پنچایتی انتخاب میں مسلمانوں کے سیاسی شعور کا امتحان

صدائے جرس :اشرف استھانوی
بہارمیں اسمبلی انتخاب کے 6 ماہ کے اندر ہی دوسری بار مسلمانوں کے سیاسی شعور کا امتحان ہے۔ 6 ماہ قبل مسلمانوں پر ریاستی قانون، سازیہ میں اپنی نمائندگی بڑھانے کا چیلنج تھا تو اس بار سہ سطحی پنچایتی نظام میں اپنی مضبوط حصہ داری کو یقینی بنانے کا موقع ہے۔ پنچایتی انتخابات اس بار بھی غیر جماعتی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ اور پولنگ کاروایتی طریقہ ہی اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی بیلٹ پیپر کے توسط سے ووٹنگ ہو رہی ہے۔ انتخابات کے پر امن اور آزادانہ ومنصفانہ انعقاد کو یقینی بنانے اور نکسلی خطروں سے نمٹنے کے لئے یہ انتخابات 10 مرحلے میں کرائے جا رہے ہیں۔ پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ او رجب تک یہ تحریر آپ کی نگاہوں سے گذرے گی تب تک شاید دوسرا مرحلہ بھی ہو چکا ہوگا۔ لیکن اس کے بعد بھی 8 مراحل باقی رہ جائیں گے اس لئے چند باتیں گوش گذار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
یوں تو کہنے کے لئے بہار کے پنچایتی نظام میں 115676 گرام کے اراکین ،115676 پنچ،8463 مکھیا، 8463 ، سرپنچ 11566 پنچایت سمیتی کے ارکان ، تین چوتھائی سے زیادہ یعنی 77% سیٹیں ریزرو ہیں اس لئے عام طبقہ کے لوگوں کے لئے مواقع کافی کم رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون ساز اداروں کی طرح پنچایتی اداروں میں بھی ان کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ پسماندہ ذاتوں کے لئے پہلے سے رائج 27 فیصد ریزرویشن کے علاوہ موجودہ نتیش حکومت نے 50 فیصد سیٹیں خواتین کے لئے بھی ریزروکردی ہیں۔ خواتین کے لئے 50 فیصد ریزرویشن بھلے ہی عام ہے اور اس میں ہر فرقہ اردو طبقہ کی خواتین اصولاً شامل ہیں۔ لیکن مسلم خواتین خصوصاً دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین چوں کہ مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط ، اور موجودہ دور کی آلودہ سیاست سے دور رہنا پسند کرتی ہیں اس لئے 50 فیصد سیٹوں پر مسلم خواتین کو کم ہی جگہ مل پاتی ہے۔اور سارا دباؤ 23 فیصد ان ریزروڈ سیٹوں پرہوتا ہے۔ جن کے لئے ہر فرقہ اور طبقہ کے افراد امید وار ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ تمام کوششوں اور سیاسی سرگرمیوں کے باوجود فی الوقت ریاست میں محض518 مکھیا 452 ، سرپنچ ،15 ضلع پنچایت کے ارکان اور 22 بلاک پرمکھ او ر4 ضلع پریشد کے چیر مین ہی مسلمان ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نمائندگی مسلمانوں کی مجموعی آبادی اور پنچایتی راج اداروں کی مجموعی سیٹوں کے تناسب میں کافی کم ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اب ریزروڈ اور ان ریزروڈ تمام سیٹوں پر یہ صورت حال ہو گئی ہے کہ ایک ہی گھر او رخاندان کے کئی افراد امید وار بننے لگے ہیں۔خواتین کے لئے مخصوص سیٹیں ہیں تو اس کے لئے ماں ، بیٹی، یا ساس بہو ،بہنیں آپس میں ہی ٹکرا رہی ہیں۔ اور ان ریزروڈ سیٹوں پر باپ بیٹے، سسر داماد، چچا بھتیجہ، ہی آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ اس صورت حال سے بچنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس سے جہاں آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں اور رشتوں کا پاس اور لحاظ ختم ہو جاتا ہے۔ وہیں اس بات کا بھی اندیشہ رہتا ہے کہ آپ کے حامی وٹوں کی تقسیم کا فائدہ دوسرے لوگ اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں او رآپ کی نمائندگی مزید کم ہو جائے۔ یہ صحیح ہے کہ اس طرح کا مقابلہ دوسرے فرقہ اور طبقہ کے لوگوں میں بھی ہے۔لیکن کم نمائندگی کا اصل مسئلہ آپ مسلمانوں کا ہے۔ او رآپ کے پاس مواقع کم ہیں اس لئے آپ کو زیادہ محتاط او رہوشیار رہنا پڑے گا۔ آپ نے گذشتہ اسمبلی انتخاب میں ذراسی ہوشیاری ، اور سیاسی شعور کا ثبوت دیا تو آپ نے دیکھا کہ ریاستی قانون سازیہ میں آپ کی نمائندگی پہلے سے بہتر ہو گئی اور 19 سے بڑھ کر مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد 24 ہو گئی۔ اسی ہوشیاری اور عقل مندی کا ثبوت آپ کو پنچایتی انتخاب میں دینا ہوگا۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی تعداد پنچایتی راج اداروں میں پہلے سے زیادہ نہ ہو۔
آپ کے لئے ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کیوں کہ اقتدار کی لامرکزیت اور جمہوری تعلیم کو نچلی سطح تک مضبوط اور مستحکم کرنے کی غرض سے پنچایتی راج اداروں اور ان کے عہدیداروں کو بتدریج مالی اور انتظامی اختیارات تفویض کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ قانون ساز یہ کے ارکان کے ترقیاتی کاموں کے لئے محض سفارش کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن پنچایتی راج کے عہدیداروں کو اب ایک کروڑ روپے ترقیاتی کاموں کے لئے ملا کر یں گے۔ ظاہر ہے کہ اس تبدیلی کا فائدہ مسلمان تبھی اٹھا سکیں گے جب وہ کثیر تعداد میں منتخب ہو کر آئیں گے۔ اس کے لئے انہیں اسی سیاسی سوجھ بوجھ اور آپسی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا جیسا کہ انہوں نے 2010 کے اسمبلی انتخاب میں کیا تھا۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کو اپنی فکر میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی۔ جس طرح انہوں نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھ کر اسے اپنانے پر دھیان دیا ہے۔ اور صرف لڑکوں کو نہیں بلکہ لڑکیوں کو بھی ضروری دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم اور ہُنر سے آراستہ کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ اسی طرح انہیں صحت مند سیاست کو بھی اپنانا پڑے گا۔ اور اپنی خواتین کو بھی علم اور تجربہ کی روشنی دے کر اپنی سرپرستی میں پنچایتی راج کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لائق بنانا ہوگا۔ تبھی وہ 50 فیصد خواتین ریزرویشن کا فائدہ اٹھا سکیں گی۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پنچایت کی سطح پر جمہوری نظام کے استحکام کے ساتھ ترقیاتی اسکیموں کے نفاذ اور ان کی مانیٹرنگ کی ذمہ داری پنچایتی راج کے نمائندوں اور عہدیداروں پر بتدریج بڑھتی جا ئے گی۔ اس لئے ہمیں خود اور اپنے گھروں کی خواتین کو بھی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے قابل بنانا ہوگا۔ اور ایک صالح مثالی پنچایتی نظام کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خوب یاد رکھئے کہ پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلی و کونسل کے راستے اسی پنچایتی نظام کے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے ہو کر نکلتا ہے جب ہم نچلی سطح پر مضبوط، منظم اور متحد رہیں گے تو اس کا فائدہ ہمیں آنے والے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں بھی حاصل ہوگا۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلکی، نظریاتی اور ذات پات کے اختلافات کو فراموش کر کے کلمہ وحدت کی بنیاد پر ایک ہو جائیں اور اپنے علاقے کے اقلیتی فرقہ کے صاف ستھرے شبیہہ کے ملی جذبے سے سرشار شخص کو منتخب کریں ۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو بعد میں آپ کو پچھتانا ہو گا اور ہمارا کوئی پرسان حال بھی نہ ہوگا اور ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔
بقول شاعر ؂
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار معروف صحافی اور مصنف ہیں)
ashrafasthanvi@gmail.com

SHARE