے سامنے رکھ دیئے کہ دنیا اُن کو سن کر حیران و ششدر رہ گئی؛ لیکن وہ اپنے علمِ طب و فلسفہ سے روحانی بیماریوں کی دواؤں کے نسخے ترتیب نہ دے سکے اور نہ عملی مثال ونمونہ پیش کرسکے ، جس کی بناءپرفلاسفہ کے وہ اخلاقی نظریات اور جملہ اسرار و رموز، گفت و شنید ہی کی حد تک محدود رہ گئے ، اُس سے آگے نہ بڑھ سکے؛ اس لیے کہ اُن میں سے کسی نے اُن نظریات کی ترجمانی کرنے والی کوئی عملی شخصیت بطورِ نمونہ، عام انسانوں کے سامنے پیش نہیں کی کہ جس کو دیکھ کر لوگ فلسفیانہ اخلاقی اقدار اپنا سکیں؛ کیوں کہ انسانی زندگی میں اخلاقی اقدار صرف کانوں سے سن سن کر منتقل نہیں ہوتے ؛ بلکہ کانوں سے سننے کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے کسی کو اُس پر عمل کرتا دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے ؛ جس طرح اِن اطباء، حکماء اور فلاسفہ کی زندگیاں انسانی فلاح و بہبود کا کوئی عملی نمونہ پیش نہ کرسکیں، اسی طرح شعرا، امراء اور قانون سازوں کی زندگیاں بھی فلاحِ دارین کا کوئی نمونہ نہ دکھلا سکیں؛ جہاں تک شعراء کا تعلق ہے تو وہ خیالی دنیا کے شہنشاہ ضرور ہیں جو زمین و آسمان کے خلاﺅں کو ملانے پر قدرت رکھتے ہیں؛ بلکہ خیالی دنیا میں تو ناممکن کو بھی ممکن بنادیتے ہیں؛ لیکن عملی زندگی میں پوری انسانیت کو سامنے رکھ کر کوئی کامیاب و کامران زندگی پیش نہیں کرسکتے کہ جس پر چل کر ایک عام آدمی دارین کی کامیاب زندگی گزار سکے ۔
اِسی طرح ایک طرف امراء اور دولتمندوں کی داستانیں ہیں جو ہم کومال ودولت کمانے کے راز ہائے سربستہ تو بتاتی ہیں؛ لیکن اُس صحیح زندگی کے گر کا پتہ نہیں بتاسکتیں جو دنیا و آخرت کی کامیاب زندگی کی ضامن ہو اور دوسری طرف قانون سازوں کے قانون اور اُن کی عملی زندگیاں ہیں یہ بھی انسانی فلاح و کامیابی کی ضمانت نہیں دیتیں اس لیے کہ جو قانون وضع کیے گئے ہیں وہ صرف اِس دنیا کی حیات ہی کی حد تک محدود ہیں اور وہ بھی ناقص۔ جوآئے دن بدلتے رہتے ہیں؛ بلکہ وہ قوانین تو حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور حکومت کی بقا و استحکام کے لیے وضع کیے جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ ہر حکمران اپنے دورِ حکومت میں اپنی مرضی و پسند کے قوانین وضع کرواتا ہے اور سابقہ حکمرانوں کے قوانین کوحرفِ غلط کی طرح کاٹ دیتا ہے۔ آج بھی اِس مہذب دور میں بھی یہی صورتِ حال قائم ہے کہ آئے دن آئین ساز کمیٹی متعدد قوانین بناتی ہے اور انہیں بسا اوقات نفاذ سے پہلے ہی کالعدم کردیا جاتا ہے۔
اسی طرح سائنسدانوں و انجینئروں نے اپنی تاریخی زندگی سے تو ستاروں وسیاروں سے لے کرذرات تک کی تحقیقات کو انسانیت کے سامنے رکھ دیا اور اس کائنات کے پوشیدہ خزانوں کو کھول کر دکھا دیا؛ لیکن ان کے یہ کارنامے حقیقی خدااور دائمی زندگی کا احساس نہ دلاسکے ۔
اِن میں سے ہرایک کی عملی زندگی اُن کے اپنے علم وفن کی حد تک تو شاید لائقِ تقلید ہوسکتی ہے ؛ مگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اِن میں سے کسی کی عملی زندگی نہ اچھائیوں کے اقدار بتاسکی اور نہ برائیوں کے حدود قائم کرسکی، نہ انسانیت کو اوہام پرستی و خیالاتِ فاسدہ کے دلدل سے نکال سکی اور نہ برادرانہ باہمی تعلقات کی گھتی سلجھا سکی کہ جس سے انسان کی معاشرت درست ہو اور وہ روحانی مایوسیوں اور ناامیدیوں کا مداوا ثابت ہو؛ جس سے نسلِ انسانی سے روحانی و اُخروی مشکلات دُور ہوں اور دلوں کی بستی میں امن وامان قائم ہو۔
مقدم الذکر تمام سرکردہ شخصیات نے کسی درجہ میں ملک کے ظاہری نظم و نسق کو تو درست کرلیا؛ لیکن روحوں کی مملکت اور دلوں کی دنیا کا نظم و نسق درست نہ کرسکے ، یہ کام اِن حضرات سے اس لیے بھی نہ ہوسکا کہ یہ اِن کا موضوع نہ تھا اور نہ وہ لوگ یہ کام کرسکتے تھے ، اس لیے کہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے جماعتِ انبیاء علیہم السلام کا انتخاب فرمالیا تھا اور اس سلسلہ کی آخری کڑی سرکار دو عالم ﷺ تھے۔
انقلاب آفریں شخصیت کا ظہور:
۹؍یا۲۱، ربیع الاول ،مطابق ۲۲، اپریل ۰۷۵ء بہ روز دوشنبہ صبح صادق کے سہانے وقت اس شمع فروزاں، مہر درخشاں اور نیر تاباں کا ظہور مسعود ہوا؛ جس نے نظامہائے حیات کے مختلف گوشوں میں ایسے قابل قدر اور لائق تقلید ان مٹ نقوش چھوڑے کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہے ، راقم ِ آثم حیراں و سرگرداں ہے کہ اس ذات اقدس کی کتاب ِ زندگی کا کونسا ورق کھولے ، چمنستان سیرت کے کس گلدستہ کو پیش کرے ، گلشن حیات کے کس خیاباں کا تذکرہ کرے ، اخلاق و اعمال کا باب کھولاجائے ، یا سیاست و اقتدار کا، شجاعت و بہادری کی سرگذشت بیان کی جائے یا طہارت و پاکیزگی کی ، عدل و کرم گستری کے حالات بیان کئے جائیں یا سخاوت و غرباء پروری کے ، آپ کی سیرت و شخصیت اتنی جامع، ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے کہ جذبۂ عشق سے سرشار ایک عاشقِ رسول نے اس کی یوں نقشہ کشی کی ہے:
’’سلاطین کہتے ہیں شاہی دربار تھا کہ فوج تھی، علم تھا ، پولس تھی، جلاد تھے ، محتسب تھے ، گورنر تھے ، کلکٹر تھے ، منصف تھے ، ضبط تھا، قانون تھا۔
مولوی کہتے ہیں : مدرسہ تھا کہ درس تھا ، وعظ تھا ، قضاء تھا تصنیف تھی، تالیف تھی ، محراب تھی ، منبر تھا ۔
صوفی کہتے ہیں خانقاہ تھی کہ دعا تھی ، جھاڑ تھا ، پھونک تھی ، ورد تھا، وظیفہ تھا ذکر تھا ،شغل تھا، تخت (چلہ ) تھا، گریہ تھا، بُکاء تھی، وجد تھا ، حال تھا، کشف تھا، کرامت تھی، فقر تھا، فاقہ تھا، زہد تھا، قناعت تھی ۔
مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ سب کچھ تھا اس لئے کہ وہ سب کے لئے آیا تھا آئندہ جس کسی کو چلنا تھا جہاں کہیں چلنا تھا ، جس زمانہ میں چلنا تھا اسی روشنی میں چلنا تھا۔
(النبی الخاتم :مولانا مناظر احسن گیلانی )
بے شمار قلم کاروں ، سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا اور نہایت لطیف ، انوکھے اور اچھوتے پیرایۂ بیان میں ان کو اس طرح رقم کیا کہ آپ کی سیرت مبارکہ کا ایک ایک جز بلا کم وکاست صفحات ِ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا؛ مگر چونکہ عبادات و طاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اور عاداتِ شریفہ پر برابر لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتار ہے گا اس لئے زیر نظر اس مختصر سی تحریر میں سیرت النبیﷺ کے ان چند خاص گوشوں کو موضوع بنا گیا ہے جن کو عادتاً کم ہی بیان کیا جاتا ہے ۔
اخلاق نبوی کی جامعیت :
انسانی فطرت کی رنگا رنگی، طبائع کا تنوع، مزاجوں کا تلون اور کسی بھی واقعہ یا حادثہ سے مثبت ومنفی اثر لینے کی کیفیات میں جو اختلاف و تعدد پایا جاتا ہے اس کا اقتضاء یہی ہے کہ ہمارا اخلاقی نظام ایسا متوازن و معتدل ہو کہ اس میں نرم و گرم اور جلال و جمال دونوں قسم کی قوتوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہو، نہ شروع سے آخر تک مسیحیت کی انفعالیت اور عاجزی ہو نہ شریعت موسوی کی قانونیت اور سختی ، اسلامی اخلاق کی سب سے بڑی خوبی جو اس کو دوسرے مکاتب اخلاق پر فوقیت دیتی ہے ،اس کے معلم کا وہ عظیم الشان اسلوب تعلیم ہے؛ جس کی مثال تاریخ کو لاکھ کھنگالنے پر بھی کہیں نہیں ملتی کیونکہ آپ نے قول کے ساتھ عمل اور گفتار کے ساتھ کردار کو ایسا ہم آہنگ اور مربوط فرمایا کہ خود آپ کی ذاتِ اقدس قرآن مجید کی جیتی جاگتی ، زندہ اور تابندہ تصویر بن گئی ، کیونکہ آپ ﷺ کردار کے اعلیٰ ترین معیار پر فائز ، مکارم اخلاق کے متمم اور تحریکِ رحمت کے وہ عظیم الشان محرک ہیں کہ آپ ہی کی حسین و پُرکشش شخصیت (جو ایمان کی جوہری توانائی سے موفور اور سوز محبتِ انسانی سے معمور ہے ) کے اثر و نفوذ سے رفقائے تحریک (صحابہؓ) کے دل میں بے مثال جوش و ولولہ ، شخصیت میں جاذبیت ، عز م میں پختگی ، حوصلوں میں جوانی اور دعوت میں اثر انگیزی پیدا ہوئی ، مختصر الفاظ میں اگر آپ ﷺ کی بے مثل شخصیت کا نقشہ کھینچا جائے تو بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ: محبت جس کی بنیاد، ذکر جس کا انیس، غم جس کا رفیق، علم جس کا ہتھیار ، صبر جس کا لباس، عجز جس کا فخر، زہد جس کا پیشہ، یقین جس کی قوت، صدق جس کی طاقت، شوق جس کی سواری، اور عقل جس کی اساس ہے وہی نبی اکرم شفیع اعظم حضور ﷺ کی ذاتِ والا صفات ہے ۔
نبوی قیادت و سیادت:
کسی بھی انقلاب کی کامیابی کا دارومدار اس کے قائد و رہنما کی فطری صلاحیتوں، انتھک محنتوں اور لازوال قربانیوں پر ہے، نبی اکرم ﷺ نے حق کی بلندی اور اس کی اشاعت و حفاظت کے لئے ہر قسم کی جدوجہد ، قربانی، ایثار اور درگذر سے کام لیا اور ہر قسم کی فتنہ انگیزی اور شرپسندی کا قلع قمع کرتے ہوئے، امن و آشتی، اخوت و ہمدردی اور محبت و بھائی چارگی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ اپنے تو اپنے اغیار بھی آپ کی رحمت و رافت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے، آپ کی سیرت مبارکہ میں کوئی بھی واقعہ ایسا نہیں ملتا جو دین کی جبراً اشاعت کی نظیر بن سکتا ہو ، ہاں اس کے برخلاف لطف و کرم، ہمدردی و غم گساری اور عفو و چشم پوشی کے لاتعداد واقعات آپ کی صحیفۂ حیات کے ورق ورق پر بکھرے پڑے ہیں جو پتھر دلوں کو موم کردیتے ہیں ۔
ہجرت نبوی ﷺ:
جب مکہ کی سرزمین آپﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ پر تنگ کردی گئی تو بحکم الٰہی آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی؛ جس سے یہ بات ثابت کرنی تھی کہ دعوت و عقیدہ کی خاطر ہر عزیز و قریب اور ہر مانوس و مرغوب چیز کو ترک کردینا ضروری ہے؛ کیونکہ یہی دونوں چیزیں دنیا وآخرت کا گراں قدر سرمایہ اور کامیابی و کامرانی کا حقیقی سرچشمہ ہے، اکثر مغربی مصنفین نے ہجرت کے لئے فرار کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے آپ کے میدان چھوڑ کر بھاگ نکلنے کا غلط تصور قائم ہوسکتا ہے جب کہ یہ بات قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہے ؛ کیونکہ مکة المکرمہ سے مسلمانوں کا ہٹ جانا ایک دفاعی اقدام تھا تاکہ مدینہ جاکر اپنی منتشر قوت کو مجتمع کیا جاسکے ، اور باقاعدہ کوئی مضبوط و مستحکم پلیٹ فارم تیار کیا جاسکے جس کے بعد دعوت و تبلیغ کے زمزمے بلند کئے جائیں اور احقاقِ حق و ابطالِ باطل کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا جائے ، ورنہ غور کیجئے ایک اولو العزم پیغمبر جس کی پشت پر تائیدِ الٰہی ہو ، جو خود دعوت ِ حق پر مامور کیا گیا ہو ، کیا وہ دشمن کے خوف سے راہ فرار اختیار کرسکتا ہے ؟؟؟ معاذ اللہ ۔
عہد نبوی ﷺمیں تعلیمی نظام :
ہجرت سے قبل مکة المکرمہ میں تو کوئی مستقل تعلیمی مرکز نہیں تھا خود سرکار دو عالم ﷺ کی ذات اقدس ہی ایک متحرک دینی درسگا ہ تھی، ہر تشنہ لب اسی میخانہ سے اپنی تشنگی دور کرتا اور ہر پیاسا اسی چشمہ صافی سے سیرابی حاصل کرتا؛ مگر مدینہ طیبہ میں تعلیمی نظام کو منظم کیا گیا اور مسجد ہی کے ایک گوشہ کو اس کے کئے مختص کردیا گیا اس طرح صحابہؓ کی ایک ایک جماعت مستقل وہاں مقیم ہوگئی جن کی غرض صرف ’’ اقرأ ‘‘ کے قرآنی پیغام پر عمل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہونچانا تھا اس کے علاوہ بھی دور دراز مقامات سے مختلف قافلے بغرض تعلیم آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دین کا ضروری علم حاصل کرتے ۔
امت مرحومہ کی حالت ِ زار :
آج ہماری زبانیں کہتی ہیں کہ رسول ِ خدا کا طریقہ بر حق ہے، ان کی زندگی بے مثال ہے ان کا حکم واجب الاطاعت ہے اور ساری دنیا کی فوز و فلاح ان ہی کی اتباع میں مضمر؛ مگر ہمارا عمل کہتا ہے کہ ان کا بتایا ہوا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں ، ان کے کسی بھی حکم پر ہم رضامند نہیں ، نہ ہمیں ان کی تعلیم محبوب ہے نہ تبلیغ، نہ ان کے مشن سے دلچسپی ہے نہ زندگی سے ، بلکہ ہم دنیا کی نیرنگیوں میں مست اور کائنات کے بھول بھلیوں میں محو ہوچکے ہیں ؛اس لئے آج کے اس دور میں دردر کی ٹھوکریں کھائی ہوئی امت مرحومہ کے لئے اس محسن انسانیت کا اگر کچھ پیغام ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ اپنے معمولات اور طرز حیات میں انہی کے طریقوں اور سنتوں کو زندہ کیا جائے ، ان جیسے اخلاق وکردار کو اپنا یا جائے اور ان کی متعین کردہ شاہ ِ راہ علم و عمل کو اختیار کیا جائے؛ جس سے ایک با ر پھر ہم زندگی کے مرجھائے ہوئے نقوش میں رنگ بھر سکتے ہیں ، دل کے تاریک گوشوں کو روشن کرسکتے ہیں اور مادیت سے متاثر مغرب زدہ انسانیت کو حیات نو بخش سکتے ہیں ۔
نفش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے