بہار کی سرزمین ہمیشہ سے پر بہار اور مردم خیز رہی ہے، علماء، ادباء، اور شعراءکی یہ سرزمین تشنگانِ علوم و فنون کے لئے شروع سے ہی کشش کا باعث رہی ہے، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بہار اصل میں ”ویہار“ تھا ، یہاں بدھ مذہب کی خانقاہیں بکثرت تھیں اس لئے بدھ عہد میں اس کا نام ” ویہار“ پڑ گیا ،جو رفتہ رفتہ بہار ہو گیا ۔ دنیا کے تین قدیم مذاہب جین مت، ہندو مت اور بدھ مت کی تاریخ اسی سرزمین سے جڑی ہوئی ہے۔ ہندو عہد میں پٹنہ بہار کا صدر مقام ہوا کرتا تھا جو پاٹلی پترا اور پھر پاٹلی پتر کہلایا ، بدھ عہد کی عظیم تعلیم گاہیں نالندہ اور وکرم شیلا اسی صوبہ میں واقع تھیں، بدھ مذہب کے بہت بڑے پیشوا اور بانی گوتم بدھ کو اسی سرزمین میں علم و معرفت کا گیان حاصل ہوا۔ یہ علماء اور ادباء کی سرزمیں ہے، صوفیاء اور اولیاء کا مرکز ہے۔ بہار کے مشہور صوفی شیخ خضر پارہ کی بزرگیت کی شہرت ہندوستان کے مغربی علاقہ تک پہنچی ہوئی تھی، یہاں تک کہ نامور بزرگ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے بھی ان سے استفادہ کیا۔ بہار شریف میں شیخ شرف الدین یحییٰ منیریؒ کی خانقاہ برصغیر کے طول و عرض میں علماء و طالبین رشد و ہدایت کا سب سے بڑا مرجع تھی۔ مشہور ادیب اور انشاء پرداز مولانا عبد الماجد دریا بادی نے بہار کے بارے میں با لکل درست لکھا ہے:
”بہار کی سرزمین آج سے نہیں گوتم بدھ کے زمانے سے پر بہار چلی آرہی ہے، کیسے کیسے عالم، درویش، حکیم، ادیب، مورخ ، شاعر اسی خاک سے اٹھے اور یہیں کے خاک میں مل کر رہ گئے۔ یہ وہی بہار ہے جس کا پانی کوئی غبی پی لے تو وہ ذہین ہو جائے، یہ گیان کی سرزمین رہی ہے“۔
بہار کا مشرقی علاقہ ترہت کہلاتا ہے، جو گنگا کے ساحل سے شروع ہوتا ہے اور نیپال کی ترائی پر ختم ہوتا ہے،اب یہ علاقہ کچھ محدود ہوگیا ہے، اس میں بہار کے کئی اضلاع شامل ہیں، اس علاقہ کو متھلا کہا جاتا ہے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ عجیب وغریب بیان کی جاتی ہے جو دیو مالائی تصورات پر مبنی ہیں، منشی بہاری لال نے اپنی تصنیف ”آئینہ ترہت“ میں لکھا ہے کہ راجہ نیمی مہا راج ترہت کے حکمراں تھے جو بعض ہندو بزرگوں کی بد دعا سے لا ولد ہوگئے تھے، چنانچہ کچھ مذہبی لوگوں نے اس کی لاش کی منتر پڑھ کر مالش کی تو خدا کی قدرت سے اس لاش سے ایک لڑکا ظاہر ہوا جس کا نام میتھ رکھا گیا جو نیمی کے بعد فرماں رواں ہوا، جب یہ بڑا ہوا تو اس علاقے کو اپنے نام سے منسوب کر کے اس کا نام متھلا رکھ دیا ۔ اسی متھلا کا ایک ضلع دربھنگہ ہے، یہ مغل بادشاہ غیاث الدین تغلق کا بسایا ہوا شہر ہے، کہا جاتا ہے کہ جب غیاث الدین تغلق 724ھ میں بنگال سے ترہت کے علاقے میں آیا تو اس وقت ہر سنگھ دیپ اس علاقے کا فرماں رواں تھا، اس نے بادشاہ کے خوف سے قلعہ چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی اور جنگل میں پناہ لی، بادشاہ نے قلعہ پر قبضہ کر لیا ، راجہ گرفتار ہوا اور جنگل صاف کر کے بستی بسائی گئی، اور اس کانام ” دارو بھنگا “ رکھا گیا ، کیونکہ سنسکرت میں لکڑی کو دارو کہتے ہیں اور بھنگ کے معنی کاٹنے کے ہیں، یعنی ایسی جگہ جس کی لکڑیاں کاٹ دی گئیں ہوں، چنانچہ یہ بتدریچ” دارو بھنگا“ سے دربھنگہ ہو گیا۔ بہار میں دربھنگہ کو ایک خاص مرکزیت اور اہمیت حاصل ہے۔
ہندوستان کے ممتاز عالم دین ،مفکر، دانشور، اور فقیہ حضرت مولانا مجاہد الا سلام قاسمیؒ اسی دربھنگہ ضلع کے ایک قصبہ جالے میں 19اکتوبر 1936ءکو ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے، قضاء اس خاندان کی شناخت رہی ہے، اس مناسبت سے جس محلہ میں آپ کا گھر ہے وہ قاضی محلہ کہلا تا ہے۔ آپ کے والد ماجد مولانا عبد الا حد قاسمیؒ بھی ایک با صلاحیت اور ممتاز عالم دین تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، متوسطات کی تعلیم مدرسہ محمود العلوم دملہ ، مدھوبنی ، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور دار العلوم موُناتھ بھنجن میں حاصل کی، اعلی تعلیم کے حصول کے لئے دارا لعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ 1951ء سے لے کر 1955ء تک چار سال مستقل دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم رہے اور امتیازی نمبرات سے سند فراغت حاصل کی۔
تحصیل علم کے بعد مولانا درس و تدریس سے منسلک ہو گئے، جامعہ رحمانی میں انہیں علیا درجات کی کتابیں پڑھانے کو ملیں، جامعہ رحمانی کی علمی فضا میں ان کی تدریسی صلاحیت اور قابلیت کے جوہر کھلے۔ اور اپنے وقت کے مقبول ترین اساتذہ میں ان کا شمار ہونے لگا ۔امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کو اللہ تعا لی نے جوہر شناسی کا خوب ملکہ عطا کیا تھا، انہوں نے ان کو افتاء و قضا کی ذمہ داری سونپ کر امارت شرعیہ بھیج دیا اور وہ پھر امارت شرعیہ کی تعمیر و ترقی میں ایسے منہمک ہو گئے کہ امارت شرعیہ ان کی زندگی کا حصہ بن گیا اور اپنی زندگی کے تقریبا 35 سال امارت شرعیہ میں گزار دیا۔ اس درمیان وہ منصب قضا پر فائز ہوکر ہزاروں مشکل اور پیچیدہ مسائل کے فیصلے کئے، اللہ تعا لی نے فیصلہ سازی کا بہترین ملکہ ان کو عطا کیا تھا، پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ کو بھی آپ منٹوں میں حل کر دیتے۔ امارت شر عیہ کے نظام قضا و افتاء کو ملک و بیرون ملک پہنچایا اور ملک کے مختلف علاقوں میں دارالقضاء قائم کروائے، یہاں تک کہ قاضی ان کے نام کی شناخت بن گئی۔ انہوں نے اپنی مسلسل اور مخلصانہ جدوجہد سے امارت شر عیہ کو ایک معتبر اور با وقار ادارہ بنانے میں پورا ساتھ دیا امارت شرعیہ کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی خدمات کے دائرہ کو وسیع کرنے میں ان کا اہم رول ہے، یوں تو حضرت قاضی صاحب ؒ متنوع خصوصیات کے حامل تھے، وہ بیک وقت ایک بے مثال فقیہ، نامور عالم دین، کامیاب مدرس، با بصیرت قاضی، شعلہ بیاں مقرر، مایہ ناز مفکر اور مدبر تھے تو وہیں ایک بہترین انشا پرداز، صاحب طرز ادیب اور بلند پایہ نثر نگار بھی تھے۔
حضرت قاضی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا اصل میدان فقہ و فتاوی تھا لیکن انہوں نے اپنے آپ کو کبھی بھی صرف ایک خانے میں بند نہیں رکھا، بلکہ ملت کے دیگر ضروری کاموں سے کبھی بھی چشم پوشی نہیں کی اور ملی و قومی مسائل میں صبح و شام اس قدر گھرے رہے کہ شعر و ادب میں سنجیدگی کے ساتھ وقت نہیں دے سکے، لیکن اگر وہ اس کے لئے الگ سے وقت فارغ کرتے تو شاید چوٹی کے ادیبوں اور شاعروں کی فہرست میں شامل ہو سکتے تھے، لیکن پھر بھی انہوں نے جو کچھ تحریر کیا وہ ان کے ادبی ذوق اور انشا پردازی کا زندہ ثبوت ہے۔ وہ اپنے زور قلم سے ادب اور صحافت کے افق پر بھی روشن ستارہ بن کر چمکے۔
حضرت قاضی صاحبؒ نے نوجوان فضلاء کی تربیت اور نئے مسائل و مشکلات کے حل کے لئے ایک سہ ماہی فقہی مجلہ ” بحث و نطر “ کے نام سے جون 1988ء میں جاری کیا، جس کے آپ تا دم زیست مدیر رہے، جس میں آپ کے تحقیقی مضامین کے علاوہ بصیرت افروز اداریے بھی ہوتے ۔ اہل علم و قلم اسے پسندیدگی کی نظر سے پڑھتے۔ ”بحث ونظر“ کے اداریے میں قومی اور بین الا قوامی مسائل پر بے لاگ تبصرے کرتے، سیاسی، سماجی، اخلاقی، علمی اور مذہبی موضوعات پر لکھے گئے آپ کے اداریے آج بھی اہل علم کے لئے سرمایۂ حیات ہیں۔ ان کا ادبی ذوق بہت بلند تھا ، وہ بنیادی طور پر فقیہ تھے اور قضاء و افتاء ان کا مشغلہ تھا ۔ فقہ و ادب دونوں میں تناقض تو نہیں لیکن تنافر ضرور ہے، اس کے با وجود خالص فقہی موضوعات پر بھی ان کی تحریریں شگفتہ، شستہ اور گل کی طرح ترو تازہ ہوتیں۔ فقہ جیسے خشک موضوع کو انہوں نے اپنے قلم کی رعنائی اور اسلوب کی دلکشی سے تازگی پیدا کر دی۔ ان کی تحریریں ان کے ادبی ذوق کا بین ثبوت ہیں۔یہ ہماری کج فہمی اور کم مائیگی ہے کہ ہم نے ادیب اسی کو سمجھ لیا ہے جو ادیب کی وردی پہن کر اور ادب کا بورڈ لگا کر آئے۔ ادب کو زلف و رخسار سے لے کر مَے و مستی کی رفتار تک چند موضوعات کے اندر محدود کر دیا ہے۔ حقیقت میں ادیب تو وہ ہوتا ہے جو وسیع المطالہ ہو اور اپنی بات کو مؤثر ، پر کشش اور خوبصورت انداز میں پیش کر سکے، چاہے اس کا موضوع کچھ بھی ہو۔ادب وہی ادب ہوتا ہے جس کا مضمون بھی مؤدب ہو اور طرز و اسلوب بھی۔ ادب زندگی کا آئینہ اور سماج کا نقیب ہوتا ہے اس لئے ایک ادیب کے لئے ضروری ہے کہ وہ ادب کی بنیاد اور اس کی کائنات کا صحیح تصور رکھے، اور اپنی تحریروں کے مواد، مضمون، ہیئت اور طرز و اسلوب میں پاکیزگی بھی رکھے اور آرائش و زیبائش کا خیال بھی۔ ادب اور ادیب کی اس کسوٹی پر اگر قاضی صاحب کو دیکھیں تو وہ با لکل کھڑے اترتے ہیں۔ نامور عالم دین اور اردو و عربی کے ممتاز ادیب پروفیسر محسن عثمانی ندوی حضرت قاضی صاحبؒ کے ادبی پہلو پر اظہار خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”ان کی تحریروں کے پڑھنے سے ان کے ادبی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے، اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی اگر انہوں نے ادب کو گلے لگایا ہوتا تو اس میدان میں بھی لگاتار جیت کا ہار وہ زیب گلو کر لیتے ، اور ان کی شناوری پر اچھے اچھوں کو رشک آتا ، بحث و نظر میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کے انتقال کے بعد جو مضمون لکھا تھا وہ خاکہ نگاری اور انشا پردازی کا نہایت اعلی نمونہ تھا، زبان میں وہ بہاﺅ تھا جو دریا میں ہوتا ہے۔ قلم میں وہ تاثیر تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ غم کی موجیں متلاطم ہیں، اور ایسا لگتا تھا کہ قلم کو خون دل میں ڈبو دیا گیا ہے یا آنسوﺅ ں کے درمیان کاغذ کی کشتی نازک رواں ہے“۔ (بحث ونظرص527)
قاضی صاحب کی تحریریں ششتہ، شائستہ اور ادبی رنگ کی حامل ہوتیں ، موضوع کے اعتبار سے اس میں جوش و خروش اور درد و سوز ہوتا۔ خاکہ نگاری کا اچھا ملکہ تھا ، انہوں نے مختلف اہم شخصیتوں کے انتقال پر بہترین خاکے لکھے۔ حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے سراپا کا نقشہ کھینچتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” دراز قد، روشن آنکھیں، چمکتا ہوا با رعب چہرہ، کشادہ پیشانی، ذہانت اور جرأت و عزیمت کے گہرے نقوش چہرے سے عیاں، جہاں مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمنؒ، مفکر ملت مولانا عتیق الرحمن عثمانیؒ، صاحب قلم اور معروف عالم دین مولانا منظور احمد نعمانیؒ جیسے بزرگ اور با وقار علما کی مجلس ہو ، وہاں ان تازہ وارد، کم عمر عالم دین اور رکن مجلس شوریٰ کی گفتگو ، ذہانت، جرأت، اصابت رائے، اور قوتِ استدلال کے ساتھ مختلف نقاطِ نظر کو ایک لڑی میں پرو کر اور مسئلہ زیر بحث کی مختلف نزاکتوں کو توازن و اعتدال کے ساتھ سمیٹ کر جامع تجویز تحریر کر دینے کی بہترین صلاحیت کا سکہ پہلی ہی مجلس میں بیٹھ گیا“۔ (بحث ونظرص207)
قاضی صاحبؒ اپنی تحریروں میں آسان اور سہل زبان استعمال کرتے ، جچے تلے الفاظ لاتے ، جملے چھوٹے مگر تراشے ہوئے ہوتے ، دل کی زبان سے لکھتے اور بات دل کے نہاں خانے میں اتر جاتی، موقع اور محل کی مناسبت سے استعارہ ، تشبیہ اور تلمیح کے ذریعہ تحریر میں حسن کا جادو جگاتے۔ خطیب تھے اس لئے تحریر میں بھی خطیبانہ رنگ کی جھلک محسوس ہوتی۔ پروفیسر محسن عثمانی کی رائے ملاحطہ کیجئے:
”ہر تحریر اور ہر تقریر وسعتِ نظر اور مطالعہ کی گہرائی کی غماز ہوتی، ان کے قلم کی ہر کاوش میں سوزِ دل اور خونِ جگر دونوں شامل نظر آتا،؛وہ فکر و نظر اور بحث و تمحیص کے تیشے سے دشوار گذار اور ناہموار مسئلہ کو بھی ہموار کر دیتے، تحریر اگر چہ سادہ ہوتی لیکن سلیس اور شگفتہ ہوتی، اور دل کے اندر تیر نیم کش کی طرح اتر جاتی اور پھر نہیں نکلتی۔ فکر انگیز بھی اور دلنشیں بھی، بہت زیادہ مرصع کاری کے بغیر مؤثر ترسیل کے نمونے اگر تلاش کئے جائیں تو فقیہ ملت قاضی مجاہد الا سلام قاسمیؒ کے فقہی مباحث اور دیگر تحریروں میں آسانی کے ساتھ مل جائیں گے“۔ (بحث ونظر ص529)
فقہ و فتاویٰ کی زبان ذرا مشکل ہوتی ہے، اس کی اپنی اصطلاح اور تعبیر ہے، لیکن قاضی صاحب کا ایک اعلی کمال یہ ہے کہ انہوں نے فقہی موضوعات میں بھی اسلوب بیان کی لطافت سے جان ڈال دی ہے۔ موضوع خواہ خشک و یابس ہی کیوں نہ ہو وہ قاضی صاحبؒ کے رود بار قلم سے شگفتہ اور تر و تازہ بن جاتا۔ ان کے دل میں ملت کا درد تھا ، وہ ملت اسلامیہ کے لئے ہمیشہ مضطرب و پریشان رہا کرتے تھے، جب وہ ملت کے کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تو ان کی تحریر میں ان کا درد و کسک صاف محسوس ہوتا ، اور قاری کو محسوس ہوتا کہ آپ کی تحریر دلوں کو شبنم کی ٹھنڈک پہنچا رہی ہے، یہ اقتباس دیکھئے:
” اتحاد کب ضروری نہیں رہا، لیکن موجودہ حالات میں جب کہ آپ کے بد خواہ بڑے بڑے بنیادی اختلاف کے باوجود آپ کی عداوت کے جذبہ سے متحد ہو رہے ہیں، جن لوگوں کا ایک ساتھ اسٹیج پر بیٹھنا بھی نا قابل تصور تھا ، وہ ایوانِ اقتدار میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں، اور لوگ آب و آتش کے اجتماع کو کھلی آنکھوں سے ملاحظہ کر رہے ہیں، ان حالات میں ہمارے لئے اتحاد اور وحدتِ کلمہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے، اگر تاریخ کے اس نازک موڑ پر بھی ہم نے اپنی صفوں کو متحد نہیں رکھا اور اپنے آپ کو انتشار سے نہیں بچایا تو اس سے زیادہ بد بختی اور کم نصیبی کوئی اور نہیں ہو سکتی ہے، اور اس طرح سے یقیناً ہم اس ملک میں ایک با عزت قوم کی حیثیت سے اپنا حق کھو دیں گے۔” ولا تنازعوا فتفشلو اوتذھب ریحکم“ اس وقت اس بات کی ضررت ہے کہ ہماری زبان وحدت امت کا بیان ہو، ہمارا قلم محبت کا نقیب اور دلوں کو جوڑنے کا سامان ہو، چھوٹے چھوٹے جزوی اور فروعی مسائل میں ہم اپنے آپ کو الجھانے سے بچیں، سیاسی وابستگیوں کو امت کے وسیع تر مفاد میں حائل نہ ہونے دیں، یہی اس وقت دین سے اور امت سے محبت کا تقاضا ہے، اگر ہم نے اپنی صفوں کو متحد رکھا اور دوش سے دوش اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھے تو انشاء اللہ آئندہ بھی کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی جو راہ سے نہ ہٹے اور کوئی دشواری نہ ہوگی جو آسان نہ ہو“۔(بحث و نظر ص208-209)
قاضی صاحبؒ کی تقریر یں بھی تحریرہی کی طرح جامع اور پر سوز کے ساتھ ساتھ ادب کا اعلیٰ شاہکار ہوتیں، موضوع اور موقع و محل کے اعتبار سے آپ گفتگو کرنے کا ہنر جانتے تھے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بالکل درست لکھا ہے کہ:
”قاضی صاحبؒ کی تقریریں بھی تحریر ہی کی طرح الفاظ کے در وبست سے آراستہ ہوتی تھیں،اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی نے الفاظ کے کوزہ میں خونِ جگر ڈھال کر رکھ دیا ہے“۔
قاضی صاحب کی تقریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
”میں یہاں بیٹھ کر آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہوں، کیونکہ میرے کانوں میں شیخ الاسلام کی آوازیں ایک کونے سے اب بھی آرہی ہیں ، صاف و شفاف آواز ، عشق رسول ﷺ کے آب زلال سے دھلی ہوئی زبان کی پر سوز آواز ، حدیثِ رسول کی تلاوت کی آواز،ان کا عربی لہجہ،ان کا مدنی طرز ادا ،ان کی عالمانہ شان، ان کی مجاہدانہ آن بان ،ان کا منور و پاکیزہ چہرہ، یقین پرور انداز کلام، دلوں میں گھر کر جانے والا خلوص، میں کہاں سے الفاظ لاوں اور کس طرح میں الفاظ کو معانی و حقائق کی صحیح صحیح تجسیم کی طاقت بخشوں کہ وہ ان احساسات و جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کر سکیں، جو دارالعلوم میں آنے کے بعد میرے قلب کی پنہائیوں میں ، دلوں کی اتھاہ گہرائیوں میں موجزن ہوتے ہیں، میں جذبات کے طوفان کو زبان سے کانوں تک منتقل کرنے سے قاصر ہوں، یہاں کے چپہ چپہ پر مہر وفا کی جلوہ گری ہے،عشق بے خطر کی دولت بے بہا کا جو دریا یہاں رواں ہے،مکتب کی جو کرامت اور فیضانِ نظر کا جو کرشمہ یہاں ہر آن نظر آتا ہے، علم وفضل کی بے پناہی کے پہلو بہ پہلو آدم سازی اور قلب کی صیقل گری کا جو کارخانہ یہاں مصروف کار ہے ، دین وسط اور توازن واعتدال کے ساتھ ساتھ تعمیر نو کا جو درس یہاں دیا جاتا ہےسچی بات یہ ہے کہ اس کی تصویر کشی کرنے سے عاجز ہوں،یہاں آکر طالب علمانہ معصومیت ، حوصلہ مندانہ نو عمری، لا پرواہ کم سنی، خودرائی شعار نوجوانی،یادوں کی بارات، ماضی کے خوبصورت نقوش، اساتذہ کی شفقتیں، ان کی فیاضانہ ساقی گری سبھی باتیں حافظے کے کینوس پر (Canvas) ابھر آتی ہیں“۔ (بحث ونظر ص210)
قاضی صاحبؒ کی تحریر میں ہمیشہ سلاست، توازن اور شیرینی باقی رہتی، نقد و تبصرہ میں بھی انہوں نے اس خوبی کو باقی رکھا، تحریر طعن و تشنیع اور طنز و استہزا سے پاک ہوتیں، البتہ بعض اوقات لہجہ میں تلخی آجاتی جو ایک فطری امر ہے، تحریر و تقریر کا حسن بھی اسی میں ہے کہ جہاں تلخی مطلوب ہو وہاں اسی طرح کا انداز و اسلوب اختیار کیا جائے۔ مضمون کے مناسب حال تعبیر، تلمیح، تمثیل اور بر محل اشعار سے آپ کی تحریریں مزین ہوتیں۔
شعر و شاعری کا بہت عمدہ ذوق رکھتے تھے، بلکہ ابتدائی زمانہ میں اشعار بھی کہا کرتے تھے، اشعار کے فہم میں بڑا درک اور کمال رکھتے تھے ، میر و غالب اور اقبال و حالی کے سیکروں اشعار زبان زد تھے، اور اپنی تحریر و تقریر میں برجستگی کے ساتھ استعمال کرتے تھے ، ادب ان کا مو ضوع نہیں تھا لیکن پھر بھی انہوں نے جو کچھ لکھا وہ ادبی شہ پارے کے درجہ میں رکھے جا سکتے ہیں ، بحث و نظر کے اداریئے اور تقریباً 35 علمی اور تحقیقی کتابیں آپ نے سپرد قلم کئے جو آپ کے زور قلم کی شاہکار ہیں اور تشنگان علوم و فنون کے لئے سرمایۂ حیات ہیں۔
Noorus Salam nadvi
Daimond Lodge subzibagh Patna,4
Mob: +91-9504275151