نظریوں کی باز گشت

ڈاکٹر زین شمسی
آنکھیں ہیں تو نظارے ہیں ،نظارے ہیں تونظریے ہیں اور نظریے ہیں تومذہبی ہیں اور دہریئے ہیں۔ نظریے کو نظریہ سے ہی جیتا جا سکتا ہے اور اسے مات بھی کوئی نہ کوئی نظریہ ہی دیتا ہے۔ایک باپ کا نظریہ دیکھئے، کہتے ہیں کہ میرا بیٹااتنا بڑا خبیث ہے کہ اپنی پوری تنخواہ میری بہو کو دے دیتا ہے اور داماد اتنا شریف النفس ہے کہ اپنی پوری کمائی میری بیٹی کو دے دیتا ہے۔ایک بیٹے کا نظریہ دیکھئے ، کہتا ہے ، میرے والد صاحب اتنے وضع دار ہیں کہ میں ان کی نہیں سنتا ،اس کے باوجود وہ کچھ نہیں کہتے اور ایک میرا بیٹا ہے جواتنانافرمان ہے کہ میری ہر بات نظر انداز کردیتا ہے۔بیوی کا بھی نظریہ دیکھتے ہوئے چلیے کہتی ہیں کہ میرا بھائی اتنا اچھا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا لیکن بہنوں کو نہیں چھوڑا اور ایک میرا شوہر ہے جو بہنوں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔گویانظریہ مفاد کے حصول میں اہم رول ادا کرتا ہے اور جب مفاد کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو دوسرانظریہ پہلے والے پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ مارکس ،والٹیئر ،روسو ،ارسطو ،گاندھی ،امبیڈکر ،ہٹلر ،مسولینی اوردیگر فلسفیوں اور رہنماؤں کے نظریوں نے دنیا کو بدلنے کا کام کیا ہے ،ایسا بالکل نہیں ہے،غور سے دیکھئے تو ان کے نظریوں نے دنیا کو مزید الجھنوں میں ڈال دیا۔
روس کے مارکسی ازم اور امریکہ کے کیپٹل ازم نظریہ کے درمیان دنیا50سال سے پھنسی رہی اور پھر کیا ہوا کیپٹل ازم کی جیت کے بعد کمزوروں پر حملے ہوئے اور چھوٹے مگر خود مختار ممالک کوچتاؤنی دے دی گئی کہ سب لوگ امریکہ کے سامنے سر بسجود ہو جائیں اور ان میں سے کچھ نے انکار کیا تو ان کی آسمانوں کو بارودی کر دیا گیا۔ظاہر ہے تسلط کی جنگ کے لیے جو نظریے پیش کئے گئے اس سے دنیا نابلد رہی ، ہوش تب آیا جب مصیبتیں آئیں۔متحدہ بھارت میں بھی نظریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا، بدھ اور جین جیسے کئی مذاہب اسی دورکی پیداوار ہیں ،لیکن انگریزوں کے تسلط کے بعد تمام نظریے سمٹ کر ایک ہی طرف آئے کہ کسی نہ کسی طرح بھارت کو آزاد کرانا ہے۔ آزادی کی لڑائی کے دوران کئی نظریے پیدا ہوئے۔ کوئی گرم دل کہلایا تو کوئی نرم دل۔ چندر شیکھرآزاد، بھگت سنگھ ، سبھاش چندربوس اور گاندھی سب کے سب مرد مجاہد تھے ،لیکن انگریزوں کو بھگانے کے لیے ان لوگوں کے پاس الگ الگ نظریہ تھا۔مقصد ایک ہی تھا ، حصول کا طریقہ کار مختلف تھا۔ اسی کشمکش اور افراتفری میں ایک اور نظریہ بہت آہستہ آہستہ پنپ رہا تھا اور وہ یہ تھا کہ آزادی انگریزوں سے تو مل جائے گی ،لیکن مسلمانوں کو کس طرح دربدر کیا جائے۔آزادی کے بعدسیکولر ہندوستان کے نظریہ نے ان کے نظریوں امیدیں معدوم کر دیں، پھر بھی در پردہ اس پر محنت کا سلسلہ جاری رہا۔انڈر گراؤنڈ مہم چلتی رہی ، چنگاریاں سلگائی جاتی رہی ہیں اور کہیں نہ کہیں کانگریس بھی اس میں تیل چھڑکتی رہی۔ ہندوستان کے ایک حصہ کے پاکستان بن جانے کے بعد مسلمانان ہند یوں بھی تعلیمی اور دانشورانہ فرنٹ پر کمزور ہوگئے۔ملی جماعتوں نے بکھرے ہوئے تنکوں کو سمیٹنے کی کوشش کی، کچھ ہمدردان ملت نے مسلمانوں میں تعلیمی سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا، لیکن سرکاروں اور سرکاری مشینریوں کی عدم دلچسپیوں نے مسلمانوں کو آہستہ آہستہ حاشیہ پر ڈال دیا اور جب اقتصادی ،ذہنی ،تعلیمی اور سماجی طور پر مسلمان کمزور ہوئے تو وہ مہم جو انڈر گراؤنڈ تھی ،اور چپکے چپکے پنپ رہی تھی ،منظر عام پر آگئی اور اب وہی نظریہ ہندوستان پر قابض ہے اور ملک کی تقدیر لکھ رہا ہے۔
بی جے پی گورنمنٹ میں سب سے پہلے کشمیر کا مسئلہ چھیڑا گیا۔پھر یکساں سول کوڈ کا معاملہ سامنے آیا، گاہے بگاہے رام مندر کا بھی معاملہ اٹھتا رہا۔پھر مسلمانوں کی آبادی کا ذکر چھڑا،پھر تبدیلی مذہب کا شوشہ چھوڑا گیا،اس کے بعد لو جہاد جیسا فضول مدعا اٹھایا گیا۔ دلتوں پر حملے شروع ہوئے ،تعلیمی نصاب میں تبدیلی اور ویدوں اور پرانوں کی تصوراتی کہانیوں کو تاریخ کا حصہ بتایا جانے لگا۔سماج کو غیر اعلانیہ طور پر تقسیم کرنے کی سازشیں رچی جا نے لگیں۔اس پورے معاملہ میں سماج کنفیوز بھی ہو رہا ہے اور سارے نظریہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ بھی ہو گئے ہیں۔
سنگھ نے راشٹر پتاگاندھی کے مرڈر کو بھارت ماتا کی جئے کے نظریہ سے مات دینے کی کوشش کی۔منو وادی نظریہ کو (جس میں برہمن کے علاوہ کوئی پاک ہستی نہیں ہے) چھپانے کے لییامبیڈکر کو اپنانے کاڈھونگ رچا گیا۔سردار پٹیل کا بکھان کر کے کانگریسیوں میں دراڑ ڈالی گئی۔بدعنوانی اور مہنگائی مخالف نعروں کے پس پردہ بدعنوانوں ، جمع خوروں ، سرمایہ کاروں کو بے انتہا فائدہ دے دیا گیا۔ملک میں کوئی اور نظریہ نہیں چل سکے ،اس کی کوشش جے این اور حیدر آباد یونیورسٹیوں کے طلبا کو غدار وطن اور ملک مخالف ثابت کر کے دی ہی جا چکی ہے۔ اظہار آزادی کا جو نظریہ تھا اسے اظہار آزادی کے نام پر ہی پابند کر دیا گیا ۔
سنگھ سربراہ نے کہا کہ بھارت ماتا کی جے بولنا سب کو سکھانا ہوگا۔انہوں نے پھلجڑی چھوڑی ،ادھر اویسی کو آگ لگ گئی۔ انہوں نے کہا کوئی میرے گلے پر چاقو رکھ دے پھر بھی میں بھارت ماتا کی جئے نہیں بولوں گا۔اویسی کا اتنا کہنا تھا کہ جاوید اختر نے زور زور سے نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ اب بھاگوت کہتے ہیں کہ بھارت ماتا کی جئے زبردستی کسی پر مسلط نہیں کیا جائے،تو دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ آتا ہے کہ بھارت ماتا کی جئے کا مطلب پرستش سے ہے اور مسلمانوں کے لیے اللہ کے علاوہ کسی بھی چیز کی پرستش حرام ہے اس لیے نعرہ مسلمانوں کے لیے ناجائزہے،جمیعۃ العلما کے صدر ارشد مدنی کہتے ہیں کہ ماتا سے مراد اگرپرورش سے ہے تو اس نعرہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ادھر سید احمد بخاری سمیت دیگر علما اس فضول سے نظریہ کی جال میں پھنس کر اپنا اور اپنی قوم کا وقت خراب کرنے میں مصروف ہیں۔اس سے پہلے بھی محب وطن کا سرٹیفیکٹ دینے کئے لیے مسلم تنظیمیں جنتر منتر پر جمع ہو چکی ہیں۔ سنگھ نے جال بچھایا، اور مسلمانان ہند اس جال میں پھنس گئے۔سنگھ کا یہی نظریہ بھی رہا ہے کہ آگ لگاؤ اور تماشہ دیکھو ، سو اس نے تماشہ دیکھ لیا۔ملک اچھی طرح جانتا ہے کہ اس سازش کے پیچھے کیا ہے۔ جو سنگھ شادی کو ہی ممنوع قرار دے چکا ہے۔عورت کو ماں بنانے سے گریز کرتا ہے وہ ماں کی اہمیت کو کیا سمجھے گا، اگر وہ ماں کی اہمیت کو سمجھتاتو اس کی عزت بچانے والے ،اسے انگریزوں کی قید سے رہائی دینے والے اس کیسب سے لاڈلے بیٹے گاندھی کو کیوں قتل کرتا۔دراصل سنگھ پریوار بھارت کو ماتا مانتا ہی نہیں ہے ،وہ ماتا کے دوسرے بیٹوں کو بے دخل کر کے اس کی پراپرٹی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔برسوں کی تپسیا کے بعد سنگھ کو ایسا موقعہ ملا ہے کہ جب وہ بہ آسانی دوسروں کی ملکیت پر اپنا حق جما سکتا ہے۔ جن لوگوں کا ہندوستان کی وراثت اور ثقافت سے دور دور تک رابطہ نہیں رہا ہے اور نہ ہی بھارت کو بنانے اور سنوارنے میں ان لوگوں کا رول ہے ، یہ لوگ دوسروں کے سجے سجائے محل پر اپنا قبضہ چاہتے ہیں۔اس کے لیے انہیں کچھ بھی نہیں کرنا ہے۔ صرف عمارتوں کے نام بدل دینے ہیں۔ مسجدیں توڑ دینی ہیں۔آثار قدیمہ کی تاریخ بدل دینی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے عدالتوں میں کاغذات بدل دئے جاتے ہیں۔انہوں نے بھارت کے خلاف ہی بھارت کو استعمال کرنا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ملک کی اکثریت آبادی اب بھی اندھی تقلیدوں اور باباؤں کی یقین دہانی پر عمل کرتی ہے ،اسے آسانی سے بہکا یا جا سکتا۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار روزنامہ خبریں میں جوائنٹ ایڈیٹر ہیں)