اشرف استھانوی
بہار میں بی.جے.پی کو چِت کرنے کے بعد حال ہی میں حکمراں جنتادل یو کے قومی صدر کا عہدہ سنبھالنے والے ریاست کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے سنگھ مُکت، یعنی آر.ایس.ایس سے پاک ہندستان بنانے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی تمام غیر بی.جے.پی اور غیرسنگھی سیاسی پارٹیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ گذشتہ دنوں پٹنہ میں منعقد جنتادل یو کے قومی کونسل کے اجلاس میں شردیادو سے منتقل پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد نتیش کمار نے کہا کہ جس طرح بہار میں سیکولر اتحاد قائم ہوا ہے، اسی طرح اگر پورے ملک میں اتحاد قائم ہوسکا تو 2019کے لوک سبھا انتخاب میں بی.جے.پی کا صفایا ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بہار کے انتخابی نتائج سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ بی.جے.پی کے خلاف سیکولر سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہی کامیابی حاصل کرسکے گا۔ سیکولر سیاسی پارٹیاں متحد ہوں گی تو بی.جے.پی قومی سطح پر بھی چاروں شانے چت ہوگی۔ لیکن اگر وہ اپنی اپنی ڈفلی اور پرانا راگ الاپتی رہیں تو بی.جے.پی کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔ ہم خیال سیکولر جماعتوں کا اتحاد ہو، انضمام ہو یا آپسی تال میل اور مفاہمت۔ صورت کوئی بھی ہو، زیادہ سے زیادہ سیکولر پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہی ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بڑے مقصد کے حصول کے لئے سیکولر سیاسی پارٹیوں اور ان کے قائدین کو اسی طرح قربانی کے جذبے سے کام کرنا ہوگا جس طرح آرجے ڈی کے سربراہ لالو پرساد اور خود انہوں نے بہار میں کیا۔ ہماری اسی قربانی کا ثمرہ تھا کہ بہار میں عظیم اتحاد قائم ہوا اور بی.جے.پی کے قیادت والے قومی جمہوری اتحاد این ڈی اے کو شکست فاش نصیب ہوئی۔
سنگھ مُکت بھارت بنانے کا اعلان، جتنا دلچسپ اور پرکشش ہے اتنا آسان اور قابلِ عمل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نتیش کمار نے جیسے ہی سنگھ مُکت ہندستان بنانے کے لئے غیربی.جے.پی پارٹیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی، ان کے مخالفین ان کی قیادت پر سوالیہ نشان لگانے لگے اور یہ سوال کرنے لگے کہ قومی سطح پر نتیش کمار کو لیڈر کون تسلیم کرے گا؟ نتیش نے فی الحال یہ کہہ کر بی.جے.پی کو خاموش کرنے کی کوشش تو کی ہے کہ میں نے یہ کب کہا ہے کہ مجھے لیڈر تسلیم کیا جائے؟ میں نے تو صرف اتنا کہا ہے کہ سیکولر پارٹیاں متحد ہوں۔ اتحاد قائم ہوجائے گا تو بی.جے.پی کا کھیل بگڑتے دیر نہیں لگے گی۔ رہی بات وزیراعظم بننے کی تو جس کو وزیراعظم بننا ہوگا، وہ اپنے وقت پر بن ہی جائے گا۔ آپ اس کا نام لیجئے یا مت لیجئے۔ نتیش کا یہ جواب اپنی جگہ صحیح ہوتے ہوئے بھی مکمل نہیں ہے۔ کیونکہ جب بھی سیاست میں اتحاد کی بات ہوتی ہے تو قیادت کا معاملہ خودبخود سامنے آجاتا ہے اور بغیر قیادت کا معاملہ طے کئے کسی اتحاد کے موثر ہونے امید نہیں ہوتی ہے۔ بہار میں بھی عظیم سیکولر اتحاد اسی وقت قائم ہوسکا جب آرجے ڈی کے سربراہ لالو پرساد نے نتیش کمار کی قیادت تسلیم کرلی اور کانگریس کی قیادت نے بھی نتیش کمار کو لیڈر تسلیم کرلیا۔ جب تک لالو پرساد اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے، اتحاد پر غیریقینی کے بادل منڈلاتے نظر آرہے تھے۔ بقول نتیش کمار، بہار میں سیکولر اتحاد اس لئے قائم ہوا کیونکہ انہوں نے اور لالوپرساد نے قربانی کے جذبے سے کام لیا۔ مگر قربانی کا جذبہ بھی دونوں رہنماؤں میں تب پیدا ہوا جب دونوں کو اپنا سیاسی وجود مٹتا اور بکھرتا ہوا نظر آیا۔ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں اگر بی.جے.پی نے بہار کے ان دونوں بڑے سورماؤں کو ان کی اوقات نہ بتائی ہوتی تو نتیش، کمار لالو پرساد کے سامنے جھکنے کے لئے کبھی تیار نہ ہوتے۔ اسی طرح لالو پرساد اور ان کی پارٹی کے پاس نتیش کمار کا متبادل موجود ہوتا یا لالو پرساد اپنے بچوں کو سیاست میں قدم جمانے کا موقع دینے کے لئے نتیش کے محتاج نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی نتیش کی قیادت تسلیم نہ کرتے۔ لالو پرساد کے پاس جب تک اس طرح کی مجبوری نہیں تھی، وہ کبھی بھی قیادت کے معاملے پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ 2005کے اسمبلی انتخاب کے بعد رام بلاس پاسوان حکمرانی کی کنجی لے کر گھومتے رہے مگر لالو نے اپنے خاندان سے باہر کے کسی فرد کو قیادت سونپنا گوارہ نہیں کیا۔ پاسوان مسلم وزیراعلیٰ کا نعرہ لگاتے رہے مگر لالو پرساد ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ اس کے بعد ریاست میں صدر راج نافذ ہوا اور ایک سال کے اندر دوبارہ انتخاب کرانا پڑا۔ دوبارہ انتخاب کے بعد حکومت بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کے ہاتھ میں چلی گئی مگر لالو نے سمجھوتہ نہیں کیا۔
بہار میں عظیم اتحاد کا تجربہ کامیاب ہونے کے بعد بھی اسے دوسری ریاستوں میں آزمانے کی کوشش تو ہوئی مگر وہ کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ نتیش کمار کی حلف برداری کی تقریب میں کانگریس کے قومی نائب صدر راہل گاندھی، آسام کے وزیراعلیٰ ترون گوگوئی اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی بھی موجود تھیں مگر چند ماہ بعد ہی جب بنگال اور آسام میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں تو اس میں مضبوط سیکولر اتحاد نظر نہیں آرہا ہے۔ آئندہ سال اُترپردیش جیسی بڑی ریاست میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں مگر وہاں بھی بہار جیسے کسی عظیم سیکولر اتحاد کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ کیونکہ ان ریاستوں میں حکمراں جماعتوں کے سامنے اس طرح کا خطرہ نہیں ہے جس طرح کا خطرہ بہار میں نتیش اور لالو کے سامنے تھا۔
جھٹکا تو 2014کے لوک سبھا کے انتخاب میں اُترپردیش کی حکمراں سماج وادی پورٹی کو بھی لگا تھا مگر وہ اس سے خوفزدہ نہیں ہے۔ اُسے وہ وقتی حادثہ مان کر کب کا بھلا چکی ہے۔ اس کی کٹر حریف بہوجن سماج پارٹی کا لوک سبھا انتخاب میں صفایا ہوگیا تھا، اس کے باوجود اسے اس بات کا اطمینان ہے کہ حکمراں سماج وادی پارٹی کی ناکامی اور غیرمقبولیت اس کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے اسے کسی اتحاد کے چکر میں پڑنے یا کسی دوسرے کولیڈر تسلیم کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تمل ناڈو میں بھی اُترپردیش جیسی دو بڑی پارٹیاں باری باری سے اقتدار سنبھالتی رہی ہیں۔ یہ دونوں حالات اور موقع کی نزاکت کو ذہن میں رکھ کر مرکز میں حکمراں جماعت کا ساتھ دیتی اور لیتی رہی ہیں۔ فی الحال کانگریس کا کروناندھی کی پارٹی ڈی ایم کے سے معاہدہ ہے تو ظاہر ہے کہ امّاں سے فی الحال کوئی بات تو نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے بنگال اور اُترپردیش کی طرح تامل ناڈو میں بھی کسی بڑے سیکولر اتحاد کی امید نہیں ہے۔ کانگریس بنگال میں سی پی ایم کے ساتھ ہے۔ قومی سطح پر بھی اس کا بایاں محاذ اتحاد ہوچکا ہے۔ مگر وہ دیرپا نہیں ہوتا۔ آگے کیا ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔
نتیش کی پارٹی جنتادل یو بہار میں کانگریس کے ساتھ عظیم اتحاد کی حکومت میں شامل ہے مگر اُترپردیش میں آرایل ڈی کے ساتھ اُترنے کی تیاری میں ہے۔ یہ محض اپنی سیاسی طاقت بڑھانے اور بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں میں بھی اپنی موجودگی کی بنیاد پر قومی پارٹی کا درجہ حاصل کرنے کی محض ایک کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ پارٹی کااصل نشانہ 2017کا اُترپردیش کا اسمبلی انتخاب نہیں بلکہ 2019کا لوک سبھا انتخاب ہے، پارلیامانی انتخاب میں قومی سطح پر سیکولر اتحاد کے امکانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
قومی سطح پر کانگریس طویل عرصہ تک بلاشرکت غیرے حکومت کرتی آئی ہے۔ بی.جے.پی پہلی بار 2014میں اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ حالانکہ بہار اور مہاراشٹر جیسی کچھ ریاستوں میں اور قومی سطح پر بھی اتحاد کی سیاست کی ضرورت اور مجبوری اسے اپنے حلیفوں کو ساتھ لے کر چلنے پر مجبور کرتی ہے۔ اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ 2019 میں بھی اتحاد کی سیاست نہ کرے۔ کانگریس نے بھی جب سے اتحاد کی سیاست کی مجبوری تسلیم کی ہے، وہ لگاتار اس پر عمل پیرا ہے۔ اس لئے اگلے لوک سبھا انتخاب میں بھی وہ ایسا ہی کرے گی۔ ایسی صورت میں بہت ممکن ہے کہ بہار، جھارکھنڈ میں وہ عظیم اتحاد کے ساتھ، اُترپردیش میں جنتادل یو، آرایل ڈی کے ساتھ، مغربی بنگال میں بایاں محاذ کے ساتھ، تامل ناڈو میں ڈی ایم کے ساتھ، مہاراشٹر میں این سی پی کے ساتھ تو جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ اتحاد کرے۔ یعنی الگ الگ ریاست میں اس کا الگ الگ پارٹی کے ساتھ اتحاد ہو۔ قومی سطح پر کسی ایک پارٹی سے اتحاد ممکن نہیں۔ کیونکہ کوئی بھی دوسری سیکولر پارٹی قومی سطح پر اپنے قدم نہیں جما سکی ہے۔ ریاستی سطح پر بھی ایک سے زائد متبادل ہونے کے سبب مکمل سیکولر اتحاد ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی ابھی سنگھ مُکت بھارت کے حق میں ویسے سیاسی فضابندی نہیں ہوسکی ہے جیسی 1977 میں کانگریس کے خلاف بنی تھی۔ اس وقت تمام پارٹیاں کانگریس کے خلاف متحد ہوگئی تھیں۔ ملک میں آرایس ایس کے انتہا پسندانہ، غیرسیکولر نظریات کے خلاف ماحول بننے تو لگا ہے، لیکن ابھی تک شاید ویسے حالات نہیں پیدا ہوئے ہیں کہ تمام غیربی.جے.پی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر آجائیں۔ بی.جے.پی کے ساتھ مرکز یا ریاست کی حکومت میں شامل کتنی پارٹیاں ہیں جو آئندہ لوک سبھا انتخاب سے ٹھیک پہلے اپنی حکومت یا وزارت کو قربان کرکے بی.جے.پی کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوں گی؟
ایسی صورت میں اگر آئندہ لوک سبھا انتخاب میں کوئی حکومت مخالف لہر چلی تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر حمایت یا مخالفت میں کوئی لہر پیدا نہیں ہوسکی اور معاملہ جیوں کا تیوں رہا تو عجب نہیں فریکچرڈ مینڈٹ آئے۔ فریکچرڈ مینڈٹ کی صورت میں سب سے بڑی پارٹی کے لئے حکومت سازی کی راہ ہموار ہوگی۔ اب اگر بی.جے.پی سب سے بڑی پارٹی یا دوسرے نمبر کی بھی پارٹی رہی تو وہ جوڑ توڑ کے ذریعہ حکومت بنانے کی کوشش ضرور کرے گی۔ اور اگر ایسا ہوا تو بہت ساری سیکولر پارٹیاں بی.جے.پی کو بھی حمایت دینے کے لئے تیار ہوجائیں گی۔ ماضی کا تجربہ تو یہی بتاتا ہے۔ بی.جے.پی سے پرہیز کتنی پارٹیوں کو ہے، یہ جگ ظاہر ہے۔ اقتدار حاصل کرنے یا ریاست میں اپنا اقتدار بچائے رکھنے کے لئے اگر سیکولر پارٹیاں بی.جے.پی کا ساتھ نہ دیتیں تو2014 سے پہلے کبھی بھی مرکز میں بی.جے.پی حکومت قائم نہیں ہوتی۔ ایسے میں سنگھ مُکت بنانے کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے مگر اس کی تعبیر تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ رہی بات نتیش کمار کے نعرے کی تو اس سلسلے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ قومی سیاست میں واپسی کے لئے نتیش کا یہ خیال اچھا ہے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور مصنف ہیں)