ڈاکٹر ماجد رفیع زادہ
صدر براک اوباما نے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے ملاقات کی ہے اور انھیں یہ باور کرایا ہے کہ امریکا ایران اور داعش سمیت علاقائی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدام کو تیار ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”دونوں لیڈروں نے امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دوستی اور گہری تزویراتی شراکت داری کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔صدر اوباما اور شاہ سلمان نے ایران کی خطے میں اشتعال انگیز سرگرمیوں سے درپیش چیلنجز کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے اور علاقائی تنازعات کو طے کرنے کے لیے مشمولہ حکمت عملی کی اہمیت سے اتفاق کیا ہے”۔
ایران کی خطے میں بڑھتی ہوئی موجودگی کے بارے میں سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کو یقین دہانی صدر اوباما کے سعودی عرب کے دورے کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔
اس بلند آہنگ گفتگو کو اگر ایک طرف رکھیں تو اس امر کی نشان دہی قابل ذکر ہوگی کہ براک اوباما کی انتظامیہ نے بند دروازوں کے پیچھے ایران کی جانب جھکاؤ جاری رکھا ہوا ہے۔ایسا ہی اس نے کئی سال قبل جوہری تنازعے پر مذاکرات کے آغاز کے وقت کیا تھا۔وائٹ ہاؤس کا بیان الفاظ کا مجموعہ ہے ،عملی اقدام کا نہیں۔اس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ صدر براک اوباما سعودی عرب اور دوسرے ممالک کے درمیان توازن قائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ صدر اوباما سعودی عرب اور خطے کے دوسرے ممالک کو ایران کے کردار کے بارے میں یقین دہانی کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔صدر اوباما نے اپنی جوہری ڈیل مشرق وسطیٰ کے ممالک کو فروخت کرنے کے لیے خطے کے کم وبیش ہر ملک کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس جوہری معاہدے سے خلیجی اقوام کی سلامتی ،استحکام اور قومی مفادات خطرات سے دوچار نہیں ہونے جارہے ہیں۔ان کی کوششیں بارآور ثابت ہورہی ہیں کیونکہ سعودی عرب سمیت متعدد ممالک اوباما کی یقین دہانیوں پر خوش ہیں۔
صدر اوباما کی جوہری معاہدے کو فروخت کرنے کے لیے سابقہ یقین دہانیاں عملی اقدام کے بجائے الفاظ کا مجموعہ تھیں جبکہ ایران نے جارحیت ،دخل اندازی ،عسکریت پسندانہ اشتعال انگیز پالیسیاں اور عملی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے اس رویے اور کردار کا تو اب پارہ اتنا چڑھ ہے کہ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔ان میں سے ہر کیس میں اوباما انتظامیہ نے تہران کو سبز جھنڈی دکھائی ہے۔ایران کے اقدامات کو جواز عطا کیا ہے یا پھر اس کے عسکری کردار اور عدم استحکام سے دوچار کرنے والی دھمکیوں کی شدت کو کم سے کم تر کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے موجودہ وعدے بھی خالی خولی ہی ہیں،اس دورے میں وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اس امکان کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ خلیجی اقوام ایران کے خلاف کوئی مشترکہ اقدام نہ کریں۔یہ ایران اور دوسری اقوام کے درمیان کوئی متوازن اقدام نہیں ہے۔مرکزی دھارے کا میڈیا بھی اس کو چیلنج کررہا ہے لیکن اس کا واضح رجحان تہران کی جانب ہی ہے۔
گذشتہ چند مہینوں کے دوران ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کے منافی جو بھی کوئی اقدام کیا ہے(مثال کے طور پر بیلسٹک میزائلوں کے تجربات) بین الاقوامی اقدار کی خلاف ورزی (سعودی سفارت خانے کو جلایا جانا) یا خلیجی اقوام کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرنے کی کوشش (روس سے ملنے والے ایس-300 میزائلوں کی تشہیر،حوثیوں کو مزید اسلحہ بھیجنا،خطے میں لڑنے کے لیے مزید شیعہ ملیشیاؤں کو مالی مدد اور تربیت دینا ،بشارالاسد کی سرکاری سطح پر حمایت اور حزب اللہ کو خطے میں فرقہ وارانہ تنازعات کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کرنا وغیرہ) ایسے اقدامات ہیں جن کو اوباما انتظامیہ نے یا تو نظر انداز کیا یا پھر وائٹ ہاؤس نے ان کی یہ توجیہہ بیان کرنے کی کوشش کی کہ ایران لیڈر ان ایشوز کو حل کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔
اس کے برعکس وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر اور بڑے توانا انداز میں خطے کے ان ممالک کی مذمت کی ہے اور انھیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنھوں نے ایران اور اس کے گماشتوں یعنی شیعہ ملیشیاؤں کے مقابلے کے لیے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔
صدر اوباما کا دورہ خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے فوجی اثرات کو کم کرنے میں ناکام رہے گا بلکہ اس سے ایران کو فائدہ پہنچے گا اور ایرانی لیڈروں کو خطے میں گڑ بڑ اور اتھل پتھل کا مزید موقع مل جائے گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایرانی لیڈر اس بات سے آگاہ ہیں کہ صدر اوباما کے دورے میں دوسرے ممالک کی ایران کی خطے میں بالادستی کے قیام کے لیے خواہشات سے متعلق تشویش کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اس سے ایران کے جارحانہ اور مداخلانہ کردار کے بارے میں ادراک کو کم تر کرنے میں مدد ملے گی۔اس سے خلیجی ممالک کا اجتماعی طور پر مگر امریکا سے آزاد ایران کے خطرے سے نمٹنے کا امکان بھی ختم ہوجائے گا۔
اس کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی میں جن کو حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے، یعنی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور سپاہ پاسداران انقلاب کے سینیر عہدے دار اپنی فوجی سلطنت کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔وہ اپنے نظریاتی مقاصد کے حصول اور خطے میں اپنی بالادستی کے قیام کے لیے ایجنڈے پر عمل درآمد جاری رکھیں گے۔انھیں اوباما کی یقین دہانیوں کی وجہ سے علاقائی سطح پر کسی ردعمل کے بارے میں کوئی زیادہ تشویش لاحق نہیں ہے۔
دوسرا ،یہ کہ ایرانی لیڈر اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ انھوں نے اوباما انتظامیہ کو جوہری ڈیل کے ذریعے پابند کردیا ہے۔
خلیجی اقوام کا جوابی توازن ایک ایرانی سفارت کار نے ایک مرتبہ مجھے بتایا تھا کہ صدر براک اوباما فارسی کہاوت کے مطابق ”تاریخ اور گدھے کو ساتھ ساتھ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں”۔اس کا یہ مطلب ہے کہ صدر اوباما کیک حاصل کرنا اور اس کو خود ہی کھانا چاہتے ہیں یعنی وہ ایران اور سعودی عرب دونوں ہی کو رکھنا چاہتے ہیں۔ان صاحب کی دلیل تھی کہ بالآخر اوباما ایران کا انتخاب کریں گے کیونکہ وہ اپنے ورثے جوہری معاہدے کو محفوظ رکھنا چاہیں گے۔
اس مقصد کے لیے صدر اوباما اسلامی جمہوریہ ایران کو ممنون کرنے کی پالیسیاں جاری رکھیں گے،وہ ایرانی جارحیت اور خطے میں مداخلت کو نظر انداز کردیں گے۔وہ انھیں مزید گاجریں دیں گے تا کہ وہ جوہری معاہدے سے پیچھے نہ ہٹیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ پاسداران انقلاب کے خطرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں گے۔
بہ الفاظ دیگر،ایرانی لیڈروں کے نقطہ نظر سے اوباما کا دورہ ایران کے مفادات کے لیے مکمل طور پر سود مند ہوگا کیونکہ یہ دورہ الفاظ کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں۔اس سے خطے کی اقوام کی پاسداران انقلاب کے ننگے جارحانہ اقدامات کے بارے میں تشویش کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
درحقیقت اسلامی جمہوریہ کو اپنے عسکری ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے زیادہ آسانی ہوگی۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گذشتہ تین عشروں کے دوران امریکا کی غوغا آرائی یا فوجی کارروائی کی دھمکیوں کے باوجود علی خامنہ ای یا پاسداران انقلاب اپنے نظریاتی مقاصد سے دستبردار ہوئے ہیں اور نہ وہ خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے مقصد سے پیچھے ہٹے ہیں۔
اگر ہم صدر اوباما کے دورے سے چندے قبل ایران میں ہونے والی تازہ پیش رفت کو دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ نہ صرف اپنے اشتعال انگیز کردار سے دستبردار نہیں ہورہا ہے بلکہ وہ اپنی فوجی طاقت کا بھی مظاہرہ کررہا ہے۔وہ بھاری ہتھیار میدان میں لارہا ہے اور زیادہ طاقت سے شام ،عراق ،بحرین اور یمن کے حوالے سے سرخ لکیریں وضع کررہا ہے۔
حتیٰ کہ اعتدال پسند صدر حسن روحانی نے بھی جوہری معاہدے کے بعد ایران کی اقتصادی ،ٹیکنالوجی اور سائنسی میدان میں ترقی کو سپاہ پاسداران انقلاب کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔روحانی نے کہا کہ ”اگر یہ فوج نہ ہوتی تو پھر یہ کامیابیاں بھی ممکن نہیں تھیں”۔
حرفِ آخر یہ کہ صدر اوباما کے سعودی عرب کے دورے سے ایران کو جغرافیائی سیاسی ،تزویراتی اور اقتصادی لحاظ سے فائدہ پہنچے گا۔ایران اس بات سے آگاہ ہے کہ اوباما کی خطے کی اقوام کو لیپا پوتی والی یہ یقین دہانی کہ ہر چیز ٹھیک ہوجائے گی،اس سے پاسداران انقلاب اور علی خامنہ ای کو خطے میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کا مزید موقع مل جائے گا۔وہ بالادستی کے لیے اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کی جانب قدم بڑھا سکیں گے۔
یہ سب اس وجہ سے ہوگا کہ اوباما کی یقین دہانی خطے کے دوسرے ممالک کو ایران کے خلاف کوئی سنجیدہ اجتماعی اقدام کرنے سے روک دے گی جبکہ صدر اوباما کی یقین دہانی سے ایران علاقائی یا عالمی سطح پر کسی جوابی ردعمل کے خوف سے بے نیاز ہو کر جو چاہے گا ،کرے گا۔(بشکریہ العربیہ )