ڈاکٹر یامین انصاری
اپنے زہر آلود اور اشتعال انگیز بیانات کے لئے بدنام بی جے پی کے لیڈر سبرامنیم سوامی نے سابقہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران بڑی بے باکی سے کہا تھاکہ وہ اس ملک کے ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو آپس میں منتشر کرنا چاہتے ہیں۔ انٹرویو کرنے والے اینکر کے یہ کہنے کے باوجود کہ آپ جو حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں وہ ملک کے لئے بہت خطرناک ہے، اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس ملک میں ہندو ۸۰؍ فیصد ہیں اور مسلمان ۱۴؍ فیصد ہیں، اگر ۷؍ فیصد مسلمان بھی ہمارے ساتھ آجائیں تو ہمارا کام ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی سوامی اکثر و بیشتر اس طرح کے خفیہ منصوبوں کو منظر عام پر لاتے رہتے ہیں۔ لہذا اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی کہ مسلمانوں کے اندر موجود مسلکی تنازعات کو ہوا دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یوں بھی مرکز میں نئی حکومت کے قیام کے بعد مسلمانوں کے لئے حالات مسلسل نا سازگار ہو تے جا رہے ہیں۔اس صورت حال میں مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے تھے، مخالفین کے منصوبوں اور عزائم کو سمجھنا چاہئے تھا، ملک کی سیاست اور حالات کس سمت جا رہے ہیں ان پر نظر رکھنی چاہئے تھی۔ کیوں کہ سیاستدانوں کا تو مقصد ہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو آپس میں دست و گریباں کر کے سیاسی روٹیاں سینکیں جائیں۔فی الحال مسلمانوں کے حالات بتا رہے ہیں کہ سبرمنیم سوامی جیسے لیڈر اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران مسلمانوں کی صفوں میں مسلسل انتشار کی خبریں عام ہو رہی ہیں۔
مسلمانوں کے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ جب وقت اور حالات اُن کے خلاف ہوں، اُن پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہو،اُن کے کھانے پینے ، بولنے اور لکھنے تک پر پہرہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہو، دشمن طاقتیں اُن کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے سازشیں کر رہی ہوں، ٹھیک ایسے وقت میں اپنے باہمی اختلافات اور مسلکی تنازعات کو ہم خود ہوا دیں، انھیں منظر عام پر لائیں اور دشمنوں کو یہ باور کرا دیں کہ اُن کے عزائم کو منزل مقصود تک پہنچانے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئے گی۔پچھلے دنوں ملک کی راجدھانی دہلی میں محض ۱۰؍ روز کے اندر تین مختلف مسالک کی تین بڑی کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ ظاہری طور پر ان کانفرنسوں کے اغراض و مقاصد جو بھی رہے ہوں، لیکن مجموعی طور پرایک عام ہندوستانی مسلمان کو قومی اور بین الاقوامی سطح کی ان کانفرنسوں سے شاید کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان کانفرنسوں کے ذریعہ کیا منتظمین اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے یا پھر وہ جو حاصل کرنا چاہتے تھے،انھیں حاصل ہو گیا؟ بھلے ہی عام مسلمان کو کچھ ملا ہو یا نہ ملا ہو۔ان کانفرنسوں سے ہونے والے فائدے مقصد کے حصول کو اگر چھوڑ بھی دیں ، لیکن ان سے ملت کا جو نقصان ہوا ہے اور آئندہ مزید نقصان ہونے کا امکان ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ایک تو ہم نے حکومت وقت کو اور دشمنان اسلام کو پوری طرح یہ باور کرا دیا ہے کہ حالات چاہے جتنے خراب ہو جائیں، مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکتے۔ بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملی قائدین کی طرف سے باہمی انتشار ختم کرنے کی کوششیں تو کیا ہوتیں، بلکہ مسلکی اختلافات اور تنازعات کو مزید ہوا دینے کا ہی کام کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیوں ایک دوسرے کے خلاف فتوے جاری کئے جا رہے ہیں؟ کیوں ایک دوسرے کے مسجد میں داخل ہونے پر پابندی لگائی جا رہی ہے؟ کیوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مقابلہ چل رہا ہے؟ جب ہمارے ملی قائدین اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے ہی عام مسلمانوں میں یہ پیغام دیا جائے گا کہ حالات کتنے بھی نا مواقف ہوں، ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوں گے، تو پھر دشمنوں کی بات چھوڑ دیجئے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تین کانفرنسوں کی جگہ ایک کانفرس ہوتی، سبھی مسالک کے رہنما ایک اسٹیج پر جمع ہوتے اور سبھی کی طرف سے اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا جاتا، سبھی ایک ساتھ مل کر دہشت گردی کے حلاف آواز بلند کرتے، سبھی ایک ساتھ مسلمانوں کے مسائل کو حکومت کے سامنے رکھتے، کتنا اچھا ہوتا کہ ایک دوسرے کی آواز میں آوازملا کر مخالفین کو یہ پیغام دیا جاتاکہ دشمن کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا نہیں کر سکتا، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو سامنے تین الگ الگ کانفرنسوں میں جمع ہونے والے ملک بھر کے مسلمان ایک ساتھ نظر آ تے، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا اور آئندہ ایسا ہونے کی کوئی صورت نظر بھی نہیں آ رہی۔
اسی انتشار اور خلفشار کا ہی نتیجہ ہے کہ کچھ افسوسناک خبریں اردو ہی نہیں ہندی اور انگریزی میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ ایک واقعہ مدھیہ پردیش کے چھتر پور ضلع کے نوگاؤں قصبے کا ہے۔ جہاں دو مختلف مسالک کے لوگوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ اس جھگڑے نے نو افراد کو حوالات میں بھی پہنچا دیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان لوگوں کو ایک مسجد سے ہی گرفتار کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلک کے لوگوں نے دوسرے مسلک کے لوگوں کو نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مخالفت کی۔ اسی بات پر جھگڑا اتنا زیادہ بڑھا کہ ایک مسلک کے افراد نے مسجد کے اندر سے پتھراؤ کیا، اس سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔پولیس کو مداخلت کرنی پڑی اور پھر یہ گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ایک مقامی پولیس افسر کے مطابق ایک فریق کو ڈر تھا کہ دوسرا فریق مسجد پر قبضہ کرلے گا،اسی وجہ سے جھگڑا ہوا ۔دوسرا واقعہ ایک فتوے کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ ایسی خبریں ہیں کہ ایک مسلک کے بڑے مرکز سے ایک تازہ فتویٰ جاری کیا گیا ہے کہ ایک مخصوص فکر کے لوگ اگر مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو انھیں مسجد سے باہر نکل جانے کے لئے کہنا چاہئییا پھر لوگوں کو پولیس کی مدد لینی چاہئے۔فتوے میں کہا گیا ہے کہ ایک اُن کے اور ایک مخصوص مسلک کے لوگوں کے درمیان نظریاتی طور پر بہت زیادہ فرق ہے ۔ ایسے میں اگر دونوں مسلک کے لوگ ایک مسجد میں جمع ہوتے ہیں تو ان کے درمیان لڑائی کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح کچھ دنوں پہلے ایک مخصوص نعرے کے حوالے سے بھی ایک فتویٰ جاری ہوا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ جن لوگوں نے یہ نعرہ لگایا ان پر تجدید نکاح اور تجدید ایمان لازم ہو گیا ہے۔ یہ فتویٰ تو ایک ہی مسلک کے ایک گروپ نے دوسرے گروپ کیخلاف جاری کیا تھا۔ حالانکہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مخالفین کے خلاف اس طرح کی فتوے بازی ہو رہی ہے، پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا آج وقت اور حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کسی بھی حد تک گزر جائیں۔ کیا ہمارا ایمان اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم چند مفادات کی خاطر اپنا ضمیر گروی رکھ دیں؟دنیوی خوہشات کے لئے عام مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کرنے لگیں؟ معمولی عہدوں کی چاہت میں اپنے عزت و وقار کو بھی داؤ پر لگا دیں؟ زمانہ قدیم میں بھی فروعی مسائل میں اختلافات ہوتے تھے، اس کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، لیکن آج کی طرح اس قدر نفرت اور کینہ نہیں ہوتا تھا۔جو بھی علمی مسائل یا اختلافات سامنے آتے تھے تو علماء کرام مل بیٹھ کر اور گفتگو کرکے انھیں حل کرنے کی کوشش کرتے تھے، عام مسلمان اس بحث و مباحثہ سے دور رہا کرتے تھے۔ آج حالات یہ ہیں کہ مسلکی اختلافات پر عام لوگ باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت مختلف سطحوں پر مسلمانوں کے اندر انتشار پیدا کرنے اور مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علما اور دانشوران سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان کوششوں اور سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے نہ صرف عام مسلمانوں کو بلکہ دشمنان اسلام کو بھی یہ پیغام دیں کہ بھلے ہی مسلمانوں کے اندر اختلافات ہیں، لیکن یہ صفوں میں انتشار اور لڑائی جھگڑے کا سبب نہیں بنیں گے۔یہ کام علماء کرام ہی کر سکتے ہیں، لہذا انہیں اس کے لئے آگے آنا ہی ہوگا۔ (ملت ٹائمز)
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر ہیں )