قضیہ بابری مسجد اور صلح سمجھوتہ کی کوششیں

 

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
تعلی اور انکساری میں تضاد کی صفت ہے لیکن یہ حیرت انگیز ہے کہ یہ دونوں انسان کے اندر پائے جاتے ہیں کسی انسان میں تعلی اور انا کی صفت نمایاں ہوتی ہے تو کسی میں عجز و انکساری کی صفت پائی جاتی ہے ،عجز وانکساری کی صفت پسندیدہ اور قابل تعریف ہوتی ہے جبکہ انا اور تعلی سے سرشار انسانوں کو معاشرہ میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے ،ایسے لوگوں سے معاشرہ اور سوسائٹی کوکبھی کبھی شدید تباہی کا سامنا بھی کرناپڑتاہے ۔کسی انسان میں انا کی صفت پائے جانے کی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں کسی شخص میں علم کی وجہ سے اناکی صفت پائی جاتی ہے ،کسی میں خوبصوتی کی بناپر انا ہوتی ہے ،کوئی مال ودولت کی بہتات کی بنیاد پر اناکا شکار ہوتاہے ،اسی کا دوسرا نام فخر وغروروتکبر ہے جس کی جڑیں آگ اور شعلہ سے ملتی ہیں ،ایسے اوصاف کے حامل اشخاص عموما معاشر ہ اورسوسائٹی کیلئے تباہ کن ثابت ہوتے ہیںدوسری طرف عجز وانکساری ہے جس کی جڑیں مٹی سے ملتی ہیں، اس کے حامل اشخاص تحمل ،بردباری اور حکمت عملی سے کام لیتے ہیں ،انتہائی نرم مزاج ہوتے ہیں،کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتے ہیں۔بدلتے حالات کے ساتھ حکمت ودانائی سے کام لینا ،شعور کا استعمال کرنا اور ضروری ہوجاتاہے ،ہندوستان کے موجودہ حالات میں جوش ،جذبہ ،جنون ،شعلہ بیانی اور اشتعال انگیز ی کے بجائے حکمت ودانائی اور عقل وفراست کو استعمال کرنا ہی ہمارے مفاد میں ہے۔آزاد ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کو ہر سطح پر پریشان کیا جاتا رہا ہے ، تمام منفی الزامات مسلمانوں پر عائد کیئے گئے ہیں، تعلیمی ، سماجی ،اقتصادی اور معاشرتی سطح پر مسلمانوں کو پسماندہ بنایاگیا ،مسلمانوں کی ترقی کے راستے بھی مسدود کئے گئے ، سائسنس ،ٹیکنالوجی ،تعلیم ،تصنیف ،تعمیر ،معاشیات سمیت تمام شعبوں میں مسلمانوں کی عظیم خدمات بھی ناقابل فراموش کردی گئی لیکن ان سب کے باوجود مسلمانوں نے حوصلہ نہیں ہارا،ہمت شکن نہیں ہوئے ، خوف زدہ ہوکر میدان چھوڑ کر بھاگے نہیں بلکہ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق ہر محاذ پر جنگ لڑنے اور مقابلہ کرنے کی کوشش کی ۔مایوسی اور ناامیدی کا سہارا لینے کے بجائے ہر ایک حملے کا جم کر مقابلہ کیا ۔ آئین ہندپر عمل کرتے ہوئے زندہ جاوید قوم ہونے کا ثبو ت پیش کیا ۔
بابری مسجد بھی اس قضیہ کا ایک حصہ ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے ،ڈرانے ،دھمکانے ،ان سے ان کی شناخت چھیننے اور کمزور بتانے کی کوشش کی گئی ۔حکومت کی سرپرستی میں عوام کی نگاہوں کے سامنے پہلے وہاں مورتی رکھی گئی ،پھر اس کا تالا کھلوایاگیا ،شیلانیاس کرایاگیا اور بالآخر 6 دسمبر 1992 میں مسجد بھی شہید کردی گئی ،حکومت دیکھتی رہی ، قانون خاموش رہا اور دوسری طرف مسجد منہدم کردی گئی ،سلسلہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ اس کے بعد بھی مسلمانوں پر حملہ کیا گیا ،فساد بھڑ کا کر مسلمانوں کا قتل ہوا ،مختلف عدالتوں میں مقدمات درج ہوئے۔مسلمانوں نے اپنی نگاہوں کے سامنے یہ سب دیکھا اور مایوس ہونے کے بجائے آئین ہند کی روشنی میں لڑنے کا جذبہ جاری رکھا،ایک طرف دستور کی دھجیاں اڑائی گئیں دوسری طرف مسلمانوں نے دستور ہند کو بنیاد بناکر ہی اپنی جنگ شروع کی ،مختلف عدالتوں میں مقدمہ درج کیا گیا ،الہ آباد ہائی کورٹ نے 2011 میں ایک پنچایتی فیصلہ بھی سنادیا جس میں زمین کا ایک ٹکرا مسلمانوں کا دے دیاگیا اور دو ٹکرا ہندو فریق کو ،یہ فیصلہ بتارہاتھاکہ انصاف کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا گیا ہے، ٹائٹل سوٹ کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دیا گیا ہے مسلمانوں کو مضبوط موقف کے مطابق فیصلہ سنانے کے بجائے آستھا او رعقیدت کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔چناں چہ معاملہ سپریم کورٹ پہونچا اور اب وہاں سماعت شروع ہوگئی ہے ،عزت مآب سپریم کورٹ نے 8 فروری کو یہ واضح بھی کردیاہے کہ عدلیہ میں سنوائی ملکیت اور ٹائٹل سوٹ کے معاملے پر ہوگی ،عقیدہ اور آستھا کی بنیاد پر عدلیہ کی کوئی کاروائی نہیں ہوگی ،چیف جسٹس کا یہ جملہ آستھا اور عقیدہ کی بنیاد پر مسجد ہڑپنے والوں کی آدھی شکست ہے ، ماہرین قانون کا بھی دعوی ہے کہ ملکیت اور ٹائٹل سوٹ کے حوالے سے مسلمانوں کا موقف مضبوط ہے اور اس بنیاد پر فیصلہ کیا گیا تو انشاءاللہ مسلمانوں کی جیت ہوگی ۔ آر ایس ایس اور بابری مسجد کے نام پر سیاست کرنے والوں کو بھی اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے کہ ٹائٹل سوٹ کو بنیاد بناکر فیصلہ کیا گیا تو ہماری شکست ہوگی اور ذلت ورسوائی کا سامناکرنا پڑے گا اس لئے اب بار بار یہ شوشہ چھوڑا جاتاہے کہ سپریم کورٹ سے باہر بابری مسجد کا قضیہ حل کرلیا جائے۔
عدلیہ کو ہندوستان میں فوقیت حاصل ہے ،عوام پر اس کا اعتماد آج بھی برقرار ہے اور کامیاب عدلیہ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ عقیدہ ،آستھا،جذباتیت ذات اور نسل کو بنیاد بنائے بغیر انصاف کے تقاضوں پر عمل کرتی ہے جس سے عدلیہ کی عظمت میں مزید چار چاند لگ جاتاہے ۔ہندوستان کی عدلیہ پر بھی مسلمانوں کا ہمیشہ سے اعتماد برقرار رہا ہے او رکبھی بھی مسلمانوں نے عدلیہ کے خلاف جانے کی کوشش نہیں کی ہے ۔ بابری مسجد کے معاملے بھی میں مسلمان شروع سے یہ کہتے ہوئے آرہے ہیںکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمیں قبول ہوگا ،مسلمانوں کے علاوہ دیگر فریق اور ملک کی تمام عوام کو بھی یہی منصوبہ بنانا چاہیئے کہ بابری مسجد معاملے میں سپریم کو رٹ کا فیصلہ معتبر اور قابل قبول ہوگا ۔اس سے آئین ،دستور ،قانون اور عدلیہ کی برتری ثابت ہوگی اور دنیا بھر میں ہندوستان کی عوام کا نام روشن ہوگا ۔دستور ہند کا وقار بلند ہوگا ۔
سپریم کورٹ میں جو مقدمات زیر بحث ہیں اس کے سلسلے میں عدم اطمینا ن کا اظہارکرکے اسے باہر حل کرنے کی کوشش کرنا عدلیہ کی واضح توہین ہے اور یہ نظریہ درشاتاہے کہ کچھ لوگ عدلیہ کے وقار کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بطور خاص بابری مسجد کے مسئلے کو جو لوگ عدلیہ کے باہر حل کرنا چاہتے ہیں ان سے یہ چند سوالات کیئے جاسکتے ہیں کہ وہ یہ سب کیوں کررہے ہیں،کیا انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ؟کیا اصل فریقوں نے انہیں اس کی اجازت دی ہے ؟ بابری مسجد کا مسئلہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کا ہے ایسے میں کسی شخص واحد کو سواد اعظم کی رائے سے اختلاف کرکے اس طرح کی کوشش کرنی چاہیئے ؟جو لوگ بابری مسجد کا مسئلہ باہر حل کرانا چاہتے ہیں اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ ،کیا تحریری شکل میں کوئی معاہد ہ نامہ دیا گیا ہے؟ ، تحریری طور پر کائی اقرار نامہ تیا رکیا گیا ہے ؟اس بات کو کیسے معتبر مان لیا جائے کہ آئندہ ہماری کسی مسجد او ر مدرسہ پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی ؟۔
وقت شناسی بھی بیحد ضروری ہے ،ستمبر 2011 میں جب الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیاتھا اس وقت شری شری روی شنکر ہندوستان میں ہی موجود تھے اور صلح سمجھوتہ کی کوشش کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا اب جب سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوگئی ہے ،یہ واضح بھی کردیا گیاہے کہ فیصلہ ملکیت کی بنیا د پر ہوگا اس کے بعد صلح سمجھوتہ کی یہ کوشش کیوں؟ ہمیں شری شری روی شنکر اور ان کے ساتھ اس کوشش میں شریک لوگوں کی نیت پر کوئی شک نہیں ہے ،ان کے اخلاص پر ہم کوئی الزام نہیں لگاسکتے ہیں لیکن ہم عدلیہ کے باہر انصاف کی امید کیوں لگائے ؟، کیا ہم اتنے خوف زدہ ہوچکے ہیں، ہم یہاں تک یقین کربیٹھے ہیںکہ ججز سارے حکومت کے اشارے پر کام کررہے ہیں اس لئے وہ انصاف نہیں کریں گے ،کیا ہم پر اتنا خوف سوار ہوگیاہے کہ اب ہم عدلیہ سے انصاف کی آس بھی نہیں لگاسکتے ہیں اور ایک ایسا مسئلہ جو ڈیڑھ سوسال پراناہے ،عدلیہ میں زیر سماعت ہے اسے عدلیہ کے باہر لیکر چلیں جائیں ، کسی ایسے شخص کی نگرانی میں حل کرائیں جس کی اپنے سماج میں بھی کوئی حیثیت نہیں ہے ،جس پر قانون شکنی کا الزام ہے ،این جی ٹی جرمانے عائد کر رکھے ہیں اور جس کا نظریہ ہے کہ خانہ کعبہ بھی شیو جی کا مندر ہے ۔اگر ہم عدلیہ پر یقین نہیں کریں گے ،وہاں سے انصاف کی امید نہیں رکھیں گے تو پھر ہم اپنے دیگر معاملات میں کیا کریں گے ،اپنے مسائل لیکر کہاں جائیں گے ، کس پر اعتماد کریں گے۔ دانشمندی ار حکمت عملی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم عدلیہ پر یقین رکھیں ،بھروسہ رکھیں ہندوستان میں وہی انصاف کی آماجگا ہے ،کسی آشرم اور مندر سے مسلمانوں کو انصا ف کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے اور نہ ہی وہاں سے ہمیں کبھی انصاف مل سکتاہے ۔یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیئے کہ صلح سمجھوتہ دو طرفہ بات چیت کا نام ہے ،دونوں فریق کے تھوڑا تھوڑ ا جھکنے کو صلح کہاجاتاہے ۔یکطرفہ فارمولا،دوسرے فریق کو مکمل طور پر دستبردار کردینا اور اپنے دعوی پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ کر دوسرے فریق کو چھوڑدینے پر مجبور کرنے کا نام صلح سمجھوتہ نہیں ہوتاہے اور ایسے کوششیں مزید خون خرابہ کا سبب بنتی ہیں،عوام میں بے چینی پھیل جاتی ہے ،ایک کمیونٹی مکمل طور پر محروم کردیئے جانے سے شدید مایوس ہوجاتی ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ بابری مسجد کا فیصلہ عدلیہ میں ہو،باہر کسی بھی طرح کی کوئی کوشش نہ کی جائے ،ہمیں ہمیشہ کی طرح عدلیہ پر یہ اعتماد رکھنا چاہیئے کہ وہاں انصاف کے تقاضوں کو پامال نہیں کیا جائے گا ۔
(کالم نگار معروف اسکالر اور آل انڈیاملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)