خدا خانہ کی جگہ بت خانہ بنانے کی جد و جہد

عمر فاروق قاسمی
حضرت مولانا سلمان ندوی صاحب سارے ادب واحترام کے باوجود بابری مسجد معاملے میں وسیم رضوی سے الگ نظر نہیں آرہے ہیں. سوائے یہ کہ وسیم رضوی بابری مسجد کو لکھنؤ منتقل کرنے کا مشورہ دے رہے تھے اور مولانا محترم کسی اور جگہ۔
مولانا ندوی کا میں بہت قدردان رہاہوں، اخوان المسلمین کے لیے ان کی بے باکی سے میں بہت متاثر تھا اور ہوں. مرسی حکومت کے خاتمے پر عرب حکمرانوں کو جس انداز میں انہوں نے للکارا ہے وہ یقیناً ان کی جرات مندی کی واضح دلیل ہے. لیکن بابری مسجد معاملے میں جس طرح خود سپردگی کا مظاہرہ ان کی طرف سے ہوا ہے اور مسلمانوں کو چاروں شانے چت ہونے کا مشورہ جس انداز میں انہوں نے دیا ہے ایسی امید کم از کم ان سے مجھے نہیں تھی۔
مولانا نے فقہ حنبلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسجد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاسکتی ہے، لیکن مولانا کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کسی بھی فقہ میں خدا خانہ کو بت خانہ بنانے کی اجازت ہے؟ مولانا نے بڑی بھونڈی دلیل یہ دی کہ ایک انسان کی قیمت کعبہ سے بڑھ کر ہے اس لیے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کردی جائے، بلاشبہ انسان کی قدر قیمت کعبہ سے بڑھ کر ہے، لیکن کیا اس دلیل کی بنیاد پر خون خرابہ سے بچانے کے لیے خدا خانہ کو بت خانہ بنا دیا جائے؟ ہمارے کچھ برادران وطن کا ماننا ہے کہ کعبہ بھی ان کا مندر تھااور حجر اسود ان کے کسی بھگوان کا مجسمہ ہے کبھی ایسی نوبت آگئی کہ وہ لوگ اس مطالبہ پر بھی اصرار کرنے لگیں نہ ماننے کی شکل میں مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دینے لگیں تو کیا اس دلیل کی بنیاد پر مسلمان کعبہ سے بھی دستبردار ہو جائیں گے یا آخری سانس تک نظریاتی اور عملی جنگ لڑیں گے ؟ اگر ایک انسان کی زندگی بچانے کے لیے خدا خانہ کو بت خانہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر مولانا کو اخوان کی حمایت سے توبہ کرلینی چاہیے کیونکہ اخوان بھی بیت المقدس کی بازیابی کے لئے کوشاں ہیں، جب کہ بیت المقدس کی بازیابی کے لئے بابری مسجد سے زیادہ جانیں گئی ہیں. مولانا! جنگ میں جیت یا ہارمقدر ہوا کرتی ہے، انسان نتیجہ کا نہیں کوشش کا مکلف ہے، دوران جنگ سر جھکا دینا بہادری نہیں سینہ سپر ہونا بہادری ہے چاہے سینہ تیرو تفنگ سے چھلنی ہی کیوں نہ ہوجائے، بلاشبہ ہم کورٹ سے بھی مکمل مطمئن نہیں ہیں تاہم ہندوستانی مسلمانوں کے لئے اللہ کے بعد امید کا آخری ذریعہ وہی ہے، مسجد اللہ کی امانت ہے ہماری ملکیت نہیں، ہم اپنی ملکیت سے دستبرداری کا اعلان تو کر سکتے ہیں اللہ کی ملکیت اور امانت سے نہیں۔ بابری مسجد اللہ کی جانب سے ہمیں بطور امانت ملی تھی ہمارا کام زندگی کی آخری سانس تک اس کی حفاظت کرنا اور اس کے لیے کوشاں رہنا ہے چاہے نتیجے مسجد کے حق میں ہو یا مندر کے حق میں. اچھا سپہ سالار وہی ہوتا ہے جو جنگی حکمت عملی تیار کرتا ہے وہ تازہ دم ہوکر دوبارہ حملہ کے لئے کچھ پیچھے تو ہٹتا ہے لیکن دشمن کی تلوار کے سامنے سرنگوں نہیں کرتا۔ اگر اسلامی اقدار اور شعائر اسلام کی سودا بازی پر امن و امان مطلوب ہوتا تو صحابہ کو بدر و احد میں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اگر آپ دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند دے دیں پھر بھی میں اپنے مشن توحید سے باز نہیں آ سکتا۔