آبیناز جان علی
مہندی موریشس کی تہذیب کا ایک اہم حصّہ ہے۔ کثیر المذاہب کے اس جزیرے میں مہندی کو ہر مذہب کے ماننے والوں نے اپنایا ہے۔ مہندی خوشی کی علامت ہے۔ منگنی، شادی، سالگرہ ہو یا عید مہندی اس خوشی میں سونے پر سہاگا کا کام کرتی ہے۔ چھوٹی بچیوں سے لے کر بزرگ بھی شوق سے اس فن کو سراہتے ہیں۔ دلفریب بیل بوٹوں اور طرح طرح کے ڈزائن کے پھولوں سے ہاتھوں اور پیروں کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ مہندی کے رنگ میں ایک مقناطشی کشش ہے۔ اس پر دیکھنے والے کی نظر ضرور پڑتی ہے اور اس کی فرحت بخش خوشبو سے دلی تسکین بھی محسوس ہوتی ہے۔ کہتے ہیں مہندی کا رنگ جتنا گہرا ہوتا ہے اتنی ہی گہری شوہر کی محبت ہوتی ہے۔ دلہن کے ہاتھوں میں شوہر کا نام لکھا جاتا ہے اور رسمِ عروسی کے بعد شوہر کو دلہن کے ہاتھ میں پوشیدہ اپنا نام ڈھونڈھنا ہوتا ہے۔
حنا فارسی لفظ ہے جبکہ مہندی ہندی لفظ ہے۔ یہ دراصل پودا لاسونیا اِنیرمیس کے پتے سے دستیات ہوتا ہے۔ اس کے سفید پھولوں کا گچھا ہے۔ ۰۰۰۷ سال پہلے مہندی کا انکشاف ہوا۔ تین ہزار چار سو سال قبل مسیح میں مصر کی تہذیب میں مہندی کی بڑی قدرومنزلت تھی۔ اس کو ناخنوں اور جسم کے دیگر حصّوں میں ڈالا جاتا۔ یہ مہذب ہونے کی نشانی ہوا کرتی تھی۔ اس سے اہلِ مصر اپنے جسم کو ٹھنڈک پہنچاتے۔ مردہ لاشوں پر بھی مہندی کے نقوش پائے گئے۔ یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ اس سے مردہ لاشوں کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا تھا۔ مہندی کی خوشبو کا ذکر تورات میں بھی آیا ہے اور مہندی کو لفظ ’کوفر ‘اور ’اشکول‘ دیا گیا ہے۔ نیز مہندی سے بالوں اور ڈاڑھی کو رنگنا رسولِ پاک ﷺ کی سنتوں میں شامل ہے جس کی اطاعت آج بھی لاتعداد مسلمان کرتے ہیں۔ مہندی سے بالوں کو رنگنے میںبال مضبوط ہوجاتے ہیں۔ جو مسلمان خواتین نماز کی پابندی کو اپنا فرضِ عین مانتی ہیںوہ پالش کے بجائے اپنے ناخنوں کو مہندی سے رنگنا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ کئی شامپو اور کنڈیشنر میں مہندی مستعمل ہوتی ہے۔ پچھلے سال بالٹیک ممالک کی سیر کے دوران، لاتویا کے دارالسلطنت ریگا میں میں نے بالوں کے رنگنے کے لئے ڈائی خریدا۔ پیکیٹ کھولنے پر معلوم پڑا اس میں حنا کا پاﺅڈر تھا۔ یقینا حنا نے بہت طویل مسافت طے کی ہے۔ ہندوستان سے مبدا مہندی کے ہرے پتوں کی یورپ اور امریکہ میں بہت مانگ ہے۔
مہندی کے کئی طبی فوائد ہیں۔ یہ ناخنوں کو مضبوط بناتی ہے۔ چونکہ یہ ٹھنڈک پہنچاتی ہے اس لئے بخار اور سردرد دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ پیروں میں چھالوں، آبلوں اور وبائی امراض کا علاج بھی کرتی ہے۔ مہندی جراثیم سے بھی حفاظت کرتی ہے۔
پچھلے زمانے میں مہندی کے پتوں کو پیس کر ماچس کی تیلی سے نقطے اور لائنیں بنائی جاتیں۔ اس میں کافی وقت لگتا۔ آجکل کون کے آجانے سے طرح طرح کے نقش و نگار باآسانی سے لگائے جاتے ہیں۔ عربی، ہندوستانی، پاکستانی یا خلیجی ڈزائین بے حد مقبول ہیں۔ افریقی ممالک کے ڈزائن میں جیومیٹری، مربع اور لائنوں کے ساتھ ساتھ نقطے بھی شامل ہیں۔ کون کی تیاری میں لیمو کا رس، چائے، کافی اور تیل مستعمل ہوتے ہیں۔ جب مہندی سوکھنے لگتی ہے تو لیمو اور چینی اس پر لگایا جاتا ہے۔ اس طرح اس میں نمی آجاتی ہے اور گہرے بھورے یا اننابی رنگ کے چڑھنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ مہندی کے جھڑنے کے بعد اس پر ناریل کا تیل لگایا جاتا ہے تاکہ رنگ مزید گہرا ہو۔
مہندی انسانی رشتوں کو مضبوط تر بناتی ہے۔ ماں، بیٹیاں، بہنیں، سہیلیاں اور پڑوسیاں جب اپنے ہاتھوں کو مہندی سے سجاتی کے لئے یکجا ہوتی ہیں تو قربت کا احساس یقینا پیدا ہوتا ہے۔ فضا مہندی کی خوشبو سے معطر ہوتی ہے۔ چہ می کوئیوں اور ہنسی مذاق کا سما بندھ جاتا ہے۔ یہ لمحات بطور سہانی یادوں کے ذہن میں نقش ہوجاتے ہیں۔ شادی میں مہندی کی رسم بھی پر کیف ہوتی ہے۔ موریشس میں لڑکے کے گھر والے جب دلہن کو رسمی طور پر مہندی لگواتے ہیں تو اسی مہندی سے اس نئے رشتے کی بنیاد پڑتی ہے۔ یہی رسم دو گھرانوں کو جوڑتی ہے اور شاد و خرم کا سبب بنتی ہے۔
مزیدبرآں آجکل سیاحت کی صنعت میں مہندی کے بہت مطالبات ہیں۔ سیاح نہایت تجسس و اسشتیاق سے اپنے ہاتھوں اور بیروں میں مہندی لگواتے ہیں۔ مہندی متعدد لوگوں کا ذریعئہ معاش بھی ہے۔ شادی کے موسم میں خصوصاً ہندو اور مسلمان دلہنوں کے ہاتھوں میں کہنیوں تک اور پیروں میں گھٹنوں تک کی زیبائش کو مہندی اجاگر کرتی ہے۔ کم از کم یہ رنگ ڈیڑھ ہفتے تک رہتا ہے۔ دیکھتے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ نئی نئی شادی ہوئی ہے۔
موریشس میں وزارتِ فنون و ثقافت کی پہل سے مسلسل گذشتہ دو سالوں تک عوام کو عید سے ایک روز قبل مفت میں مہندی لگائی جاتی ہے۔ یہ بذاتِ خود اخوت اور اتحاد کی ایک عمدہ مثال ہے۔ مختلف مذاہب کی خواتین جن میں چینی اور عیسائی نسل کی خواتین بھی شامل ہوئیں ،نے اس میں حصّہ لیا اور اس عطیہ سے خوش ہو کر مہندی لگانے والیوں کو دعائیں دیں۔ دنیا میں جہاں مسلمانوں کو دہشت گردی سے منسلک کیا جاتا ہے وہاں مہندی نے کچھ اور ہی رنگ کھلائے۔
حنا بذاتِ خود ہمت کی نشانی ہے۔ بقول شاعر پتھر پر پسنے کے بعد یہ اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ اس سے ہم یہی سبق اخذ کر سکتے ہیںکہ پریشانیاں اور مشکلات ہمارے کردار کی تکمیل کے لئے ہوتی ہیں اور پریشانیاں ہی ہمیں سرفرازی کے لئے اکساتی ہیں۔ جس طرح تکلیف برداشت کرنے کے بعد بھی مہندی فضا کو معطر کرتی ہے اسی طرح نا مسائد حالات کے باوجود ہمیں نرمئی گفتار، صبر و تحمل، نیک اخلاق اور بہترین عادات و اطوار کی پاسبانی کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔
غرض کہ مہندی خدا کی صناعی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کے لاتعداد فوائد ہیں اور اس کی مقبولیت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ علاقوں کے اعتبار سے نقوش میں فر ق دیکھے جا سکتے ہیں۔ مہندی ایک تہذیب کی بھی نشاندہی کرتی ہے اور اس کی عالمگیر شہرت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
(مضمون نگارکا تعلق موریشس سے ہے اور وہاں اردو کی خدمات انجام دے رہی ہیں)