عزازیل سے ابلیس تک ندوی سے رشدی تک

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
بہت پہلے کسی صاحب نے دینی مدارس سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاشبہ دینی مدارس اسلام کے مضبوط قلعے ہیں جہاں کے فارغ التحصیل حفاظ، علماء کی خدمات غیر معمولی ہوتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا اعتراف کرنے میں جانے کیوں ہم تکلف اختیار کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ تصور ہے کہ جو بچے کند ذہن اور نافرمان قسم کے ہوتے ہیں انہیں والدین بیزار ہوکر دینی مدارس میں شریک کروادیتے ہیں۔ اس قسم کے بچے دینی تعلیم تو حاصل کرتے ہیں مگر چوں کہ ان کی فطرت میں نافرمانی اور بدمعاشی ہوتی ہے‘ اسلئے بڑے ہوکر فتنہ پرور بن جاتے ہیں۔ دینی درسگاہوں کے سبھی فارغ التحصیل قابل تعظیم نہیں ہوتے کیوں کہ ملت میں تفریق، انتشار کا سبب بھی ایسے ہی فتنہ پرور بنتے ہیں۔ کبھی میڈیا کے ذریعہ کبھی مساجد کے منبروں سے اور کبھی سیرت کے جلسوں سے۔
فتنہ پروری فطرت کا حصہ بھی ہوتی ہے اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے منفی اور تخریبی کوشش بھی۔ مفادات حاصلہ دراصل انانیت، خود پرستی، خودنمائی، کی دین ہیں۔ اسی اَنانیت نے فرشتوں کے سردار عزازیل کو ابلیس ملعون بنادیا تو اسی خود پرستی نے ندوی کو رشدی بنادیا۔ بیشتر ندوی اقطائے عالم میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں کیوں کہ ان کی دینی، علمی، ملی خدمات مسلمہ اور ناقابل فراموش ہیں۔ اکا دُکا ایسے ندوی بھی ہیں‘ جن کی سرگرمیاں مشکوک رہی ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران جس ندوی کو اپنے بیانات سے اسلام دشمن میڈیا کی توجہ حاصل کرلینے میں کامیابی ملی‘ ان کے بارے میں یہ تاثر عام ہوچکا تھا کہ انہیں اپنی علمی لیاقت اور فضیلت کا اتنا زیادہ ا حساس ہوچکا ہے کہ وہ خود کو ہر ایک سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہوں نے داعش کے خبیث کو مبارک باد کا پیغام بھی دے دیا تھا۔ اسلام دشمن طاقتوں کی انٹلیجنس ہمیشہ چوکس رہا کرتی ہے‘ وہ ہمیشہ ایسے عناصر کی تلاش میں رہتی ہے جنہیں شہرت، دولت اور منصب کی زیادہ حرص ہے۔ وہ انہیں غیر محسوس طریقہ سے اپنا آلہ کار بناتے ہیں‘ استعمال کرتے ہیں اور پھر اُس کا یہ حال کردیتے ہیں کہ وہ دھوبی کا ۔۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑےئے۔
ہر دور میں اسلام دشمن طاقتیں ملی اتحاد کو کمزور کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ بابری مسجد کی تحریک عروج پر تھی۔ ہندوستان کے تمام مسلمان متحد تھے۔ اجتماعی قیادت تھی جن کی ایک آواز پر کروڑوں مسلمان ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار تھے۔ مگر کیا ہوا! بابری مسجد تحریک کو رابطہ کمیٹی اور ایکشن کمیٹی میں تقسیم کردیا گیا۔ قیادت منتشر اور قوم بے سمت‘ اور پھر یونہی 26برس گذر گئے۔ بابری مسجد تحریک کیوں ٹوٹی؟ کیوں تقسیم ہوئی؟ اس کا جواب کون دے گا؟ بیشتر تو اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں اور یقیناًان سے اس کا حساب کتاب لیا جائے گا۔ اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کی بے لوث اور عملی طور پر خدمات انجام دینے والے ہر اُس ادارہ اور جماعت کو کمزور کرنے کے لئے اُسی ادارہ اور جماعت کے کمزور مگر فتنہ پرور اور مفاد پرست عناصر کو اپنا آلہ کار بناتی رہی ہیں۔ اس کی مثال جمعےۃ العلمائے ہند ہے جو ایک ہی خاندان کے دو افراد میں تقسیم ہوگئی۔ جب یہ جماعتیں ملی اتحاد کا دعویٰ کرتی ہیں تو ہمارے مخالفین ہمارا مذاق اڑاتے ہوئے ہم سے سوال کرتے ہیں کہ بھلا ایک خاندان اپنے آپ کو متحد نہیں رکھ سکا تو یہ خاندان ملت کو متحد کیسے رکھ سکے گا۔ ہمارے پاس فی ا لحال اس کا کوئی جواب نہیں ہے ہم یہی سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتے ہیں کہ بھلے ہی جمعےۃ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی تاہم دونوں گروہ اپنے اپنے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کم از کم یہ آپس میں ایک دوسرے کی کردارکشی یا ہجو میں مشغول نہیں ہیں۔ ایک اور مثال تبلیغی جماعت کی ہے۔ حالیہ عرصہ تک تبلیغی جماعت بے لوث خدمت گذاران دین کی جماعت تصور کی جاتی تھی جو ایک امیر کے تحت مقامی صوبائی اور قومی اور بعض اوقات بیرونی ممالک میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لئے دین حق کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ گاؤں گاؤں، چپہ چپہ ان کی خدمات کا گواہ ہے۔ منکران ختم نبوت ہو یا مسلمانوں کی شدھی کرن کا معاملہ‘ تبلیغی جماعت نے صرف اللہ کی رضا کے لئے جو کام کیا اس کا ثبوت دیہی علاقوں میں مساجد، مدارس اور وہاں کا تھوڑا بہت ہی سہی دینی ماحول ہے۔ تاہم تبلیغی جماعت کو بھی اسلام دشمن طاقتوں نے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ جماعت میں امارت کی جگہ خاندانی جانشینی آگئی۔ جس طرح خلافت کو بادشاہت نے ختم کیا اور جس کے ساتھ مسلمانوں کا زوال شروع ہوا اسی طرح تبلیغی جماعت کے داخلی انتشار اور گروپ بندیوں کی وجہ سے اس جماعت کا وقار اور ملی ا عتماد آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے۔ عام مسلمان یہ سمجھ نہیں پارہا ہے کہ یہ انتشار دراصل اُن طاقتوں کا پیدا کیا ہوا ہے جو مسلمانوں کو منظم، متحد دیکھنا نہیں چاہتی ہیں۔ آج کوئی بھی مسلم جماعت ہو‘ اس کا ایمانداری اور سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو اپنے آپ سے شرم سی آتی ہے۔ جماعت کے امیر یا اس کے صدر‘ خانقاہوں کے روح رواں افراد کا حال بادشاہوں جیسا ہے۔ بڑے بڑے علمائے کرام، اکابرین بہ ظاہر سیدھے سادے لباس میں نظر آئیں گے ان کی ظاہری سادگی پر قربان ہونے کو جی چاہتا ہے مگر جب ان سے سابقہ پڑتا ہے تو ایک لمحہ کے لئے یہ سوچنے کے لئے مجبور ہونا پڑتا ہے کہ آیا یہ واقعی انبیاء کے وارث ہیں۔ افضل الانبیاء ا کی سیرت کے مطالعہ کی تلقین کرنے والے خود اس پر عمل پیرا کیوں نہیں ہوتے۔ شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم محفل میں تشریف لاتے تو جہاں جگہ مل جاتی وہی تشریف فرما ہوجاتے اور ان کے وارث ہونے کے دعویدار کو شہ نشین پر موزوں جگہ نہ ملنے پر محفل کا بائیکاٹ کردیتے ہیں۔ بہرحال نفس دنیا کی حرص، اقتدار کا لالچ، خوشامد پسندی جب فطرت میں داخل ہوجاتی ہے تو منصب اور دولت تو مل جاتی ہے۔ خدا کی جانب سے جو مقام عطا کیا جاتا ہے وہ چھین لیا جاتا ہے اور ایسے لوگ سب سے پہلے اپنے ہی عقیدت مندوں کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔ بہرحال بات ہورہی تھی مسلم اداروں میں انتشار پیدا کرنے کی سازشوں کی‘ اب مسلم پرسنل لاء بورڈ کو توڑنے کی کوشش بھی کی گئی۔ افسوس کہ انہیں بڑی آسانی سے آلہ کار مل گیا۔ نقوی، رضوی جیسے عناصر کو چوں کہ مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک یا فرقہ سے کیوں نہ ہوں‘ خاطر میں نہیں لاتے اور نہ ہی انہیں اپنی صف میں شامل کرتے ہیں۔ اس لئے اسلام دشمن طاقتوں نے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا جو حلیے سے بھی مسلمان ہو‘ جس کا مسلمانوں کے طبقے میں مقام بھی ہو۔ وہ کامیاب ہوئے کیوں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کے موقع پر جبکہ ساری دنیا ارباب اقتدار بلکہ عدلیہ کی نظر اور توجہ بورڈ کے اجلاس اور اس پر ہونے والے فیصلوں پر مرکوز تھی۔ندوی کو رشدی بناکر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اہم فیصلوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ وقتی طور پر ہی سہی بورڈ کے ارکان میں بے چینی‘ انتشار پیدا ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت سبھی نے متحدہ اور متفقہ طور پر ایک فیصلہ کیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہزاروں ندوی شریعت کے لئے قربان کئے جاسکتے ہیں‘ اور انہیں اپنی صف سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ اگر بابری مسجد سے متعلق کسی قسم کے سمجھوتے پر بات چیت کی بھی جاتی تو اس کے لئے وقت کا انتخاب غلط تھا۔ اور اس کے علاوہ بات چیت جس سے کی جارہی ہے‘ وہ نہ تو بابری مسجد مقدمہ کا فریق ہے نہ ہی حکومت سے اس کا کوئی تعلق بلکہ یہ خود قانون شکنی کے واقعات میں ملوث ہیں جس کے خلاف ماحولیات کو متاثر کرنے کی پاداش میں دہلی حکومت نے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ جس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرمانہ ادا نہیں کیا۔
بلاشبہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں کا ترجمان ادارہ ہے۔ یہ متحدہ مسلمانوں کی آواز ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں کچھ ارکان ایسے بھی ہیں جن کے سیاسی عزائم ہیں‘ جو بورڈ کے سہارے مسلمانوں کی آواز کے طور پر راجیہ سبھا میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے شریعت کی آڑ میں اپنے مرد ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بیویوں پر ظلم بھی کیا‘ انہیں گھروں سے نکالا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب یہ شریعت کی بات کرتے ہیں تو ان کی آواز میں وہ دَم نہیں ہوتا۔ ان کا نام ظاہر اس لئے نہیں کیا گیا کہ بورڈ میں شامل تمام ارکان ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بے عیب صرف اللہ کی ذات ہے‘ جو دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا اللہ اس کے عیب چھپائے گا۔ ہم نے اشارتاً اس لئے تذکرہ کردیا ہے کہ یہ حضرات بھی اپنی اصلاح پر توجہ دیں گے‘ انشاء اللہ۔
حیدرآباد میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس کامیاب رہا اس کا صد فیصد کریڈٹ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی کے سر جاتا ہے جنہوں نے اویسی ہاسپٹل کے احاطہ میں بورڈ کے اجلاس کے دوران میڈیا کو دور رکھتے ہوئے مزید انتشار سے محفوظ رکھا۔ اسکے باوجود بورڈ کے بعض ارکان نے اپنے شخصی تعلقات کی بناء پر اجلاس کی اندرونی بات چیت کو اپنے صحافی دوستوں سے واقف کروایا۔ ورنہ میڈیا سنٹر میں جو بات ہوتی وہی میڈیا تک پہنچ پاتی۔ علمائے کرام اور اکابرین کی میزبانی ضیافت اور دیگر انتظامات کی نگرانی جواں سال قائد جناب اکبرالدین اویسی کی نگرانی میں کئے گئے جس کی ستائش شرکاء نے پوری فراخ دلی کیساتھ کی اور جسکے وہ مستحق ہیں۔ دارالسلام میں منعقد ہونے والا مجلس کا ہر جلسہ کامیابی کا نیا ریکارڈ قائم کرتا ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں میں اتحاد، اتفاق کا سویا ہوا جذبہ بیدار کرتا ہے۔ چاہے وہ بیت المقدس کی بازیابی کا جلسہ ہو یا شریعت کے تحفظ کا۔ 11؍فروری کو ایک بار پھر دارالسلام کے دامن میں ہندوستانی علماء مشائخ اور اکابرین کی کہکشاں اُتر آئی تھی۔ ایک بار پھر ملی اتحاد کا جذبہ بیدار ہوا۔ نئے حوصلوں اور ولولوں کے ساتھ جینے اور حالات کا مقابلہ کرنے اُمنگ پیدا ہوئی جو وقت کا تقاضہ ہے۔ اللہ رب العزت اس جذبہ کو دائم و قائم رکھے۔ آمین۔
(مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
epaper.gawahweekly.com
رابطہ: 9395381226

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں