استعفی ۔ مسئلے کا حل نہیں پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

مکرمی!
بابری مسجد کی مظلومانہ اور بے دردانہ شہادت کے بعد مسلمانوں کا ہر فرد و بشر جذبات سے اس قدر مغلوب ہوچکا تھا کہ کمزور سے کمزور فرد بھی آسمان کوزمین پرلے آنا چاہتا تھا تاکہ آسمان کے نیچے سارے ظلم و مجرمین پس جائیں صفحئہ ہستی سے ان کا نام و نشان مٹ جائے مگر یہ عمل اللہ کی حکمت بالغہ کے خلاف تھا اس لئے ایسا ممکن نہ ہوسکا اور بابری مسجد شہید کرنے والے کئی افراد کو اللہ پاک نے ہدایت کی نعمت سے سرفراز فرمایا ۔ قرآن حکیم میں حکمت و تدبر کی بات ارشاد فرمائی گئی ۔ عسی ان تکرہوا شیئا وھو خیرلکم ۔عسی ان تحبوا شیئا و ھو شرلکم ۔
یادش بخیر … بابری مسجد کی شہادت کے بعد سی کے جعفر شریف صاحب جو غالباً اس وقت ریلوے کے وزیر تھے۔ انہوں نے نرسمہاراؤ کے رویہ سے دل برداشتہ ہوکر پارلیامنٹ سے مستفی ہونے کا ارادہ کیا اور مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ کے یہاں حاضری دے کر مستعفی ہونے کا فیصلہ سنایا توحضرت مولانا نے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے چنانچہ شریف صاحب رک گئے ۔
ابھی چند روز قبل جس طرح طلاق کے مسئلہ کو ملک و ملت کا ایک بڑا قضیہ غیرضروری طور پر بناکر پیش کیا گیا اور جس کے نتیجے میں غیرضروری طورپر ایک اضافی قانون بھی بنادیا گیا جو کہ جمہوریت اور سکولر ملک وطن عزیز کے دستور سے بھی متصادم ہے کہ شہریوں کے ایک بڑے طبقہ کے دستوری تحفظات پر گویا قدغن لگادیا گیا ۔ اور اس موقع پر ملک و ملت کے ایک انتہائی بالغ نظر صاحب بصیرت عالم دین جن کی زندگی کے شب و روز خدماتِ ملت اور احیائے شریعت سے عبارت ہے یعنی حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی مدظلہ جو طلاق کے مسئلہ کی سنگینی اور پارلیامنٹ اور اپنی پارٹی کا رخ دیکھ کر ہی اپنے رفقاء سے مشورے کیلئے باہر کیا گئے اور دوبارہ راستوں کی ٹرافک میں گھرتے گھراتے پارلیامنٹ پہونچے کہ کھیل ختم ہوچکا تھا ۔اور اب پارلیامنٹ کے باہر کے ارکان کو گویا ایک موقع ہاتھ لگ گیا اور انہوں نے یہ طے کرلیا کہ اس غیرضروری بل کو پاس کرنے میں مولانا قاسمی مدظلہ کا منشاء ہے بس کیا ہوا کہ مولانا پر طعن و تشنیع کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ بدگمانی غیبت، اور الزام تراشیاں تو اب اس زمانے میں اس امت کاو طیرۂ امتیاز بنتا چلا جارہا ہے ۔ جو مخلص ہیں امت کے جوشیلے افراد کی پارلیامنٹ نے اس کو غیرمخلص قرار دے دیا اور اویسی صاحب مخلص قرار دے ديئے گئے اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس معاملے میں بعض قابل قدر علماء بھی افراط و تفریط کے شکار ہوگئے۔
بہرحال حضرت مولانا اسرارالحق صاحب مدظلہ کو چاہیے کہ وہ کانگریس میں رہتے ہوئے پارلیامنٹ کی رکنیت پر قائم رہیں اور ملک و ملت کی نمائندگی فرماتے رہیں ۔ ألیس اللہ بکافٍ عبدَہ ۔
محمد شاہد الناصری الحنفی
مدیر ماہنامہ مکہ میگزین، ممبئی