ہاجیلا ٹیم نے آسام میں عوامی وسائل اور کاشتکاروں کے ساتھ بھونڈا مذاق کیاہے
محمدبرہان الدین قاسمی
ترجمہ: محمد جاوید اقبال
1985 میں اس وقت کے وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی اور آل آسام اسٹودینٹس یونین (آسو) کے مابین آسام اکارڈ قرار پانے کے تقریبا 33 سال بعد، نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنس (این آر سی) کے اسٹیٹ کو آر ڈی نیٹر پرتیک ہاجیلا نے این آر سی کا مکمل مسودہ جاری کیا۔ مئی 2015 کے بعد سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے پیش نظر چار سالوں کی چھان بین کے بعد 30 جولائی 2018 بروز پیر این آر سی کا فائنل ڈرافٹ شائع کیا گیا۔ریاست کے نظر ثانی شدہ این آر سی کا پہلا ڈرافٹ 31 دسمبر 2017 کی آدھی رات کو جاری کیا گیا تھا جس میں 1.90 کڑور نام شامل تھے۔بقیہ تمام مستند اور تصدیق شدہ شہریوں کے نام اس دوسرے اور مکمل مسودے میں شائع ہوئے ہیں جو 3.29 کڑور عرضی گزاروں میں سے صرف 2.89 کڑوں لوگوں پر مشتمل ہےجبکہ 40 لاکھ لوگ اس فہرست سے تاحال خارج ہیں۔
دعوؤں اور اعتراضات کے مکمل جائزے کے بعد این آر سی کی ترمیم شدہ حتمی فہرست کا آنا ابھی باقی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کی حتمی تاریخ طے نہیں کی ہے لہذا فی الواقع ایسا کب ہو پائے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔تاہم سپریم کورٹ نے معاملہ کی سنگینی کی جانب دوسری بار اشارہ کرتے ہوئے مورخہ 31 جولائی 2018 کے اپنے حکم نامے میں بی جے پی کی قیادت والی ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو 16 اگست 2018 کو دوپہر 2 بجے تک این آر سی کی مکمل لسٹ کے حوالے سے معیاری طریقہ کار (اسٹنڈرڈ آپریشنل پروسیجر) پیش کرنے کو کہا ہے ۔31 جولائی 2018 کے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر حالیہ مسودے کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی حیثیت کے بارے میں یہ کہا ہے کہ “اس سلسلہ میں عدالت کا موقف یہ ہے کہ جو کچھ شائع ہوا ہے وہ این آر سی کا مسودہ ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ بحیثیت مسودہ یہ کسی بھی ادارے کے لیے کسی طرح کی کارروائی کی بنیاد نہیں بن سکتا”۔
مسودے کی ترتیب کے دوران ریاستی حکومت کی بے ضابطگیوں کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں ایک درست اور قابل قبول فیصلہ کن لسٹ کے امکانات بہت کم ہی ہیں،الا یہ کہ سپریم کورٹ بذات خود آسام میں تمام ساز و سامان کے ساتھ پروفیشنل شمار کنندگان کی ٹیم بھیج کر اسے یقینی بنائے۔اب ریاست کی سخت کوشی بھی فہرست کے جاری ہونے کے بعد کھلے طور پر سامنے آ چکی ہے۔اس صورت حال میں شاید وہ لوگ کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں جو2016 میں لوک سبھا میں پیش ہونے والے بھاجپا قیادت والی موجودہ مرکزی حکومت کے شہری ترمیمی بل تک معاملے کو طول دینا چاہتے تھے۔
یہ مضمون انگلش میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مذکورہ بل جو 15 جولائی 2016 کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا کا مقصد سیٹیزن شپ ایکٹ 1955 میں ترمیم کرنا تھا تاکہ افغانستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمانوں کے علاوہ دیگر غیر قانونی مہاجرین کو مذہب کی بنیاد پر شہریت عطا کی جا سکے۔ سوائے بی جے پی کے جو 2016 سے آسام میں بر سر اقتدار ہے،تمام آسامی باشندگان نے،خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم جیسےآسام اکورڈ کی موسس آسو ،اے جی پی، کانگریس اور مولانا بدرالدین اجمل کی قیادت والی اے آئی یو ڈی ایف سب نے یکساں طور پر اس بل کی پرزور مخالفت کی ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندستانی ریاست آسام میں مسلمانوں کی کل تعداد1.06 کروڑ تھی جو ریاست کی مجموعی آبادی کا 34.22 فیصد ہے۔تقریبا نو اضلاع میں مسلمان اکثریت میں ہیں خصوصا براک ویلی میں کچھاڑ،کریم گنج ،ہیلا کنڈی ، نشیبی آسام میں دھوبڑی ،گوالپاڑا اور برپیٹا جبکہ ریاست کے مرکزی خطے میں نوگاؤں ،موری گاؤں اور ہوجائی وہ اضلاع ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔اگر فیصد ی تناسب کا لحاظ کیا جائے تو بھارت میں جموں وکشمیر کے بعد یہ مسلمانوں کی دوسری بڑی اکثریت قرار پاتی ہے۔ریاست آسام،شمال مشرق ہندوستان میں، 33 اضلاع ، مجلس قانون ساز کے 126 انتخابی حلقوں اور قومی پارلیامنٹ کے 14 حلقوں پر مشتمل ہے۔
آسام میں نئی این آر سی کیوں؟
روزنامہ انڈین ایکسپریس میں مورخہ 1 اگست 2018 کو ایک مضمون شائع ہوا ،جس میں فاضل مضمون نگار ادریجا رائے چودھری لکھتی ہیں “ما قبل آزادی زمانے میں ہی مہاجرین کے مسئلے نے آسام میں سماجی تعلقات میں کھٹاس پیدا کردی تھی۔ آسام میں مردم شماری کا مطالعہ کرنے والے امریکی سیاست داں مائرن وینیئر نے 1891 کی مردم شماری کے خاکے کو بنیاد بناتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ مہاجرین اور ان کی نسل کی تعداد 8.5 میلین ہے جبکہ اس کے برخلاف مقامی باشندوں اور ان کی نسل کا تخمینہ 6.5 میلین ہے۔آزاد ہندستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد 1979 تک جب کہ آسام موومنٹ شروع ہوا اس معاملے سے بے رخی برتی گئی ۔لمبے عرصے تک جس چیز نے مہاجرین کے مسئلے کو حاشیے پر رکھا وہ در اصل سماجی رسہ کشی کے حدود کی تعیین میں لسانی مسئلے(بھاشا آندولن ) پر مرکوزیت ہے ۔
” اگرچہ گاہے گاہے مہاجرین کا تنازع زیر بحث آتا رہا لیکن یہ 1979 کی بات ہے جب اس مسئلے نے مستقبل کے لیے مذہبی اور سماجی مراسم کا ایک نیا ڈھانچہ پیش کرکے ریاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔”اس سے وہ صحت مند سماجی تعلقات برہم ہوئے جن کی نشو نما بہ صد اہتمام ہوپائی تھی اور جو ریاست میں سیاسی استحکام کی بنیاد ہواکرتی تھیں،نتیجتا سیاسی کشمکش کا ایک طویل دور شروع ہوا،” ماہر سیاسیات سنجیب باروا نے اپنی کتاب Immigration, Ethnic Conflict and Political Turmoil- Assam 1979-1985(ہجرت، سماجی رسہ کشی اور سیاسی کشمکش-آسام 1985-1979)میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔
1979 سے 1985 کے دوران مرکزی آسام کے علاقے نیلی میں ایک بھیانک فساد برپا ہوا جو18 فروری 1983 کی صبح کو 6 گھنٹے تک جاری رہا۔اس قتل عام میں نو گاوں ضلع کے نیلی اور گردونواح کے 14 گاؤں کے 2191 لوگ ہلاک ہوئے (واضح رہے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 10000 سے متجاوز ہے )۔ہلاک شدگان مشرقی بنگال کے وہ مسلمان تھے جن کے آبا ء واجداد نے ما قبل تقسیم برطانوی ہندوستان میں یہاں نقل مکانی کی تھی۔ذرائع ابلاغ سے وابستہ تین افراد انڈین ایکسپریس کے ہمیندر ناراین ،آسام ٹریبیون کے بیدابرتا لکھر اور اے بی سی کے شرما اس واقعہ کے گواہ تھے۔یہ متاثرین ان لوگوں کی آل و اولاد تھے جو بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں برٹش انڈیا کے تحت چلنے والی اس وقت کی آسام حکومت کی راست تولیت کی بنیاد پر آسام آئے تھے۔(ویکیپیڈیا ، آزاد دائرۃ المعارف)
نیلی میں رونما ہونے والا یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب آسام ایجی ٹیشن عروج پر تھا اور اسے ریاست میں رہنے والے بنگالیوں کے خلاف آسوکی زیر قیادت علاقائیت پسند نام نہاد آسامیوں نے انجام دیا تھا۔”اس واقعہ کو جنگ عظیم دوم کے بعد بدترین اقلیت کشی کا نمونہ قرار دیا گیا ہے”(ویکیپیڈیا)
بعد ازاں اس یقین دہانی کے ساتھ آسام اکارڈ قائم ہواکہ ” حکومت واقعی آسام میں غیر ملکی باشندوں کے مسئلے کا اطمینان بخش حل تلاش کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہے”چنانچہ آسام میں مہاجرین کے مسئلے کے حل کے لیے قراردادوں کی ایک لسٹ مرتب کی گئی۔
آسام اکارڈ میں ایک مرکزی نقطہ یہ بھی تھا کہ آسام میں پہلی این آر سی جسے 1951کے آل انڈیا سینسس کے موافق ترتیب دیا گیا تھا کی بیناد پر ایک نئی ترمیم شدہ این آر سی تیار کی جائے ۔اس نئی این آر سی میں اندراج کے لیے دو شرائط درکار تھے(الف) لیگیسی ڈاٹا (موروثی کاغذات) (ب)یا 24 مارچ 1971 کی آدھی رات تک تسلیم شدہ دستاویزات میں سے کسی ایک میں متعلقہ شخص کا نام موجود ہونیز متعلقہ شخص سے اس کی وابستگی ثابت ہوتی ہو۔”دستاویزات مثلا 1951 این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنس) اورمحکمہ انتخاب کے 24 مارچ 1971 کی آدھی رات تک کے ریکارڈ مجموعی طور پر لیگیسی ڈاتاکہلاتے ہیں”(http://nrcassam.nic.in)
این آر سی فائنل ڈرافٹ اور وزیر اعلی آسام
آسام کے وزیر اعلی سروا نند سونووال نے 30 جولائی سے پہلی شام کو گواہاٹی میں ایک کل جماعتی میٹنگ کے بعد میڈیا کو اہم بیانات دیے ۔انھوں نے کہا “آج ہم نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے ساتھ ایک کل جماعتی میٹنگ کا انعقاد کیا ہے ۔ این آر سی ڈرافٹ کا جاری ہونا آسام میں ہم تمام لوگوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ این آر سی کی تجدید کلی طور پر سپریم کورٹ کی دیکھ ریکھ میں انجام دی گئی ہے۔کسی کو بھی اسے آسام میں مذہبی یا لسانی تفریق کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے۔جو لوگ اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی یا سماج میں رخنہ اندازی کی کوشش کریں گے ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائےگا”۔
وزیر موصوف نے طےشدہ مزید تین اہم معاملوں کی وضاحت بھی کی جن پر 29 جولائی 2018 کی کل جماعتی میٹنگ میں مشاورت کے بعد فیصلہ لیا گیا۔انھوں نے کہا:
- یہ این آر سی کا محض ایک کامل مسودہ ہے جو کل پیش ہونے والا ہے، کوئی حتمی فہرست نہیں ہے۔حتمی فہرست بقیہ تمام کارروائیوں کے بعد جاری کی جائے گی۔
- جن لوگوں کے نام اس ڈرافٹ میں درج نہیں ہیں انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،انھیں فہرست میں اندراج کے لیے این آر سی حکام کی ہدایات کے مطابق دوبارہ دعوی کرنے کا اختیار ہے۔انھیں ایسا کرنا چاہیے اور صوبائی حکومت ،سیاسی جماعتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں ان کا مناسب انداز میں تعاون کریں گی۔
- جن لوگوں کے نام اس مکمل ڈرافٹ سے خارج ہوں گے انھیں غیر ملکی قرار نہیں دیا جائے گا؛ انھیں حراستی مراکز میں نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی وہ ہندستانی شہریوں کو ملنے والےکسی بھی حق سے محروم کیے جائیں گے۔
این آر سی پر اےآئی یو ڈی ایف کا موقف
آسام کے بڑے سیاسی اور مذہبی لیڈر ،صدر آل انڈیا یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ،ممبر آف پارلیامنٹ (دھوبڑی) اور مسلمانان ہند کی سب سے بڑی تنظیم جمعیۃ علمائے ہند کی صوبائی شاخ کے صدر مولانا بدرالدین اجمل نے بھی 29 جولائی 2018کو تمام شہریوں سے اپیل کی تھی کہ خبروں اور افواہوں کے حوالے سے چوکنا رہیں۔ انھوں نے کہا کہ” ہم نےآسام کے سبھی اضلاع میں اے آئی یو ڈی ایف کے رضاکاروں کو پابند کردیا ہے کہ وہ ان اصلی باشندوں کے ساتھ جن کے نام کسی وجہ سے اس مکمل مسودہ میں ممکنہ طور پر درج نہ ہو پائے ہوں قانونی چارہ جوئی میں تعاون کریں ۔ہمارے وکلاء اور مقامی کمیٹیاں ضرورت مند لوگوں کی مددکے لیے بلو پرنٹ (مفصل خاکے) کے ساتھ مستعد ہیں۔”
مولانا اجمل نے ڈرافٹ کی اشاعت سے ایک روز قبل پورے وثوق سے کہا تھاکہ 30 جولائی 2018 کو این آر سی کامکمل ڈرافٹ جاری ہونے کے بعد آسام کے حالات پر امن رہیں گے۔ انھوں نے کہا: ” ہم آسام والےامن پسند لوگ ہیں ،ہمارے شہری برے وقتوں میں بھی آپسی اتحاد اور امن قائم رکھنے کے تئیں کافی با شعور واقع ہوئےہیں”۔
تاہم ،مولانا اجمل نےجو آسام اسمبلی میں 13 ممبران اور لوک سبھا میں بشمول خود تین نشستیں رکھنے والے ایک لیڈر ہیں 30 جولائی کو مکمل این آر سی ڈرافٹ کی اشاعت کے چند گھنٹو ں بعد اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” 40 لاکھ لوگوں کے نام مکمل ڈرافٹ سے حذف کردیے گئے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے،سسٹم میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے”۔انھوں نے فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فائنل رجسٹر میں اپنے نام درج کرانے کے لیے غریب لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کیسے بار بار اپنا اعتراض درج کرانے اور دعوے دائرکرنے کے لیے آفسوں کے چکر لگائے گی۔ “اقلیتوں کی کثرت والے اضلاع کےرجسٹروں سے اتنی تعداد میں ناموں کاغائب ہونا ایک سازش بھی ہوسکتی ہے تاکہ سیاست کے میدان میں مسلمانوں کی نمائندگی کو گھٹایا جاسکے”۔ ان خدشات کا اظہار مولانا اجمل نے 30 جولائی کی شام کو گواہاٹی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔
این آر سی کے عمل میں خدشات
مولانا اجمل کے ذریعے ظاہر کیے گیے خدشات قابل توجہ ہیں ۔ ہندستانی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ڈرافٹ جاری ہونے کے بعد یہ مسئلہ گونجتا رہا۔مغربی بنگال کی وزیر اعلی محترمہ ممتا بنرجی کی طرف سے این آر سی کی کارروائی میں دھاندلی کے خدشہ کا اظہار اور سلچر(جو کہ آسام کے ان علاقوں میں سے ہے جہاں بنگالیوں کی تعداد زیادہ ہے) کی کانگریس ایم پی محترمہ ششمتا دیو کے اعتراضات اس پوری کارروائی اور اس کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔این آر سی آسام کے کو آر ڈی نیٹر مسٹر پرتیک ہاجیلا اپنی ذمہ داری کو خوش اسلوبی کے ساتھ نبھانے میں ناکام رہے۔
اس حوالے سے ماضی میں بھی کچھ اہم سوالات اٹھتے رہے ہیں کہ آخر کیسے ایک جانے مانے مجاہد آزادی ،آسام اسٹیٹ کونسل نیز اسٹیٹ اسمبلی کے، 1937 سے 1946 تک،اولین دپٹی اسپیکر مولانا محمد امیر الدین کی حقیقی اولاد کو غیر ملکی ہونے کا طعنہ دیا گیا اور وہ سالہا سال سے فارنر ٹریبیونل کورٹس کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ 12 جولائی 2018 کو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو متوجہ کرتے ہوئے آواز پٹیشن آن لائن داخل کی گئی جس میں 29 جولائی تک، ڈرافٹ جاری ہونے سے پہلے، 7.5لاکھ دستخط ہو چکے تھے اور بعدہ1 اگست تک، فائنل ڈرافٹ جاری ہونے کے بعد، دستخطوں کی تعداد 816500ہوچکی ہے، اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ” این آر سی کی اشاعت سے بڑے پیمانے پر تشدد پھیلےگا ، نسل کشی ہوگی اور مسلم اقلیت کے لیے تاحیات جیل کی راہیں کھل جائیں گی”۔
آسام کانگریس نے الزام عائد کیا تھا کہ بی جے پی نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنس کے اہل کاروں کے کام کاج میں مداخلت کررہی ہے۔ آسام پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ریپن بورا نے گواہاٹی میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ” ہمیں خبر ملی ہے کہ این آر سی محکمہ کو سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق یا اپنے طور پر کام کرنے میں آجکل دشواری پیش آرہی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ این آر سی کی تجدید میں بی جے پی اپنے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی خاطر دخل دے رہی ہے”۔(www.ummid.com 17 July, 2018)
نارتھ ایسٹ کے معروف انگریزی روزنامہ دی آسام ٹریبیون نے اپنی اشاعت مورخہ 28 جولائی 2018 میں گواہاٹی کی ایک سول سوسائٹی کی میٹنگ کی روداد شائع کی ہے۔جس کا عنوان ہے Public meeting calls for preparation of correct NRC ۔خبر میں بتایا گیا کہ :” اقلیتی طبقے کے بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ نئی این آر سی سے ان کے نام ایک سازش کے تحت ڈی ووٹرس کے زمرہ میں شامل کر لیے جاءنگے ۔حکومت کے کچھ لوگ نئی این آر سی کے عمل پر اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعے عام لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔”
ذرائع ابلاغ کے بڑے ادارے جیسے انڈیا ٹوڈے ،آؤٹ لوک اور فرنٹ لائن میگزن نے اپنی مسلسل کور اسٹوریز میں این آر سی کی کارروائی اور اس کے بعد پیش آنے والے مسائل پر عوامی خدشات کو بیان کیا ہے۔ اہم غیر سرکاری تنظیمیں جیسے جمعیۃ علمائے ہند،سیٹزن فار جسٹس اینڈ پیس اور کل آسام مسلم اسٹوڈنٹ یونین (آمسو) نے متواتر اعتراضات کیے ہیں اور این آر سی کارڈینٹر پرتیک ہاجیلا سے لے کر وزیر اعلی آسام سربانند سونووال اور گوورنر آسام سے لے کر مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ تک سب سے ملاقاتیں کیں اور اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیاکہ این آر سی کا عمل سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق انجام نہیں پا رہا ہےجس سے ڈرافٹ شائع ہوجانے پر مزید انتشار پیدا ہوسکتا ہے۔
30 جولائی 2018 کو این ار سی کے فائنل ڈرافٹ کی اشاعت کے بعد تمام خدشات درست ثابت ہوئے ۔ اگلی قسط میں ہم تجزیہ کریں گے کہ کس طرح مسٹر ہاجیلا کی ٹیم نے این آر سی کے معاملے میں باشندگان آسام کے خواب کو چکنا چور کیا ہے اور کیسے ایک تاریخی اقدام ریاست کی بد نیتی اور محکمہ کی لا پرواہی کی وجہ سے غارت ہوکر رہ گیا.
این آر سی ڈرافٹ پر کریڈٹ کی جنگ
2 جولائی 2018کو جاری ہونے والے سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق 30 جولائی 2018 کو این آر سی کا فائنل ڈرافت جاری ہوا۔بہر صورت سپریم کورٹ آف انڈیا ڈرافٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک فیصلہ کن موقف اختیار کرنے کی بنا پر شکریے کا مستحق ہے۔ این آر سی کی کارروائی جورسمی طور پر مئی 2015 میں ترون گوگوئی کی زیر قیادت کانگریس کے دورِحکومت میں شروع ہوئی تھی ، سپریم کورٹ کی مداخلت سے اس کا بمشکل 50 فیصد کام ہی سونووال کی قیادت والی بی جے پی دور حکومت کی چار سالہ مدت میں ممکن ہوپایا ہے۔ 12 دسمبر 2018 تک اس پوری کارروائی کے لیے مبلغ 1220.93 کڑور کا بجٹ منظور کیا گیا تھا۔چنانچہ آسام کے لوگ اس بنا پر تذبذب کا شکار ہیں اور وہ کوئی حتمی رائے اختیار کرنے میں پس وپیش میں مبتلا ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ آسام میں این آر سی کی کارروائی کا عملی تصور دراصل2005 میں منموہن سنگھ کی قیادت والی مرکزی حکومت اور آسام میں ترون گوگوئی کی حکومت نےآسو کے ساتھ ایک سہ فریقی میٹنگ کے بعد پیش کیا تھاجو باضابطہ طور پر 2010 میں متعارف ہوکر روبہ عمل ہوا۔تاہم آمسو اور کچھ دیگر اقلیتی تنظیمیں اس کے نہج سے مطمئن نہیں تھیں۔اس کی مخالفت میں انھوں نے احتجاج کیے جس کے نتیجے میں برپیٹا میں 4 مسلم طلبہ کو گولی مار دی گئی اور 50 سے زائد لوگ شدید زخمی ہوئے۔آسام حکومت کو عارضی طور پر این آر سی کی کارروائی روکنی پڑی۔انگریزی روزنامہ دی ہندو نے 22 جولائی 2010 کی اشاعت میں درج ذیل رپورٹ شائع کی۔”نشیبی آسام کے اقلیتی آبادی رکھنے والے علاقوں میں پولس کی فائرنگ میں مارے جانے والے چار طلبہ کی موت پر ایک ریاست گیر ہڑتال کے دوران فساد پھوٹ پڑا ۔ حکومت نےنیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کی تجدید کا سلسلہ وقتی طور پر موقوف کردیا جس کی وجہ سے یہ تشدد رونما ہوا”۔
اس کے بعد آسام پبلک ورکس (اے پی ڈبلیو) بنام یونین آف انڈیا ودیگر، رٹ پٹیشن (سول)مرقومہ 274/2009 کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے دوٹوک موقف اپناتے ہوئے کئی آرڈر جاری کیا جس میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ این آرسی کی تجدید کاکام 2013 کے اندر اندر ایک متعینہ مدت میں مکمل کر لیں۔اس حکم نامے میں کورٹ نے یہ بات بھی کہی کہ وہ بذات خود آئندہ کارروائیوں کا جائزہ لیتا رہے گا نیز حکومتوں کوہدایت دی گئی کہ وہ کارروائی کا تفصیلی ڈھانچہ کورٹ کو پیش کریں۔” سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آسام میں این آر سی کی تجدید کا کام دسمبر 2013 میں شروع ہوا جسے تین سال کی مدت میں مکمل ہوجانا ہے۔این آر سی کی تجدیدی کارروائی سپریم کورٹ کی مسلسل نگہ داشت میں ہورہی ہے اورکورٹ وقفے وقفے سے مختلف ہدایات بھی دے رہی ہے۔”(Press Information Bureau Government of India, Ministry of Home Affairs, 04-April-2018) تاہم حکومت ایک بار پھر عملاً دسمبر 2013 سے اس سلسلے کو شروع کرنے میں ناکام رہی اور یہ کام دوبارہ مئی 2015 سے گوگوئی کی قیادت والی کانگریس حکومت کے دوران سپریم کورٹ کی بار بار تلقین کے بعد شروع ہوا ۔
این آر سی کو آر ڈی نیٹر پرتیک ہاجیلااپنی ذاتی کدوکاوش کے لیے تعریف وتحسین کے مستحق ہیں ۔ان کی اجتماعی کاوش بہت بہتر ہوسکتی تھی۔مگر وہ ریاست کی لاپرواہی کے چلتے ناکام ہوگئے۔سخت گیری ، مداخلت اور غیر تربیت یافتہ بلاک آفیسرز نےہاجیلا کی کارکردگی کو متاثر کیا۔
آج جو مسودہ ہاتھ آیا ہے وہ ایک ملغوبہ ہے۔40 لاکھ متروک ناموں کو جانے دیجیئے ، ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ آخر حالیہ مسودے کی خامیوں کو وہ کیسے دور کریں گے!راقم الحروف نے صرف ایک ضلع کریم گنج کے سے اہل خانہ اور ان احباب کے ناموں کا جائزہ لیا جن کو فائنل ڈرافٹ میں جگہ دی گئی ہے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اندراج شدہ لوگوں میں سے 86 لوگوں کے ناموں کا اندراج غلط ہے۔ان میں اسپیلنگ کی خامیاں، جنس کا تفاوت ،اور خاندانی رشتوں کا غلط اندراج شامل ہے ۔مثلاً بیوی،ماں،بیٹی ؛شوہر اور بیٹے کےنام اس فہرست میں بڑی لاپرواہی کے ساتھ جہاں تہاں درج کردیے گیے ہیں۔بلاشبہ یہ صورتحال مستقبل میں کسی ایسی فہرست کے مستند ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے درست اور مفیدہونے پر بھی سوالیہ نشان لگاتی ہے۔
این آر سی کا بنیادی مقصدیکبارگی تمام لوگوں کے لیے ایک ایسی فہرست مرتب کرنا تھا جس میں مارچ 1971 تک کے تمام مستند ہندستانی باشندے اور ان کی اولاد یں شامل ہوتیں نیز تمام غیر ملکی اس سے خارج ہوتے جس سے غیر ملکیوں اور غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کا قصہ ہمیشہ کے لیے آسام سے ختم ہوجاتا۔حالیہ مسودے نے اس مقصد کوبس جزوی طور پر حاصل کیا ہے؛اگر ریاست کی مشینری مزید پیشہ ورانہ طریقے سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی تو اور بھی بہتر نتائج حاصل ہوسکتے تھے ۔
اس پس منظر میں بی جےپی صدر امت شاہ کا 31 جولائی 2018 کو راجیہ سبھا میں یہ کہتے ہوئے کہ ” کانگریس حکومت آسام میں این آر سی لانے کی جرات نہیں کر سکی ،جبکہ ہم اور ہماری حکومت نے ایسا کر دکھایا ہے”اپنا سینہ ٹھونکناقوم کے ساتھ ایک عدد بےجا مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔انھوں نے پارلیامنٹ کے ایوان بالا میں اپوزیشن جماعتوں سے یہ بھی پوچھا کہ” کیا آپ لوگ ان 40 لاکھ بنگلہ دیشیوں کو بچانا چاہتے ہیں جو این آر سی کی لسٹ سے خارج ہیں ؟” اس سے معلوم ہوتا ہے یا تو مسٹر شاہ آسام اور نئی این آر سی کی کارروائی سے قطعی نابلد ہیں یا پھر وہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کے پیش کررہے ہیں اور آسام کی اس صورتِ حال کا ملک میں سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
مشہور سماجی ،سیاسی اور تعلیم وتعلم کے شعبے سے وابستہ افراد کے علاوہ موری گاؤں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے موجودہ ممبر اسمبلی راماکانت دیوری اورسلچر سے بی جے پی کے موجودہ ایم ایل اے، اور سابق ڈپٹی اسپیکر دلیپ کمار پال کی اہلیہ ارچنا پال کے نام بھی آسام کے فائنل این آر سی کی فہرست سے خارج ہیں۔تو کیا بی جے پی کے قومی صدر مسٹر شاہ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہیں کہ ان کے کم از کم ایک ایم ایل اے بنگلہ دیشی ہیں اور ایک دوسرے ایم ایل اے بنگلہ دیشی بیوی کے شوہر ہیں !یہ ناعاقبت اندیشی پر مبنی سیاست اور بے تکی بیان بازی کا نمونہ ہے۔
بات بی جے پی کی ہو یا کسی اور قومی یا علاقائی پارٹی کی، آسام کی اس نئی اور ہنوز نامکمل این آر سی کی تیاری میں کسی سیاسی پارٹی کا کوئی کردار نہیں ہے،بلکہ سیاست نے اس مسئلے کو اپنے اپنے رائے دہندگان کو بے وقوف بنانے کے لیے ہمیشہ طول دیا ہے۔اس کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ صرف سپریم کورٹ آف انڈیا ہے جو لمبے عرصے تک اس کی برابر تلقین کرتا رہا۔خصوصاً جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس روہنٹن فالی نریمان؛اور آسام پبلک ورکس (اے پی ڈبلیو) کے رٹ پٹیشن کےاصل دعویدارپردیپ کماربھوئیاں جو اس معاملے کی پیروی2006 سے ہی کر رہے ہیں ۔
این آر سی کا فائنل ڈرافٹ آخر ہے کیا؟
40 لاکھ لوگوں کے ناموں کا این آر سی کے مسودے سے چھنٹ جانا واقعی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔این آر سی کوآر ڈی نیٹر پرتیک ہاجیلا نے 31 جولائی 2018 کو سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ وہ 30 اگست سے 28 ستمبر 2018 تک تیس دنوں کے اندر دعووں یا اعتراضات کی وصولیابی مکمل کر لیں گے۔یعنی مطلب یہ ہوا کہ وہ تیس دن کے اس دورانیے میں بلاناغہ حتی کہ اتوار کی بھی چھٹی کیے بنا یومیہ 1.33 لاکھ فارم کی کاروائی مکمل کرنے جارہے ہیں !اب تو مسٹر ہاجیلا ہی جانتے ہیں کہ اس گراں بار ذمہ داری کو اتنی کم مدت میں وہ کیسے انجام دیں گے۔یا پھر وہ ایک اور بے ڈھب قسم کی فائنل لسٹ منظر عام پر لانا چاہتے ہیں جو نہ صرف آسام بلکہ پورے ملک کے لیے مشکلات کا باعث ہوگی۔
این آر سی کے فائنل ڈرافٹ سے جو نمایاں نام غائب ہیں بر سبیلِ تذکرہ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔موری گاؤں حلقے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے راماکانت دیوری، اسی طرح آسام اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر اور سلچر حلقے سے بی جے پی کے موجودہ ایم ایل اے دلپ کمار پال کی اہلیہ ارچنا پال، کچھاڑ کے کاٹی گورا حلقے سے ماضی میں دو بار ایم ایل اے رہ چکے مولانا عطاء الرحمٰن ماجھیر بھوئیاں، ابھیا پوری ساؤتھ (ایس سی) سے آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے ایم ایل اے اننت کمار مالو، نیز انڈین آرمی کے رٹائرڈ صوبے دار اجمل حق اور سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر فخرالدین علی احمد کے بھتیجے ضیاء الدین علی احمد وغیرہ ۔
کچھ ایسے بھی معاملات سامنے آئے ہیں جن میں غلطی کرنے کی کوئی تک نہیں ہے۔ این آر سی کے بنیادی مقصد کو حاصل کرنے کے لیےان دفتری اغلاط سے بچا جا سکتا تھااور حصول مقصد کے لیےاصلی شہریوں کے نام مسودہ مین شامل کر کے اس عمل کو بہتر بنا یاجاسکتا تھا۔ ہوجائی سے تعلق رکھنے والا میرا ایک شاگرد جس کی عمر 26 سال ہے اس کتربیونت کی وجہ سے پریشان ہےکیونکہ ان کی والدہ کا نام این آر سی کے فائنل ڈرافٹ سے غائب ہے۔
ایک 48 سالہ خاتون پھول جان بیگم کےمیکے والوں میں سےان کےوالد ،والدہ،بھائی اور بہنیں فہرست میں شامل ہیں ۔اسی طرح سسرالی رشتے میں ان کے شوہر ،بچے اور بچیوں کے نام بھی فائنل ڈرافٹ میں موجود ہیں ۔مزید براں ان کا اپنا نام بھی لنکیج ڈاٹا میں بیٹی ،بیوی اور ماں کی حیثیت سے اس نئی این آر سی لسٹ میں کئی جگہ مذکورہےمگر بحیثیت ایک شہری ہونے کے ان کا نام ڈرافٹ سے چھانٹ دیا گیا ہے!یہ بڑے اچھنبے کی بات ہے ۔گویا ان کی چاروں نرینہ اولادیں ان کی وساطت کے بغیر یاتو براہ راست آسمان سے ٹپکے تھے یا پھر انھوں نے اپنے ان بچوں کو جو اس وقت بڑے ہوچکے ہیں اور ہندستان کے شہری بھی ہیں کہیں پردیس میں جنا تھا۔دونوں صورتیں بدیہی طور پر غلط ہیں۔لیکن بھارت کی ریاست آسام میں 30 جولائی کو اشاعت پذیر مکمل این آر سی ڈرافٹ میں یہ لغو واقعہ پیش آچکا ہے۔
انڈین ایکسپریس نےاپنی 30 جولائی کی آن لائین اشاعت میں آسام کے برپیٹا ضلع سے ایک معاملہ کی خبر شائع کی ہے۔اس طویل مضمون میں بھانت بھانت کی بے ضابطگیوں کا ذکر ہے جن میں سے ایک کا احوال کچھ یوں ہے:”بوہوری ٹاؤن برپیٹا سے تعلق رکھنے والے فرہاد بھوئیاں جیسے بہت سے لوگ صبح سویرے این آر سی سیوا کیندر (این ایس کے) میں جمع تھے۔ بھوئیاں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ وہ چار افراد پر مشتمل اپنے کنبے کا تنہا فرد ہے جس کا نام لسٹ سے غائب ہے۔” جنوری میں جب پہلا ڈرافٹ شائع ہوا تھا ،ہم میں سے کوئی بھی اس میں شامل نہیں تھا۔بظاہر ایسا لگتا تھا کہ میرے والد کے نام میں املا کی غلطی سے ایسا ہوا ہے۔پھر مجھے نئے سرے سے تصدیق کرانےکو کہا گیا،تب میں نے تمام ضروری دستاویزات جمع کر دیےحتی کہ میرے والد کی شناخت کے لیے تین معمر شہریوں کی گواہی بھی پیش کی گئی ۔افسران نے مجھے یہاں تک کہا تھا کہ میں اس حوالے سے فکر نہ کروں۔اس کے باوجودآج کی لسٹ میں میرا نام موجود نہیں ہے”۔ بھوئیاں کو یقین ہے کہ کسی تکنیکی خامی کی وجہ سے اس کا نام لسٹ میں نہیں آسکا مگر پھربھی وہ پریشان ہے۔ بھوئیاں نے کہا”میرا خاندان اٹھارویں صدی میں آسام آیا تھا ۔مجھے یقین ہےمیں ایک ہندستانی شہری ہوں ،مگر پھر کوئی تکنیکی خامی واقع ہوگئی تو کیا ہوگا۔اس کا کہنا ہے کہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں”۔
میرے دفتر میں آسام سے تعلق رکھنے والے پانچ نوجوان ہیں ۔ان میں سے تین فائنل این آر سی ڈرافٹ سے متائثر ہیں ۔کریم گنج آسام کے رہنےوالے شمیم احمد عمر 28 سال کے دو ماوؤں سے 6 بھائی اور 3 بہنیں ہیں۔شمیم احمد کے سوا اس کی فیملی کے سبھی افراد بشمول اس کے چچا اور ان کی اولادوں کے نام فہرست میں شامل ہیں، حالانکہ اس کے پاس سال گزشتہ کا بنا ہوا پاسپورٹ بھی ہے۔بدرپور کے دلاور حسین عمر 22 سال 6 لوگوں کی فیلمی میں اپنی والدہ اور چھوٹی بہن کے ساتھ فہرست سے خارج ہیں۔اس کے والد ، ایک چھوٹا اور دوسرا بڑا، دو بھائی این آر سی ڈرافٹ میں جگہ پائے ہوئے ہیں۔ضلع کریم گنج آسام کے بدرپور کےایک اور باشندے انوار حسین عمر 23 سال کے گھر پر دو بھائی ،دو بہنیں اور والدین ہیں۔سات افراد پر مشتمل اس کی فیملی کے 6 لوگ بشمول حسین کےنام فائنل ڈرافٹ میں موجود ہیں مگر اس کی دس سالہ چھوٹی بہن شرمین بیگم ہی صرف این آر سی کے مقامی حکام کے شرائط پر پورا نہیں اتر پائی ،اسی وجہ سے اس خورد سال بچی کو فہرست سے خارج کردیا گیا ہے، ممبئی میں قیام پذیر جواں سال حسین کے لیے یہ سخت اضطراب کا باعث ہے۔
یہ چند مثالیں تھیں جن میں مخصوص افراد خانہ کے نام این آر سی ڈرافٹ میں نہیں آ سکے ہیں اور اس کی وجہ ظاہر ہے اندراج کنندگان کی کاہلی اور دفتری لاپرواہی ہے ورنہ ایک دس سالہ بچی شرمین بھلا کیسے لسٹ سے خارج ہوسکتی تھی جبکہ اس کے والدین اور دیگر بھائی بہنوں کے نام فہرست میں موجودہیں۔ دوسری طرف، این آر سی ڈرافٹ میں بعض اندراجات کی صورت حال بھی کافی مضحکہ خیز ہے۔
محمد عزیز الرحمٰن نامی ایک شخص کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔یہ سارے بچے بڑے ہیں ،ان کی اپنی فیملی اور بچے ہیں۔ این آر سی کی ہدایات کے مطابق ان چاروں لڑکوں نے الگ الگ اپلیکیشن رجسٹریشن نمبروں کے تحت درست کاغذات منسلک کرکے درخواستیں جمع کیں ۔چونکہ ان سب کے والد ایک ہی شخص ہیں تو لا محالہ انھوں نے اپنے والد سے وابستہ ایک جیسے کاغذات ہی لنکیج ڈاٹا اور لیگیسی ڈاٹا کے طور پر الگ الگ نمبروں والی درخواستوں کے ساتھ منسلک کیے۔این آر سی ڈرافٹ میں ان کے نام بشمول تمام افراد کنبہ کے شامل کیا گیا ،تاہم ان کے والد محمد عزیز الرحمٰن کا نام مذکورہ چاروں مقامات میں الگ الگ طریقے سےظاہر ہوا ہے۔ ایک جگہ یہ نام Azizul Rehaman ہے ، دوسری جگہ Azizur Rahman ہے Mohammad کے بغیر ،تیسری جگہ Mohamed Ajijulہے Rahmanکے بغیرساتھ ہی لفظ Azizur، Ajijul سے بدل گیا ہے؛چوتھی جگہ یہ نام Ajijul Haq لکھا گیا ہے ،گویا پورا نام ہی بدل دیا گیا!ایسا لگتا ہے کہ فاضل محرر نے قسم کھا رکھی تھی کہ وہ ان کے والد کے نام کے ساتھ جدت طرازی سے کام لیں گے اور چاروں مقامات پر نت نئے نام شامل کر کے ہی دم لیں گے۔ اب ان کی اولاد کو اصلاح کی کوئی شکل نکالنی ہوگی ،کیونکہ یہ آئندہ ان کے لیے دقت کا باعث ہو سکتا ہے۔انھوں نے درخواست کرتے وقت مقامی این ایس کے میں حکام کے پاس اپنے والد اور دادا دادی سے وابستہ کاغذات جمع کردیے تھے جن میں صاف طور پر ان کے والد کا نام Mohammad Azizur Rahman درج ہے۔
آسام کے رہنے والےفیس بک پر میرے ایک دوست ،سیمی نان،(سمیر) تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :” فائنل ڈرافٹ میں میری والدہ اور دوبھائیوں کے نام تو شامل ہیں البتہ میرے نام کو اس میں جگہ نہیں مل سکی۔لگتا ہے میں غیر فطری طریقے سے اس خاندان کا حصہ بنا تھا۔مزید برآں میرے بڑے بھائی کے نام میں نیز سارے القاب میں غلطیاں در آئی ہیں۔چنانچہ ہندستان کا ایک اصلی باشندہ ہونے کے باوجود، خود کو شہری ثابت کرنے کے لیےمجھے اب مزیدبے جا بھاگ دوڑ کرنی پڑے گی ،حالانکہ اس کے لیے صرف اور صرف این آر سی کی ٹیم کی عاجلانہ اور غیر ذمہ دارانہ روش ذمہ دار ہے”۔
این ڈی ٹی وی انڈیا کی سیاسی مدیر اور Behind the Bar نامی کتاب کی مصنفہ سنیترا چودھری نے ٹویٹ کرکےکہا:
“میں نے سنا ہے کہ امت شاہ نے این آر سی آسام میں غیر مندرج لوگوں کو گھسپیٹھ یا انفلٹریٹرس کہا ہے۔تو کیا میرے کزن جو گواہاٹی میں ایک بڑے ڈاکٹر ہیں، ان کی والدہ اورمیرے چچا جو تیز پور میں ہیں سبھی اب اس لقب سے ملقب ہوگئے ؟اور یہ سب کچھ سارے کاغذات جمع کرنے کے باوجود ہوا! کیسی ذہنی اذیت ہے یہ؟”
اسی طرح بہت سے لوگوں کو لسٹ میں موجود اپنے ناموں میں غلط اسپیلنگ اور کچھ دوسرے قسم کی اغلاط کا سامنا ہے۔ ” کہیں کہیں ایک مرد کی تصویر کسی عورت کے نام کے ساتھ چسپاں ہے۔ القاب ،جنس ،خاندانی تعلقات سب خلط ملط کا شکار ہیں۔بلکہ کہیں تو نام کا صرف درمیانی یا آخری جز یا تنہا یک لفظی نام ہی لسٹ میں درج ہے۔حال یہ ہے کہ اگر ایک شخص دولت پور گاؤں کا باشندہ ہے تو اسے دھرمپور لکھا گیا ہے،”ان خیالات کا اظہار آسام کی سلمٰی نامی ایک خاتون نے انڈین ایکسپریس کے صحافی کے سامنے کیا۔
کتابت کی یہ اغلاط ایسی ہیں جو بالکل نا مناسب اور پیشہ وارانہ طور سے ناقابل قبول ہیں،نیز ان عوامل نے بلا وجہ ان لوگوں کے لیے بھی آفت کا سامان کیا ہے جن کے نام ڈرافٹ لسٹ میں شامل ہیں۔ڈرافٹ پر ایک نظر ڈالتے ہی محسوس ہوجاتا ہے کہ اس میں کتابت کی ایسی غلطیوں کی بھرمار ہے۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ریاست کی مشینری نے اس مہتم بالشان کارنامےکی تیاری میں کس سنجیدگی سے کام لیا ہے؟ محمد عزیز الرحمٰن کے معاملے کو ہی لے لیجیے، بھلا ایک نام میں چار چار بار غلطی کرنے کی کیا تک ہے؟
یہ صورت حال جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ان 40 لاکھ لوگوں کے بارے میں صاف طور پر اشارہ کرتا ہے کہ ایک بڑی تعداد ممکن ہے محض کلرک کی لاپرواہی کے باعث نظر انداز کردی گئی ہو۔اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ریاست نے سپریم کورٹ کو مایوس کیا ہے۔ ممکن ہے بلاک آفیسرز، ٹائپسٹس اور کلرکوں کی انہی بھونڈی غلطیوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔حکومت نے لاکھوں لوگوں کو مشکل سے دوچار اور کوفت میں مبتلا کردیا ہے۔انھیں ایک بار پھر سےلسٹ میں اپنے نام درج کرانے کے لیے نجانے کتنے دن، مہینے یا سال این آر سی دفاتر کے چکر لگانے پڑیں گے۔
آخر اس بد نظمی کے لیے ذمہ دار کون ہے؟ ذاتی اور عوامی وسائل کےاضافی اور غیر ضروری اخراجات کا بھگتان کون کرےگا؟ ساری کی ساری کارروائی غریب و سادہ لوح کسانوں کے لیے بہت ہی تکلیف دہ اورگراں رہی ہے۔ممبئی سے آل انڈیا علما کونسل کے جنرل سکریٹری مولانا محمود دریابادی نے بجا طور پر اس پراز اغلاط لسٹ کے اسباب کی جانچ پڑتال کے لیے مکمل انکوائری اور خاطیوں کی سزا کا مطالبہ کیا ہے ۔مولانا دریابادی کا پریس کو دیا گیا بیان بڑے پیمانے پر 2 اگست کو اردو اخبارات نے نقل کیا ہے ،جس میں انھوں نے کہا۔”…. اضافی اخراجات کا بار آسام حکومت کے کارندوں کے ذمہ کیا جانا چاہئے جنہوں نے زمینی سطح پر یہ کام انجام دیا ،یا پھر وپرو کمپنی اس کی تلافی کرے جو این آر سی کی ویب سائٹ سنبھالتی ہے ، جیسا کہ اسے اس کی تجدید کے لیے سسٹم انٹگریٹر کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے”۔ ڈاٹا انٹری کے کام میں وپرو کے عمال متعین ہیں جو این آر سی کو اپڈیٹ کرتے ہیں۔
دہلی سے آل انڈیا مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے بھی آسام میں 30 جولائی کو شائع ہونے والی این آرسی پر ایک مضمون رقم کیا ہے،جسے آنلائن پورٹل millattimes.com نے اسی شام کو شائع کیا ۔حامد صاحب نے اپنے مضمون کا عنوان لگایا ہے :
(NRC exercise in Assam is a fraudulent exercise to steal citizenship of genuine Indians)
“آسام میں این آر سی کی کارروائی اصلی ہندستانیوں سے حق شہریت سلب کرنے کی ایک پر فریب کوشش ہے”۔
پرتیک ہاجیلا کی ٹیم کے ذریعہ کیے گیے اس ادھوری کارروائی نے امید وبیم کے ماحول میں مزید مسائل پیدا کر دیے ہیں۔تا ہم آسامی عوام چاہتی ہے کہ این آر سی کی تجدید کا کام درست اور معیاری طریقے پرانجام دیا جائے ۔وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ ہندو-مسلم ،آسامی-بنگالی اور علاقائیت پسندی کی سیاست سے اوپر اٹھ کر ترقی کے واقعی اسباب پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ماضی میں آسام نے کافی خوں ریزیوں کا مشاہدہ کیا ہے؛ اب یہ ریاست صرف امن اور اتحاد چاہتی ہےلیکن ایک صحیح اور مکمل این آر سی تمام آسامیوں کا درینہ خواب بھی ہے۔
مضمون نگار محمد برہان الدین قاسمی ایک آسامی نژاد اور ماہنامہ ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی کے ایڈیٹر ہیں