سرکاری تصوف میلہ

شمیم طارق
بات تلخ ہے مگر ہے سچ کہ انسان کوئی جائز پیشہ اختیار کرے اور ایمانداری سے اس پر عمل پیرا رہ کر کھائے کمائے تو برکات اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں لیکن اگر وہ علم اور روحانیت کو پیشہ بنالے تو علم اور روحانیت بھی اپنی برکات سے محروم ہوجاتے ہیں اس لیے تصوف میں جس کو مشائخ کا خاص اخلاق بھی کہا گیا ہے اور روح عبادت بھی دنیا اور اہل دنیا کو اپنے اوپر طاری کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے ابتدائی دور میں تو صوفیا اصحاب اقتدار سے قطعی دور تھے ان کے اصحاب اقتدار، خاص طور سے ظالم و جابر حکمرانوں کے لیے دعائے خیر کرنے کی تو کیا ان سے خوشگوار تعلقات کی مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ شیخ نجم الدین کبریٰ کے حالات میں ہے کہ فتنۂ تاتار رونما ہونے کے بعد جب ان سے کہا گیا کہ وہ شہر چھوڑ دیں تو انھوں نے انکار کردیا۔ تاتاری جب خانقاہ میں داخل ہوگئے تو مریدوں کو آواز دی کہ اللہ کا نام لے کر کھڑے ہوجاؤ۔ خود گھر سے خرقہ پہن کر نکلے اور دونوں جیبوں میں پتھر بھر لیے۔ تاتاری تیر پھینکتے تھے اور وہ پتھر۔ بالآخر شہید ہوگئے۔ وہ تو شہید ہوگئے مگر ان کے مریدوں اور سلسلے کے لوگوں کی کوششوں سے وسط ایشیا کا نقشہ بدل گیا۔بعد کے دور میں بھی کسی حدتک یہ کیفیت برقرار رہی۔ بابا فرید تنبیہہ کیا کرتے تھے کہ ’’اپنے روحانی مراتب میں بلندی چاہو تو سلاطین کی اولاد کی طرف توجہ نہ کرو۔‘‘ ان کی یہ تلقین بھی نقل ہوتی رہی ہے کہ ’’ہر وہ درویش جو بادشاہوں اور امیروں سے اختلاط کا دروازہ کھولتا ہے اس کی عاقبت خراب ہوجاتی ہے۔‘‘ اسی طرح شاہ ولی اللہ کا یہ قول بھی نقل ہوتا رہا ہے کہ ’’ہر وہ شخص جس کا نام بادشاہ کے دفتر میں لکھا گیا اس کا نام حق سبحانہٗ تعالیٰ کے دفتر سے نکال دیا گیا۔‘‘اگر صوفیہ نے کسی دور میں ا صحاب اقتدار سے تعلق استوار کیا بھی تو اس لیے کہ عوام کو حکمرانوں کے مظالم سے بچایا یا ان کے مطالبات کو منوایا جاسکے مگر چراغ دہلی کے وصال کے بعد اس نصیحت کو فراموش کردیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ انھوں نے کسی کو اپنا خرقہ نہیں پہنایا۔ شیخ زین الدین نے تین فہرستیں (اعلیٰ، اوسط اور ادنیٰ) پیش کیں اور کہا کہ ’’حضور! آپ کے کافی مرید اہل کمال اور صاحب حال ہیں۔ کسی کی طرف اشارہ ہوجائے تو وہ آپ کی جگہ پر بیٹھ جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ سلسلہ ختم ہوجائے۔‘‘ چراغ دہلی نے تینوں فہرستوں کا مطالعہ کرنے کے بعد جو کہا وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ فرمایا’’ان لوگوں سے کہہ دو کہ اپنے ایمان کی فکر کریں، دوسروں کا بوجھ سر پر لینے سے کیا حاصل۔‘‘ راقم الحروف نے اس زمانے میں بھی ایسے صوفیاء دیکھے اور ان سے دعا لی ہے جو دنیاوی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود فقر و غنا کے پیکر تھے۔ نرم گفتار تھے مگر ظالم کو ظالم کہنے، اس کی مجلس میں جانے سے انکار کرنے اور اگر کوئی ظالم ان کی مجلس میں خود آنے کی خواہش ظاہر کرے تو اس کو منع کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اس لیے جب دہلی میں ’’ورلڈ صوفی فورم‘‘ کے زیر اہتمام صوفی کانفرنس کے انعقاد کی خبر پڑھی تو اس کو کچھ عجیب سا لگا۔ بے شک دہشت گردی انسانیت کے خلاف جرم ہے اور اس جرم کا خاتمہ کرنے کی کوشش میں ہم سب کا شریک ہونا ضروری ہے۔ صوفیاء نے جبر و تشدد کی ہر شکل کی مذمت کی ہے۔ اس کی بیخ کنی کے لیے کوشاں رہے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے انھوں نے کبھی یہ نہیں کیا کہ ارباب اقتدار یا اصحاب ثروت سے کسی قسم کی امداد یا اعانت طلب کی ہو۔ وہ نیک مقاصد کے لیے طریقۂ کار اور شریک کار بھی نیک ہی تلاش کرتے تھے۔ نظام الدین اولیاء کے حالات میں یہ واقعہ کثرت سے نقل ہوا ہے کہ ان کے لنگر سے کافی لوگ کھانا کھاتے تھے۔ کچھ حاسدین نے سلطان وقت سے کہا کہ وہ آپ کے وزراء اور عام لوگوں کا دیا ہوا نذرانہ تو لے لیتے ہیں مگر آپ کا دیا ہوا نذرانہ قبول نہیں کرتے، یہ آپ کی توہین ہے۔ سلطان نے فرمان جاری کردیا کہ کوئی خانقاہ جائے نہ نذرانہ پیش کرے۔ نظام الدین اولیاء کو علم ہوا تو انھوں نے لنگر کا خرچ دوگنا کردیا۔ بالآخر سلطان کو ندامت ہوئی اور اس نے اپنا فرمان واپس لے لیا۔
ان مثالوں اور روایتوں کو نظر انداز کرکے نئی دہلی میں منعقد کیے گئے سرکاری تصوف میلے میں شریک ہونے والے صوفی حضرات نے یہ نہیں سوچا کہ اس پر ہونے والے شاہانہ اخراجات کہاں سے اور کیوں آئے ہوں گے؟
دعویٰ تو کیا گیا کہ یہ کانفرنس دہشت گردی کی مذمت کے لیے منعقد کی گئی ہے مگر یہی نہیں کہ دہشت گردی کی مذمت کے نام پر ایک خاص قسم کی دہشت گردی میں مبتلا لوگوں کے سر سے سر ملایا گیا اور نہ صرف یہ کہ کسی نے یہ کہنے کی ہمت نہیں کی کہ تشدد اور دہشت گردی کے خاتمے کا پیغام اور کام تو صوفیا گلی کوچوں اور چوراہوں پر کر ہی رہے ہیں اس کے لیے اتنا بڑا اسٹیج سجانے اور شاندار ہوٹلوں میں ان کے قیام و طعام کے انتظام کی کیا ضرورت تھی؟بلکہ طلب نما شکایت کے انداز میں یہ کہا کہ سرکاری کمیٹیوں اور وقف بورڈ میں ان کو جگہ نہیں دی جاتی۔ یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب دو مویشی فروش کی لاش پیڑ سے لٹکا دی گئی تھی اوردہشت گردی کا شکار ہونے والے مسلمانوں کے غم میں گاؤں کے ہندوؤں نے ہولی نہ منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کانفرنس میں آر ایس ایس کے پسندیدہ نعرے کی گونج میں مطالبات بھی پیش کیے گئے مگر محض اس لیے کہ سرکاری خرچ پر داد عیش دینے کا کچھ تو جواز فراہم کیا جاسکے۔
دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں حرص و ہوس کے وہ بندے جو ملک اور انسانیت کے دشمنوں کے آلۂ کار ہیں۔اور کون نہیں جانتا کہ تصوف کے ہر سلسلہ میں حرص و ہوس، انتقام، حسد جیسی برائیوں سے بچنے کی نہ صرف تلقین کی جاتی ہے بلکہ اورادو اشغال کے ذریعے اس کی عملی مشق بھی کرائی جاتی ہے۔ شریعت کی پابندی پر اصرار کرنے والوں کو دہشت گرد نہیں کہا جاسکتا۔ خود تصوف کی ہر وہ شکل مردود ہے جس میں احکام شریعت کی نفی کی گئی ہو۔ شریعت کی پابندی کرنے والوں نے ملک کی تعمیر میں بہت اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ مثال کے طور پر بنارس ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی کا حلقۂ انتخاب ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے راجہ کی فوج کے سپاہیوں میں ایک تعداد مسلم امیروں کی بھی تھی جن کے آباو اجداد سلطان محمود بن سبکتگین کے زمانے سے یہاں رہتے چلے آئے تھے۔ شریعت اسلامیہ کی پابندی کرتے اور اپنی نمازوں اور دیگر اعمال خیر میں راسخ تھے۔ ان پر دہشت گردی میں مبتلا ہونے یا راجہ سے بے وفائی کرنے کا الزام کبھی کسی نے عائد نہیں کیا۔
آج کے تناظر میں بھی دہشت گردی کے بڑھنے کا سبب اسلام یا کوئی اور مذہب نہیں ہے بلکہ عالمی سیاست ہے جو پڑوسی کو پڑوسی سے، ایک ہی مذہب میں جماعت کو جماعت سے اورملکوں میں طبقوں اور گروہوں کو آپس میں لڑاتی رہتی ہے۔ اپنا اسلحہ بیچتی اور بقائے باہم کا درس دیتی ہے۔ معلوم نہیں کیوں فہم و فراست اور کشف سے سب کچھ سمجھ لینے کا دعویٰ کرنے والوں کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ نئی دہلی کے وگیان بھون میں انھیں کیوں بلایا اور نوازا گیا؟
تشدد ، ملک دشمنی، دہشت گردی سب کچھ قابل مذمت ہے۔ ان تمام رجحانات کی بیخ کنی ہر ہندوستانی کافرض ہے مگر یہ فرض ایک خاص وضع قطع بنا کر تصوف فروشی کرنے والے نہیں ادا کرسکتے۔ یہ حق تو صرف وہ ادا کرسکتے ہیں جو محنت کرکے اپنی روزی کماتے اور جان پر کھیل کر سچ بات کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔نئی دہلی میں دین و تصوف میں تحریف کرنے والوں نے دہشت گردی کے سدباب کے نام پر خود دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ جس قسم کا معاملہ کیا ہے اس کا جواب ان کی طرف اشارہ کرکے تحریف کے ساتھ ایک مصرعہ پڑھ کر ہی دیا جاسکتا ہے کہ
بچو ان تصوف کے سوداگروں سے
(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں )